میں اور میری ’’میسنی‘‘!

میں ایک دفعہ پھر اس ’’میسنی‘‘ کے چکر میں آیا ہوں جس کا ذکر میں نے ایک دفعہ اپنے کالم میں کیا تھا۔ واضح رہے ’’میسنی‘‘ وہ ہوتی ہے جو پسِ پردہ سب خرابیوں کی ذمہ دار ہو لیکن بظاہر بےگناہ لگے۔ بس یہی میسنی ان دنوں مجھے چمٹی ہوئی ہے۔ کسی کام میں میرا دل نہیں لگتا، لکھنے بیٹھوں تو یہ لکھنے نہیں دیتی۔ پڑھنا چاہوں تو اس میں بھی روڑے اٹکاتی ہے اس کی موجودگی میں کھانے پینے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ یہ ہر وقت اپنی طرف متوجہ رکھتی ہے یہ میسنی دراصل نزلہ، زکام اور کھانسی کی صورت میں سامنے آتی ہے جس کے متعلق ایک نام نہاد ’’شاعر‘‘ نے کہا ہے کہ نزلہ زکام کھانسی قومی نشان ہمارا۔

سو یہ گزشتہ چند دنوں سے آناً فاناً مجھ سمیت کچھ دوستوں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ میں نے اس مرض کے بارے میں کافی تحقیق کی ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب کسی بچے کو نظر انداز کیا جائے تو وہ اہلِ خانہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے کوئی ایسی حرکت کر گزرتا ہے جس کے نتیجے میں سب اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں چنانچہ یہ مرض بھی دراصل احساسِ محرومی کا شکار ہے۔ یار لوگ شروع میں اسے زیادہ لفٹ نہیں کراتے ڈاکٹر تو اسےقطعاً اس قابل نہیں سمجھتے کہ اسے زیادہ سیریس لیا جائے۔ چنانچہ وہ اس کے مریض کو کوئی دوا تک لکھ کر نہیں دیتے بلکہ اس کا سارا زور مکمل آرام کرنے پرہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ کھانسی روکنے کے لئے غرارے کرنے کو کہا جاتا ہے یا کوئی سیرپ لکھ دیا جاتا ہے بلکہ اس مرض کی تو خاص توہین بھی کی جاتی ہے جس کی ایک صورت یہ مقولہ بھی ہے کہ نزلہ زکام کا اگر علاج کیا جائے تو ایک ہفتے میں آرام آ جاتا ہے اور نہ کیا جائے تو سات روز میں ٹھیک ہو جاتا ہے اب خود ہی اندازہ لگا لیں کہ اس درجہ تضحیک آمیز مقولوں کےبعد یہ مرض انسان پراتنی شدت سے کیوں حملہ آور نہ ہو کہ اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہو جائے اور یوں وہ لکھنے پڑھنے اور کھانے پینےسے بھی جائے۔

صرف یہی نہیں بلکہ یہ بیماری تو اس قدر منتقم مزاج ہے کہ اگر انسان زیادہ عرصہ اس کی طرف متوجہ نہ ہو تو پھر یہ اس کے جسم و جان پر بڑے خوفناک طریقے سے حملہ آور ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں تویہ مرض مرض الموت بھی ثابت ہوسکتا ہے، کورونا نےیہی کام تو کیا۔جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ کھانسی روکنے کے لئے محتاط قسم کے ڈاکٹر عموماً غراروں اور سیرپ سے آگے نہیں جاتے۔ اپنے بیماروں سے اپنی اس بے قدری کا بدلہ جس طرح کھانسی لیتی ہے اس کی عملی صورت غرارے کی صورت میں اس وقت سامنے آتی ہے جب ایک اچھا خاصا معزز انسان اپنے حلق سے مضحکہ خیز آوازیں نکالنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور جہاں تک سیرپ کا تعلق ہے اس میں نشے کی اتنی مقدار ضرور ہوتی ہے کہ اس کا ایک ’’پیگ‘‘ پینے کے بعد انسان:

؎ بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے

کی تصویربنا نظر آتا ہے چنانچہ دوسرے نشہ آور مشروبات کی ’’غیر ضروری‘‘ مہنگائی کی وجہ سے رند قسم کے لوگ سیرپ کی پوری بوتل ایک ہی ’’ڈیک‘‘ میں پی جاتے ہیں اور پھر غل غپاڑہ کرنے پر پولیس انہیںپکڑ کر لے جاتی ہے۔

نزلہ زکام ایسے امراض میں سے کھانسی ایک انتقام ہے جو وہ خود کو اہمیت نہ دینے کی صورت میں لیتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ لوگ مکمل توجہ کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ شاعر نے ’’میرے وَل تک سجنا‘‘ والا گیت بلاوجہ نہیں لکھا تھا تو اگر انسانوں کا یہ حال ہے تو نزلہ زکام کھانسی سے کیا گلہ۔ آخر ان کے سینے میں بھی دل ہے۔ ان کی بھی خواہش ہے کہ کوئی ان کی طرف دیکھے اور ان کے ناز نخرے اٹھائے۔ ان کے لئے پریشان ہولیکن جب ڈاکٹر حضرات ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے افراد کو صرف آرام یا غرارے کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تو پھر یہ مرض بھی اپنی ’’آئی پر‘‘ آ جاتا ہے اور مریض کے دماغ کو اس طرح جکڑ کر رکھ دیتا ہے جیسے عامل اپنے معمول کی جکڑ بندی کرتا ہے۔ میں خود گزشتہ ایک ہفتے سےاس عامل کا معمول بنا ہوا ہوں۔ لکھنے بیٹھتا ہوں تو لکھا نہیں جاتا کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس میں ناکامی ہوتی ہے۔ دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیںہوں۔ کوئی خوبصورت چہرہ بھی خوبصورت نہیں لگتا۔ اگر کوئی لگتا تھا اور میں اس کا اظہار کرتاہوں تو وہ کہتا ہے ’’مجھ سے ناک پونچھ کر بات کرو‘‘ یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ صحت مند مجھے صحت مند اور مریض مجھے مریض نہیں سمجھتے۔ اس نزلہ زکام کی وجہ سے میں نہ ’’شی اوں‘‘ میں ہوں اور نہ ’’ ہی اوں‘‘ میں ہوں۔

تاہم اس نزلہ زکام کا ایک فائدہ بھی ہے۔ میں گزشتہ روز دوستوں کی ایک محفل میں گم سم بیٹھا تھا وہ ہنس بول رہے تھے اور میں ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویربنا بیٹھا تھا۔ اس عالم میں بہت عرصے کے بعد ایک جملہ سنا جس سے دل کو تقویت حاصل ہوئی۔ یہ جملہ اس سرگوشی کی صورت میں تھا جو ایک دوست نے میرے کان میں کی ’’سچ سچ بتانا کسی کو دل تو نہیں دے بیٹھے جو یوں گم سم بیٹھے ہو؟‘‘میں نے خاموش رضامندی والا مقولہ سن رکھا تھا چنانچہ خاموش رہا۔ اس کے بعد سے مجھے مسلسل فون آ رہے ہیں ’’آپ کو میری جان کی قسم سچ سچ بتائیں آپ نے کس کو دل دیا ہے؟‘‘مجھے ایسے جملوں کے بعد کافی افاقہ محسوس ہوتا ہے!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے