ابنِ انشا، آغا ناصر اور مبارک علی

لوگ جب خط لکھ رہے ہوتے ہیں، نہیں جانتے کہ وہ تاریخ رقم کر رہے ہیں۔میرے نصف صدی کے کاغذات کے ذخیرے سے جو نایاب گوہر نکل رہے ہیں، ان میں اپنے قارئین کو حصہ دار بنائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تو عرض یہ ہے کہ جو اہل ِعلم ہوتے ہیں یہ دیوانے بھی ہوتے ہیں۔ کتنا ہی علم بٹور لیں، ان کی پیاس نہیں بجھتی۔ابن انشا ہمارے دوست تھے، آخر عمر میں لند ن آگئے تھے اور میری فرمائش پر ریڈیائی کالم لکھنے شروع کئے تھے، پہلا ہی لکھا تھا کہ کینسر نے دبوچ لیا اور چل بسے۔ ملکہ وکٹوریا کے عہد کے جہاں گرد مہم جو رچرڈ برٹن کے بڑے مداح تھے اور اس کے قصے سنایا کرتے تھے ۔رچرڈ برٹن نے دنیا زمانہ گھوم کے دیکھا اور تقریباً تیس زبانیں بولنے لگا۔انیسویں صدی میں کراچی بھی آیا تھا اور شہر کے قدیم علاقے میں رہا تھا جہاں دیکھتے دیکھتے کراچی والوں کی بولی بولنے لگا۔ نام بدلا، عرب مسلمان بن کر مکہ اور مدینہ جا پہنچا اور الف لیلہ جیسی کتابوں کا ترجمہ کرڈالا۔ابن انشا اس کی داستان حیات گھول کے پی چکے تھے مگر اَور اَور کی رٹ لگی ہوئی تھی ، لیجئے میرے نام مرحوم کا سنہ ۷۶ کا خط پڑھئے:

نیشنل بُک کونسل آف پاکستان۔ محمد علی جنا ح روڈ۔ کراچی

۲ فروری ۱۹۷۶ء

برادرم عابدی صاحب ، سلام مسنون

آپ کو ایک زحمت دے رہا ہوں۔کوئی ہفتہ عشرہ پہلے بی بی سی کے کسی پروگرام میں ذکر آیا تھا کہ ہمارے ممدوح سر رچرڈ برٹن کے کچھ کاغذات دریافت ہوئے ہیں۔ ان کی بیوی نے جو الاؤ دہکایا تھا ، غالباًاس کی باقیات ہیں۔میں نے یہ پروگرام نہیں سُنا۔ انگریزی کا کوئی فیچر یا بُک ریویو ہوگا۔ میرے ایک دوست نے سنا اور بتایا ۔بلکہ یہ بھی کہا کہ یہ کاغذات شائع بھی کردیے گئے ہیں۔ مجھے اس معاملے کی تفصیل مطلوب ہے۔ برٹن کے بارے میں کوئی بھی خبر ہو یا کوئی بھی نئی کتاب آئے آپ مجھے مطلع کردیا کریں تو عنایت ہوگی۔

(پروگرام) کتب خانہ کا سلسلہ آب و تاب سے چل رہا ہے ۔آپ کو ہمارے ہاں سے رسالہ کتاب بھی باقاعدگی سے ملتا ہوگا۔ پچھلے دنوں آپ کے ہاں سے ڈیوڈ پیج صاحب بھی آئے تھے۔ اُن کو بھی میں نے پروگرام کی مقبولیت کا بتایا۔ تو یہ زحمت کیجئے، آپ کی بیگم صاحبہ کو آداب۔ ابنِ انشا۔

آغا ناصر اچھے دوست تھے۔ان کے طولانی کیرئیر کے بارے میں چند لفظوں میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ریڈیو پاکستان کے راجا اور پاکستان ٹیلی وژن کے مہا راجا تھے۔میڈیا کے دو اتنے طاقت ور ہتھیار ان کے اختیار میں تھے ،اس لئے کبھی حکمرانوں کے منظور نظر رہے اور کبھی ان پر عتاب نازل ہوا مگر ان کی توقیر میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی۔ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا تیس پینتیس سال پرانا خط جو میرے پرانے کاغذات سے نکلا ہے، ان کے ٹی وی کے زمانے کی منظر کشی کرتا ہے ۔ نہایت نفیس انسان تھے۔دھیما سا مزاج، بلا کی تخلیقی صلاحیتیںاور اپنے میدان کے شہ سوار۔ ان کے خط کا ایک جملہ کسی ڈرامے کا مکالمہ لگتا ہے:’سات سال بعد ٹی وی میں واپس آیا ہوں تو دنیا ہی بدلی ہوئی ہے، اب اس کے سنورنے میں کچھ تو وقت لگے گا ہی نا‘۔۔ایک بے حد بااختیار شخص کا خط پڑھئے۔ آغا ناصر مرحوم:

اسلام آباد ۳ اپریل ۸۷

برادرم رضا علی عابدی السلام علیکم

آپ کے خط کا جواب تاخیر بلکہ بے حد تاخیر سے دے رہا ہوں۔ویسے تو آپ نے اپنے مبارکبادی خط میں جن احساسات کا اظہار کیا ہے اس کے لئے نہ جواب ممکن ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ پھر بھی خط کی وصولیابی کی رسید کے طور پر چند سطور آپ کو لکھ کر بھیجنا مناسب سمجھا تھا مگر اس ذرا سے کام میں اتنی دیر ہوگی اس کا مجھے اندازہ نہ تھا۔

سات سال بعد ٹیلی وژن میں واپس آیا ہوں تو دنیا ہی بدلی ہوئی ہے۔ کام اس قدر بڑھ گیا ہے (اورفضول قسم کا کام جس کا ٹیلی وژن سے کوئی تعلق نہیں ہے) کہ وقت کا قبضہ میں آنا دشوار ہوگیا ہے۔ بہر حال رفتہ رفتہ اس پر قابو پالیں گے۔ جس محکمہ کو بگڑنے میں اتنا وقت لگے، اس کے سنورنے میں بھی کچھ تو وقت لگے گا ہی نا۔بہر حال بھابی ماہ طلعت کو مبارکباد کا شکریہ۔ اور بیٹی کی شادی کے سلسلہ میں پیشگی مبارکباد۔ ان شاء اللہ جولائی میں جب آپ لوگ پاکستان آئیں گے تو ملا قات ہوگی ۔ یا شاید اس سے پہلے لندن میں اگر میں کانز کے ٹی وی مارکیٹ میں گیا تو۔

سب احبابانِ بی بی سی کو سلام، فقط آغا ناصر

ڈاکٹر مبارک علی،تاریخ کا علم ان پر ختم ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں پر نظر رکھتے رکھتے بینائی سے محروم ہوگئےمگر تاریخ کو مارکس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کی شکل و شباہت اوروںسے جد ا نظر آنے لگتی ہے۔غیرمعمولی مطالعہ ہے۔ جب پہلی بار ملے تو حیدر آباد میں اپنی کتابوں کی خود ہی کتابت کرکے انہیں چھپوا رہے تھے۔ مقصد تاریخ کے بارے میں اپنا نظریہ لوگوں تک پہنچانا تھا۔ بعد میں بہت سے ناشر ان کی کتابیں چھاپنے پر رضا مند ہوگئے۔کئی درجن کتابیں لکھ چکے ہیں اور لکھنا پڑھنا ایک دن بھی ترک نہیں کیا۔جو کوئی ان سے نہیں ملا، صحبت آدمی سے محروم ہے۔

۱۳ جولائی ۱۹۸۸

محترم رضا علی عابدی صاحب

آپ سے باتوں میں اس قدر مصروف رہا کہ آپ کا پتہ تک نہیں لیا تاکہ خط لکھ کر آپ کا شکریہ تو ادا کرتا۔ بہر حال بی بی سی کا پتہ تو سب ہی کو معلوم ہے۔ اسی پر یہ خط لکھ رہا ہوں۔ تسنیم کو میں نے خط اور ٹیپ دے دئیے بلکہ ٹیپوں کی ایک کاپی کروائی جسے میں روز ایک ایک کرکے سن رہا ہوں اور اس طرح آپ سے روز ملاقات رہتی ہے، بڑا مزا آرہا ہے۔

یہاں آکر تقریباً 8دن تک کراچی میں رہنا پڑا۔ حیدرآباد میں کرفیو تھا، اور قیامت کا سماں۔ اس کے اثرات اب بھی ہیں۔ یونیورسٹی بند ہے۔ روز دونوں طرف سے ایک دوسرے کو مارنے اور قتل کرنے کے بیانات آرہے ہیں اور اکّا دکّا واقعات ہو بھی رہے ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی کام ہو تو کیسے؟ لندن میں جوایک مہینہ سکون سے گزرا اس کے اثرات یہاں آکر فوراً زائل ہو گئے۔

افتخار عارف صاحب ملیں تو ان سے عرض کریں کہ میں انہیں کلیات ناصر کاظمی بذریعہ ہوائی ڈاک بھجوا چکا ہوں، اگر نہ ملے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں کیونکہ یہاں اوروں کی طرح ان کا (ڈاک خانے والوں کا)حال بھی خراب ہے۔وقار احمد صاحب اور اطہر علی صاحب کو میرا سلام پہنچا دیجئے گا۔

مبارک علی

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے