خارجہ پالیسی۔ خان اور قریشی

ایسا نہیں کہ وہ سمجھدار نہیں یا خارجہ پالیسی کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے۔ وہ ذہین باپ کے ذہین بیٹے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دیگر حادثاتی ارکانِ پارلیمان اور وزیر مشیر بننے والوں جیسے نادیدہ نہیں بلکہ ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی جنرل ضیا کے دور میں گورنر تھے اور یوں رموزِ حکمرانی کے بارے میں دورِ جوانی سے بخوبی واقف ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بھی حکومت میں رہے، آصف علی زرداری کی حکومت کے بھی مزے لوٹے، اب عمران خان کے وزیر خارجہ ہیں۔

سب سے بڑی بات یہ کہ وہ جس پارٹی میں بھی رہے، مستقل حکمران رہنے والوں کے کیمپ میں رہے۔ لہٰذا ایسا ہر گز نہیں کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حکمرانی یا خارجہ پالیسی کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے۔ وہ سیاست کو بھی خوب سمجھتے ہیں اور سفارت کاری کو بھی لیکن اب کی بار وہ پاکستان کی تاریخ کے ناکام ترین وزیر خارجہ ثابت ہوتے دکھائی دےرہے ہیں۔

خارجہ پالیسی کو بنانے اور چلانے سے جس قدر موجودہ دور میں وزارتِ خارجہ لاتعلق ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی اور جتنے سفارتی بلنڈرز موجودہ دور میں ہورہے ہیں، اس نے خارجہ محاذ پر پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وجہ اس کی قریشی صاحب کی ناتجربہ کاری یا ناسمجھی نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے مسائل اور عمران خان کے ساتھ ان کا عجیب و غریب تعلق ہے۔

شاہ محمودقریشی اور عمران خان کا سیاسی نظریہ ایک نہیں۔عمران خان نے 2002میں انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن ان کا جواب یہ تھا کہ وہ اس جیسے آدمی کو قائد نہیں مان سکتے۔ عمران خان کے دل میں وہ بات یقیناً ہوگی۔ پھر خان صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قریشی صاحب کسی نظریاتی یا شخصی ہم آہنگی کی وجہ سے ان کے پاس نہیں آئے بلکہ انہیں جہانگیر ترین اور اسد عمر وغیرہ کے ساتھ ان کے پاس لایا گیا۔

قریشی صاحب پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے والوں کے کہنے پر اس امید کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جائے گا لیکن صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست کی وجہ سے ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ یوں انہوں نے وزیر خارجہ کا منصب باامر مجبوری قبول کرلیا۔

قریشی صاحب کا روزاول سے انحصار ان لوگوں پر رہا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی بناتے اور چلاتے ہیں۔ دوسری طرف ابتدا میں ان کی بعض سرگرمیوں کی وجہ سے عمران خان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ ان کا متبادل بننا چاہتے ہیں۔ وہ چونکہ ہمہ وقت اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے درپردہ سرگرم رہتے ہیں، اس لئے ہر وقت عمران خان کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ وہ ان کے وفادار ہیں اور یہ کہ وہ ان کا متبادل نہیں بننا چاہتے۔ اس کے لئے انہیں خان صاحب کی حد سے زیادہ خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ یہاں میں ان کی اس شخصی کنفیوژن اور تضادات کو واضح کرنے کے لئے چند مثالیں دیتا ہوں۔

جب عمران خان نے اسمبلی کےفلور پر اسامہ بن لادن کو شہید کہا تو بطور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ فرض بنتا تھا کہ انہیں سمجھاتے کہ یہ کتنا بڑا بلنڈر ہے اور یہ کہ سفارتی محاذ پر اس کی پاکستان کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے لیکن وہ خاموش رہے۔

کابینہ میں کچھ اور وزرا نے عمران خان صاحب کو اس جانب متوجہ کیا اور مشورہ دیا کہ اس کی وضاحت ہونی چاہئے لیکن انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو اسی طرح مبہم رکھنا چاہئے حالانکہ پھر کچن کیبنٹ کے ساتھ بیٹھک میں انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتور لوگ آپے سے باہر ہورہے تھے

اس لئے اسامہ کو شہید کہہ کر وہ انہیں ان کی اوقات یاد دلانا چاہ رہے تھے۔ اس پورے معاملے میں عمران خان کی ناراضی سے بچنے کے لئے قریشی صاحب خاموش رہے۔ اب جب خودان سے افغان ٹی وی کے انٹرویو میں اس حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی۔ ظاہر ہے وہ بھی عمران خان کی طرح ان کو شہید کہتے تو مزید نقصان ہوتا اور پاکستانی ریاست کے روایتی موقف کے مطابق الٹ رائے دیتے تو عمران خان ناراض ہوتے۔

حقیقت یہ ہے کہ عمران خان خارجہ پالیسی کی نزاکتوں سے بالکل واقف نہیں۔ امریکہ کے دورے کے دوران چونکہ وہ وزیراعظم بنوائے جانے کے بعد پہلی مرتبہ امریکی صدر سے مل رہے تھے، اس لئے وہ تھوڑے سے جذباتی بھی تھے۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے مودی کے ارادوں کا بھی غلط اندازہ لگایا اور ٹرمپ کے کردار کا بھی۔

یہ شاہ محمودقریشی کا فرض تھا کہ وہ عمران خان اور دیگر حکام کو متنبہ کرتے لیکن وہ بھی عمران خان کی طرح دورہ امریکہ کا جشن منانے میں شامل ہوگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرلیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی خاموش سرپرستی کی۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر لوگوں کی دیکھا دیکھی اب کی بار شاہ محمود قریشی خارجہ امور میں بھی سیاسی ڈرامہ بازی لے آئے ہیں۔ مثلاً فلسطین میں جنگ بندی کرائی امریکہ، مصر اور قطر نے لیکن ملتان میں جشن منایا قریشی صاحب نے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ قریشی صاحب اور ترکی کے وزیرخارجہ کا اقوام متحدہ جانا اور وہاں تقاریر کرنا صرف خانہ پری تھی لیکن پاکستان واپسی پر قریشی صاحب نے ملتان میں اپنے حق میں صلاح الدین ایوبی ثانی کے بینرز لگوائے اور ایسا تاثر دیا کہ جیسے وہ کشمیر اور فلسطین فتح کرکے لوٹے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ترکی واپس لوٹنے کے بعد وہاں کے وزیر خارجہ نے ایساکوئی ڈرامہ کیا۔ افغان نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر قریشی صاحب دو تین دن تک خاموش رہے۔ پھر جب مقتدر حلقوں کی طرف سے جواب دینے کا فیصلہ ہوا تو قریشی صاحب نے ملتان کے جلسے میں جواب دیا۔ خارجہ تعلقات کی اپنی زبان ہوتی ہے لیکن قریشی صاحب نے جلسے میں جلسوں والی زبان استعمال کی۔

اسی طرح کی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن کالم کی تنگ دامنی مزید تحریر کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ تاہم پاکستان کو مزید سفارتی بلنڈرز سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ قریشی صاحب کے سامنے لکیر کھینچ دی جائے کہ وہ وزیرخارجہ کے طور پر صرف اپنی ذمہ داری پر دھیان دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے