یہ اردو کے محسن

اپنے پچاس سال پرانے کاغذات چھانٹتے ہوئے ایسے ایسے جواہر نایاب نکل رہے ہیں کہ جی چاہتا ہے انہیں تعویذ بنا کر رکھوں۔ ان میں کچھ ایسے نام بھی آتے ہیں جو اردو زبان کی خاطر بڑا کام کرگئے ہیں، وہ باقی نہیں مگر ان کے نام ابھی ذہن سے محو نہیں ہوئے ہیں۔یہ میرے سامنے خطآراستہ ہیں:پروفیسر گیان چند جین۔کالی داس گپتا رِضا۔ اُپندر ناتھ اشک اور افسانے میں حقیقت کی روح پھونکنے والے محترم رام لعل۔ یہ سب میرے ہمدم تھے۔جگن ناتھ آزاد کے ہاتھ کا کوئی خط نہیں نکلا مگر و ہ دل سے بہت قریب تھے، اسی طرح پروفیسر گوپی چند نارنگ کی رفاقت نصیب ہوئی اور خوب ہوئی۔

کالی داس گپتا رضا کا لندن آنا مجھے خوب یاد ہے۔ با کمال انسان تھے۔ غالب کے ایسے مداح کم ہوں گے۔ صحیح معنوں میں محقق تھے۔ مرزا غالب کے ایک ایک شعر کی چھان پھٹک کی اور یہ معلوم کیا کہ انہوں نے کون سی غزل یا نظم کب اور کن تاریخوں میں لکھی۔ اس کے بعد انہوں نے غالب کا سارا کلام سلسلہ وار ترتیب دے کر شائع کیا جو حیرت انگیز تحقیق ہے۔ ان کے اس والہانہ انداز پر حکومت ہند نے انہیں بڑے بڑے اعزاز عطا کئے۔ ہندی زبان سے وابستہ ادارے انہیں دعوت دیا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں آکر لیکچر دیجئے اور ہمیں غالب کا کلا م سمجھائیے۔ خوشی خوشی جاتے تھے۔ بہت کم لوگ یقین کریں گے کہ کالی داس گپتا رِضا ساہوکارہ کرتے تھے۔ قرض پر پیسے چلاتے تھے۔ اس کاروبار میں ان سے زیادہ ان کی فیاضی کو شہرت حاصل تھی۔بہت سے ضرورت مندوں کا انہوں نے ہاتھ تھاما۔ان کا فروری سنہ دو ہزار ایک کا خط یہاں نقل کر رہا ہوں:

محبِّ گرامی تسلیمآپ کا کرم نامہ موصول ہوئے مدّت ہوگئی۔مکروہات ِ زمانہ نے فرصت نہ دی۔ اب کچھ فراغت ہوئی ہے تو جواب لکھ رہا ہوں۔ امریکہ میں آپ کے کامیاب سفر پر مبارکباد عرض کرتا ہوں۔میری کتابیں بہت ہیں، ساٹھ سے زیادہ۔ان میں سے چند ضروری (میرے خیال سے) جلد آپ کی نذر کردوں گا۔ کوئی آنے جانے والا مل گیا تو کیا ہی کہنا ورنہ ڈاک سے بھیج دوں گا۔ آپ کے ساتھ ملاقات سیر حاصل نہ رہی مگر جتنی رہی خوب رہی۔ جناب جاوید شیخ صاحب کے گھر میں بڑی رونق رہی۔ انہوں نے اور ان کی بیگم اور بچی نے میزبانی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کے اس جملے نے کہ’’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے غالب خود چل کر ان کے گھر آگئے ہیں‘‘ آج تک کانوں میں گونج رہے ہیں۔ میں تو اردو زبان و ادب کا ایک ادنیٰ سا خادم ہوں ۔ اردو والے جہاں بھی ہوں خوش رہیں۔ سب کو میرا غائبانہ ہی سہی، آداب ۔ ساوتری اور میری طرف سے بیگم عابدی کو سلام عرض کریں۔مخلص کالی داس گپتا رِضا۔ پسِ نوشت:ضعفِ عمر اور ضعفِ بینائی دونوں سد راہ ہیں اس لئے میری تحریر کی غلطیوں کو معاف فرمائیں۔ رِضا

یہ انکساری اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ بہت یاد رہیں گے۔ملتان کے غالب پرست لطیف الزماں خاں سے گہرے مراسم تھے جو ان سے ملنے بمبئی جانا چاہتے تھے، نہ جا سکے ۔ رِضا تخلص کرتے تھے اور رِضا کے نیچے زیر لگاتے تھے۔

میرے ہاتھ لگنے والا دوسرا خط اردو زبان اور قدیم ادب کے بڑے استاد پروفیسر گیان چند جین کا ہے جو انہوں نے زندگی میں پہلا غیر ملکی سفر شروع کرنے سے پہلے حیدر آباد دکن سے مجھے لکھا تھا۔ خالص تحقیق کے آدمی تھے اور زبان و ادب میں بڑا نام کر گئے۔ ریاست رام پور کے عروج کے دنوں میں وہاں کے قصہ گویوں کے کہے ہوئے قصے تحریری شکل میں انہوں نے ہی دریافت کئے اور قدیم ادب کی روایات پر خوب کام کیا۔ لندن آئے تو ان کے ساتھ کافی وقت گزارا۔میرے پروگرام شوق سے سنتے تھے ا س لئے میری خوب رہنمائی کی۔ ایسے سادہ مزاج کے شفیق بزرگ تھے کہ یہ قیاس کرنا بھی مشکل تھا کہ شعر و ادب کی رگ رگ سے واقف ہوںگے۔ اردو اور ہندی کے تعلق سے ان کا اپنا نظریہ تھا جس پر خوب خوب بحث چھڑی۔ شکر ہے زمانے نے ان کی قدر کی اور ان کی علمی کتب یقین ہے کہ زندہ رہیں گی۔ ان کا تقریباًچالیس سال پرانا خط یہاں نقل کر رہا ہوں۔

شعبۂ اردو۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد9فروری 83ء

محبِ مکرم تسلیم، آج کی ڈاک سے آپ کے عطا کردہ83کے دو کلینڈرملے۔بہترین طباعت اور کتابت اور ان سب پر مستزاد یہ کہ کلینڈر کا ہر ہر لفظ آپ کی نگاہِ الفت میں بسا ہوا تھا۔ کیونکر شکریہ ادا کروں کہ آپ ہر موقع پرمجھ کم زور کو یاد رکھتے ہیں۔ کتب خانے کا پروگرام کبھی کبھی سن لیتا ہوں۔آپ نے کتب خانہء آصفیہ ، حیدرآباد اور مہا راجہ صاحب محمودآباد کی لائبریری کے بارے میں میرے دوست ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی مختصر تقریر یں نشر کیں۔ وہ اچھے نقاد ہیں لیکن قدیم کتب سے انہیں کوئی تعلق نہیں۔ محمود آباد کی لائبریری کے بارے میں انہوں نے دو بار کہا کہ کلام حیدری اس کتب خانے تک رسائی حاصل کرسکے ہیں اور وہاں سے کتابیں لے کر شائع کرچکے ہیں۔ کلام حیدری ایک ترقی پسند ہیں جو رسالہ آہنگ ماہنامہ اور مورچہ ہفتہ وار گیا (بہار) کے ایڈیٹر ہیں۔ نارنگ صاحب کی طرح ان صاحب کو بھی قدیم ادب سے دلچسپی نہیں۔ دراصل محمودآباد تک پہنچنے والے ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری ہیں ۔ انہوں نے اور صرف انہوں نے اس کتب خانے تک رسائی حاصل کی۔

ہندوستان کا مرکزی حکومت کا ایک ادارہ ساہتیہ اکیڈمی ہے۔ یہ ہر سال ہند کی ہر زبان(22)میں شائع شدہ بہترین کتاب پر پانچ ہزار روپے کا انعام دیتی ہے۔ بعضے سال کسی بھی کتاب کو انعام نہیں ملتا۔ آپ یہ جان کر حیران اور خوش ہوں گے کہ 82کا اردو انعام میری کتاب ’ذکر و فکر‘ کو دیا گیا ہے۔

میں ابھی تک کبھی ملک کے باہر نہیں گیا۔ اب کے مئی اور جون میں اپنی دختر سے ملنے کے لئے امریکہ کیلیفورنیا جاؤں گا۔ ساتھ میں اہلیہ ہوگی۔ ارادہ ہے کہ ۱۱ مئی کو یہاں سے چلوں۔ ایک دو دن پیرس میں رکوں اور اس کے بعد تین چار دن لندن میں رہوں۔ اس وقت بی بی سی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا بشرطیکہ اس وقت تک زندگی مستعار وفا کرے۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔

مخلص گیان چند

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے