چھوٹے سے خط میں بڑی باتیں

یہ کراچی کی مشہور غالب لائبریری کا قصہ ہے جو اچھے زمانوں میں کتنی مقبول اور معروف ہو ا کرتی تھی۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی نیا نرالا کام کرنے والے مرزا ظفرالحسن نے اس جیتے جاگتے کتب خانے کو سنبھال رکھا تھا اور کتابوں اور رسالوں کا ایسا ذخیرہ جمع کرلیا تھا کہ مطالعے کے لئے لوگ کہاں کہاں سے چل کر ناظم آباد کے اس علاقے میں پہنچا کرتے تھے ،جو کسی زمانے میں شہر کراچی کا آخری کنارہ تھا۔ مرزا صاحب کے ہر ایک ہی سے مراسم تھے۔ بڑے بڑے نامی گرامی شاعر اور ادیب کچھ ان سے ملنے اور کچھ کتابیں دیکھنے اکثر لائبریری آیا کرتے تھے۔ ان کے گہرے دوستوں میں فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ یہ سب لوگ غالب لائبریری کو فروغ دینے میں بھی سرگرم تھے۔ اب وہاں جو منظر پیش آیا ہوگا اس کا ایک سِرا فیض صاحب کے ایک خط سے پکڑ میں آتا ہے جو کوئی چالیس سال پہلے لکھا گیا تھا اور میرے ہی نام کیوں،ہم جانتے نہیں مگر قیاس کر سکتے ہیں۔

اِن دنوں اپنے پچاس ساٹھ سال سے جمع ہونے والے کاغذوں کی چھانٹی کر رہا ہوں ۔ اس کارروائی میں کیسے کیسے جواہر نایاب ہاتھ لگ رہے ہیں، اپنے پڑھنے والوں کو ان میں حصہ دار بنانا چاہتا ہوں۔ ہوا یہ ہوگا کہ لائبریری کو فوٹو کاپی کرنے والی مشین کی سخت ضرورت تھی۔مطالعہ اور تحقیق کرنے والوں کا بڑا مطالبہ تھا مگر اب ایک سوال سراٹھائے کھڑا تھا کہ اتنی مہنگی مشین کے لئے پیسے ؟یہاں تو بھاری رقم درکار تھی۔ یہ بات فیض صاحب کے سامنے رکھی گئی ہوگی اور کہا گیا ہوگا کہ کسی دولت مند کو ایک فون کردیجئے، مشین شام تک آجائے گی۔فیض صاحب نے انکار کردیا ہوگا۔ تب یہ سوال اٹھا ہوگا کہ اب قرعہ نکالا جائے۔ مرزا ظفر الحسن کی نگاہ انتخاب میری طرف گئی ہوگی۔ انہوں نے میرا نام تجویز کیا ہوگا اور فیض صاحب نے تائید کی ہوگی۔ طے یہ پایا ہوگا کہ چونکہ عابدی صاحب لندن میں آباد ہیں جہاں ان کے ملنے والے سینکڑوں میں ہوں گے، کیوں نہ فیض صاحب انہیں چھوٹا سا سہی خط لکھیں اور یہ متوسط درجے کے احباب کچھ رقم ڈال کر مشین کی قیمت جمع کر سکتے ہیں۔ تو خواتین و حضرات اس طرح اُس روز فیض احمد فیض نے میرے نام دس بارہ سطروں کا خط لکھا جو میرے لئے کسی یادگار سے کم نہیں۔خط کا متن حاضر ہے۔(لفظ Copierاردو میں لکھنے کے لئے فیض صاحب نے کیا راہ نکالی، دیکھئے ):

ماڈل ٹاؤن۔لاہور۔۱۵ فروری ۸۳ء

مکرمی رضا علی عابدی صاحب۔ تسلیم

مرزا ظفرالحسن سے معلوم ہوا کہ آپ غالب لائبریری کے امور میں دلچسپی لے رہے ہیں،غالب لائبریری جیسے ادارے میں جہاں معلمین اور متعلمین تحقیق کے لئے بھی آتے ہیں، ایک پلین پیپر کاپی ار کی اشد ضرورت ہے۔ ایک فرد یا ادارے کے لئے ایسی مشین کا فراہم کرنا کچھ ایسا آسان نہیں ، اس لئے محبّان غالب سے درخواست ہے کہ وہ بھی جو امداد کرسکیں جمع کرکے ادارہ یادگار ِ غالب کے کھاتہ نمبر ۲۳۴ میں بذریعہ ڈرافٹ بھجوادیں۔مجھے امید ہے کہ آپ اور آپ کے احباب ازراہ غالب دوستی و اردو نوازی اس باب میں توجہ فرمائیں گے۔

مخلص: فیض احمد فیض

جہاں تک مجھے یاد ہے، میرے احباب نے کسی دل چسپی یا سرگرمی کا اظہار نہیں کیا تھا، میں بھی چپ ہوکر بیٹھ رہا تھا۔یہ اگلا خط اردو کی سرکردہ ناول اور افسانہ نگار محترمہ جمیلہ ہاشمی مرحومہ کا ہے۔ میں نے ان کے شوہر کی وفات پر تعزیت کا خط لکھا تھا جس کا انہوں نے بڑے خلوص سے جواب دیا۔ وہ جواب یہاں پیش ہے جو اپنے اندر معاشرے کی ایک پوری کیفیت لئے ہوئے ہے۔جمیلہ ہاشمی کا لندن آنا جانا رہتا تھا، ہر بار مجھ سے ملنے ضرور آتی تھیں، ان کے ساتھ ان کی نوعمر بیٹی ہوا کرتی تھی جس کا عاشی کے نام سے خط میں ذکر ہے ،وہی لڑکی آج عائشہ صدیقہ کے نام سے ساری دنیا میں جانی جاتی ہے۔بہت سرکردہ دانش ور ہے اور بڑے احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔خط پڑھئے اور سرائیکی معاشرے کی تصویر دیکھتے جائیے۔ان کے لکھے ہوئے ناول تلاشِ بہاراں، آتش رفتہ، دشت سوس اور روہی نہ پڑھے ہوں تو پہلی فرصت میں پڑھئے:

السیر۔سینٹ جونز پارک۔ لاہور کینٹ

۲۵جنوری ۸۵ء

جناب عابدی صاحب آداب، آپ کا خط ملا۔ شرمندہ ہونے کی کیا بات ہے۔ بھلا زندگی میں اتنے ہنگامے ہیں، اتنی مصروفیات کہ آدمی رُک کر رونے والوں کا ساتھ نہیں دے سکتا اور نہ ہی پریشان ہونے سے دوسرے کو فائدہ ہوتا ہے۔یوں دوستوں کی طرف سے تسلّی کا ایک لفظ بھی عجیب حوصلہ دیتا ہے ، جینے کا، آگے چلتے رہنے کا ایک اشارہ۔

میرے شب و روز ہی بدل گئے ہیں اور لندن سے گاؤں میں آکر یو ں بھی بہت تنہا لگتا ہے۔ کیونکہ شوہر تو یوں بھی مشرقی عورت کی کُل کائنات ہوتا ہے۔ پھر سردار احمد تو اتنے شفیق مہربان دوست تھے اور میرے معاملات کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے ’جینے دو‘ کی پالیسی پر ہمیشہ عمل کیا اور میں نے زندگی میں جو بھی کرنا چاہا ان کا تعاون مجھے ہر طرح سے ملا ۔ اب یہ ادھورا جینا مجھ سے جانے کب تک چل سکے گا۔ عاشی ابھی بہت چھوٹی ہے اور پھر جس پیار کی اسے عادت تھی وہ میں اسے شاید ہی دے سکوں۔ پیار میں تو کوئی اصول نہیں ہوتا اور میں تھوڑی اصول پرست ہوں چاہے وہ اپنی بچی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ باپ سے جس شدت سے محبت کرتی تھی مجھ سے کیونکر کر سکے گی۔اس کی زندگی کے اس خلا کو کوئی محبت پورا نہ کر سکے گی۔ وہ شخص جو مجھ سے کبھی الجھا نہیں وہ اپنی بیٹی کیلئے ہمہ محبت تھا، اب کہاں ہے؟میں اپنا ہی رونا لے بیٹھی کیونکہ یہ پہلا خط ہے جو کسی تعزیتی خط کے جواب میں لکھ رہی ہوں۔ آپ نے ہمارے لندن میں رہنے کے دوران جتنی توجہ اور عزت ہم ماں بیٹیوں کو دی اس کے لئے میں آپ کی مشکور ہوں۔

یہاں حالات بڑے بے ڈھب ہیں اور زمیندار خاندانوں میں جو روایتی مقدمہ بازی ہوتی ہے وہ شروع ہوگئی ہے مگر ان شاء اﷲ اس سے نمٹ کر میں او ر عاشی پھر لندن آئیں گے۔صرف یہ تکلیف ہوگی کہ ٹھہرنے کے لئے اچھے ٹھکانے اب نہ مل سکیں گے۔ مجھے کبھی اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بس یہی سوچ ہو گی۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ پاکستان آئیں گے۔ کب آرہے ہیں؟بہت سے لوگوں نے (ریڈیو پر) عاشی کی کہانی سُنی اور اسے بتایا تو بہت خوش ہوئی اور آپ نے اتنی مہربانی سے جو کنٹریکٹ بھجوایا تواور بھی خوش ہوگئی۔آج کل ا س کے او لیول کے امتحانات ہورہے ہیں ،۲۴ کو فارغ ہو کر وہ پھر لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ دے گی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر اسے لندن یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے تو مجھے یہاں کوئی کام ڈھونڈنا پڑے گا مگر یہ بھی ابھی مستقبل بعید کی بات ہے۔ جمیل صاحب حج سے واپس آکر میرے گاؤں آئے تھے ، میں نے آپ کا ذکر ان سے کیا تھا۔ آپ کی خوبیوں کے وہ بھی قائل ہیں۔

ایک بار پھر اس توجہ اور مہربانی کے لئے میں آپ کی شکر گزار ہوں۔

زیادہ دعاؤں کے ساتھ،جمیلہ

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے