خط میرے، نفاست لکھنؤکی

خط تو سب ہی لکھتے ہیں لیکن لکھنؤوالوں کے خطوں میں جو آداب محفل دیکھنے میں آتے ہیں ان کا جواب نہیں۔ اپنے چالیس پچاس سال پرانے کاغذات کو چھانٹتے ہوئے احباب کے جو خط نکل رہے ہیں ان کی اپنی ہی الگ دنیا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے انسانی رویوں کا مشاہدہ کرنا ہو تو پرانے خط پڑھئے اور دیکھئے کہ کمپیوٹر کے دور نے ہمارے مکالمے سے وہ سارا حسن نکال ڈالا جو ہر صبح آنے والا ڈاکیہ ہاتھ میں خطوں کا گڈّا اٹھائے لایا کرتا تھا۔اِس وقت میرے ذخیرے سے نکلنے والے وہ خط ہیں جو اردو زبان اور ادب کے بڑے محسن نیّر مسعود رضوی مرحوم نے لکھے تھے۔ وہ ہمارے عہد کے جیّدعالم پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب مرحوم کے بجا طور پر جانشین تھے۔ ہماری قرابت داری اپنی جگہ لیکن ان کی تحریر میں علمیت کے ساتھ اودھ کی تہذیب اور ثقافت کی جو چاشنی ملتی ہے وہ شاید زیادہ عرصے بر قرار نہ رہ سکے۔ان خطوں میں سادگی کے ساتھ نفاست کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ رکھ رکھاؤ ،وہ آداب محفل، وہی سلیقہ اور قرینہ۔ بس دیکھا ہی کیجئے۔ لیجئے نیّر بھائی کاپہلا خط پڑھئے۔

نیّر مسعود

ادبستان دین

دیال روڈلکھنؤ

۸ستمبر۱۹۸۵ء

رضا بھائی آداب عرض یہ تیسرا خط ہوا جارہا ہے۔ ایک ڈاک سے بھیجا تھا، ایک تصور حسین زیدی صاحب کے صاحبزادے کے ہاتھ جو وہ افتخار عارف صاحب کے حوالے کریں گے جن سے وہ آپ کو ملے گا۔یہ خط یاد دہانی کے لئے لکھ رہا ہوں کہ لکھنؤ کے گزشتہ دورے میں آپ نے ضامن عبّاس صاحب کے کچھ نوحے ریکارڈ کیے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ انہیں بی بی سی کے محرم کے پروگرام میں نشر کریں گے۔ضامن صاحب معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان نوحوں کا کیا ہوا اور کیا ہونے والا ہے۔ اگر اس سال محرم میں وہ نوحے نشر ہوں تو براہ ِ کرم تاریخ اوروقت سے مطلع کریں۔دیگر احوال یہ ہیں کہ تمثال اور صائمہ(بچے) بیمار رہنے کے بعد رو بہ صحت ہیں ۔ میں تندرست رہنے کے بعد رو بہ علالت ہوں۔

آپ کا نیّر

دوسرا خط۹ مئی ۱۹۹۰

رضا بھا ئی،آداب عرض’جرنیلی سڑک‘ اب بہ فراغت پڑھ چکا ہوں۔ اس وقت دوستوں میں گردش کررہی ہے اور دعویٰ کرسکتی ہے کہ

دیکھا ہے مجھے جس نے سو دیوانہ ہے میرا

آپ نے اس پروگرام کی تیاری میں سیر اور مشاہدے کے علاوہ کاغذی تحقیق بھی اتنی کی ہے کہ کتاب ایک علمی کارنامہ بن گئی ہے۔ اسلم محمود صاحب نے بھی یہ کتاب حاصل کرلی ہے، پرسوں دہلی سے فون کرکے انہوں نے خاص طور پر اس کی تعریف کی (وہ آپ کی بھی بہت تعریف کرتے ہیں)۔ میرے ایک دوست سید تصور حسین زیدی صاحب آج یا کل لندن پہنچیں گے۔ بہت عمدہ آدمی ہیں۔ پیاس کے موضوع پر انہوں نے بہت عمدہ شعر کہے ہیں۔آپ سے ان کی ملاقات غالباًہوگی۔ میری کتاب ’’مرثیہ خوانی کا فن‘‘ چھپ گئی ہے۔ایک جلد آپ کے لئے بھیج رہا ہوں۔ اس کا ٹائٹل میرا ہی بنایا ہوا ہے۔ دیگر حالات بدستور ہیں۔ امید ہے آپ سب بہ خیریت ہوں گے۔

آپ کانیّر مسعود

تیسرا خط۱۳ ستمبر ۱۹۹۰ء

مختلف ذریعوں سے آپ کو دو (یا تین)خط بھیج چکا ہوں۔ ان میں کوئی جواب طلب بات نہ تھی بجز اس کے کہ علی صدیقی کی عالمی کانفرنس (دہلی ، حیدرآباد)یا ظفر نبی کے ساحر لدھیانوی سیمینار (لکھنؤ) میں آپ آرہے ہیں یا نہیں۔میرے بہت عزیز شاگرد ڈاکٹر سلمان عباسی لندن جارہے ہیں۔ یہ بہت فعّال، با صلاحیت اور مخلص آدمی ہیں۔آپ کے مداّح اور آپ سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ آپ بھی یقیناً ان سے مل کر خوش ہوں گے۔ صاحب تصانیف کثیرہ ہیں ، شعر بھی اچھے کہتے ہیں۔

’ اردومرکز‘ تو سنا ہے ختم ہورہا ہے۔معلوم نہیں افتخار عارف کا ا ب کیا پروگرام ہے۔ سب کی طرف سے حسبِ مراتب۔

آپ کانیّر مسعود

چوتھا خط میری اہلیہ (نیّر مسعود کی ننھیالی بہن) کے نام

۹ مئی ۱۹۹۰ء

ماہ طلعت دعائیں تمہارا خط مل گیا تھا لیکن اِدھر کچھ اس طرح کی مصروفیتیں رہیں کہ اطمینان سے لکھنے کا موقع نہیں مل سکا۔اطمینان اب بھی میّسر نہیں لیکن خط بھیجنے کا ایک معتبر ذریعہ نکل آیا تو عجلت میں لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔

ہم لوگ ٹھیک ٹھاک ہیں۔ یہاں کے سیاسی حالات وغیرہ جس ابتری کو پہنچ گئے ہیں ان کی وجہ سے تشویش کے عالم میں بسر ہوتی ہے کہ معلوم نہیں کب کون سی آگ بھڑک اٹھے۔ خیر، اﷲ مالک ہے۔صبیحہ ، دوسری بھاوجیںاور بچے تم کو یاد کرتے رہتے ہیں اور ہم سب کی دلی خواہش ہے کہ تم لوگ کم سے کم ایک بار یہاں آکر کچھ دن اطمینان سے رہو۔ رضا بھائی کا تو پروگراموں کے سلسلے میں باہر نکلنا ہوتا ہے۔ تم بھی ان کے ساتھ پروگرام بنالو۔ داور خاص طور پر تم کو یاد کرتا ہے۔ آج کل تو پاگلوں کی طرح پڑھائی میں لگا ہوا ہے۔ بجیا الہ آباد میں ہیں۔ اُن کی بیٹی شہلا زامبیا سے آئی ہوئی ہے۔ ہم سب کی طرف سے تم سب کو حسبِ مراتب۔

آپ کا نیّر

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے