دلیپ کمار اور سید ضمیر جعفری!

چند عشرے قبل حیدر آباد (دکن) میں دنیا بھر کے مزاح نگاروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان سے سید ضمیر جعفری اور راقم الحروف کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ پندرہ دن حیدر آباد میں قیام کے بعد سید ضمیر جعفری اور میں بذریعہ جہاز سیر سپاٹے کے لئے ممبئی روانہ ہو گئے، جب ہم لاؤنج سے باہر آئے تو دیکھا ایک جگہ لوگوں کا جمِ غفیر لگا ہوا ہے۔ جعفری صاحب نے کہا آئیں دیکھیں، کیا ماجرا ہے۔ ہم آگے گئے تو دیکھا، دلیپ کمار کھڑے ہیں، یہ میری زندگی کے خوشگوار ترین لمحوں میں سے ایک لمحہ تھا۔ میرے سامنے میرا محبوب اداکار کھڑا تھا اور نہایت خوشدلی سے مداحوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔ جعفری صاحب آگے بڑھے اور کہنے لگے، ہم دونوں پاکستان سے آئے ہیں، میں ضمیر جعفری ہوں اور میرے ساتھ نوجوان مزاح نگار عطاء الحق قاسمی ہیں۔ اللہ جانے وہ ہم دونوں کے نام سے واقف تھے یا نہیں لیکن پاکستان کا لفظ سن کر ان کی آنکھوں میں محبت کی چمک نظر آئی اور انہوں نے نہایت پُرجوش انداز میں ہم سے مصافحہ کیا اور کچھ دیر تک باری باری ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے رکھے۔ پھر دلیپ کمار نے ہم سے پوچھا آپ ممبئی میں کتنے دن ہیں، ہم نے بتایا صرف تین دن،یہ سن کر انہوں نے اپنا فون نمبر ہمیں دیا اور کہا میں ابھی بنگلور جا رہا ہوں، واپسی پر آپ سے ملاقات ہونی چاہئے۔ میرا فون نمبر آپ کے پاس ہے، آپ پرسوں مجھے ضرور کال کریں، ہم کہیں بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور آپ سے پاکستان کی باتیں سنیں گے۔

کیا عالی شان انسان تھا، کروڑوں دلوں کی دھڑکن، جس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ ترستے تھے، وہ فلائٹ کے انتظار میں ایئر پورٹ کے باہر کھڑا عام لوگوں سے گپ شپ کر رہا تھا اور ہم دو غیرملکیوں کو کھانے پر مدعو کر رہا تھا، وہ پاکستان سے محبت کرتا تھا اور اس حوالے سے پاکستانیوں کے لئے بھی اس کے محبت بھرے جذبات چھپائے نہ چھپ رہے تھے۔ اتنے میں بنگلور کی فلائٹ انائوننس ہو گئی، لائونج کی طرف جاتے ہوئے اس عظیم اداکار اور عظیم انسان نے جعفری صاحب اور میرے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے از راہِ مزاح کہا ’’دیکھیں میرا فون نمبر کہیں گم نہ کر دیں‘‘، بڑے لوگوں کو علم نہیں کہ انکساری سے ان کا رتبہ کم نہیں ہوتا بلکہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک دفعہ وہ پاکستان آئے، اپنا آبائی گھر دیکھنے پشاور گئے اور ایک موقع پر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ حکومت نے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ پاکستان دے کر ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ جرنلسٹ طاہر سرور میر جو پاکستان اور انڈیا کے اسٹارز سے مسلسل رابطے میں ہیں، نے ان کی وفات پر لکھا کہ جب نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے شکرانے کے دو نفل پڑھے، طاہر سرور میر کو یہ بات سائرہ بانو نے بتائی، اور ہاں ان کی وفات پر مودی جیسے فرقہ پرست کی حکومت نے ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی۔ ان کی میت کو گارڈ آف آنر کی رسم کے دوران قبر میں اتارا گیا۔ اللہ تعالیٰ دلیپ کمار کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔

اب موضوع سے ہٹ کر کچھ باتیں۔ بمبئی میں ہمارے ٹیکسی ڈرائیور نے ایک ہوٹل کے سامنے گاڑی روکی اور کہا یہ بمبئی کے بہترین ہوٹلوں میں سے ہے۔ اور ہاں یہ ٹیکسی ڈرائیور، جو سکھ تھا، سارے رستے فلم ’’مولا جٹ‘‘ کے ڈائیلاگ پورے گھن گرج کے ساتھ سناتا رہا۔ ضمیر جعفری نے کمرے میں داخل ہونے کے فوراً بعد اپنا سوٹ اتارا اور دھوتی اور بنیان میں بستر پر کہنی کے بل لیٹ گئے۔ ضمیر جعفری صاحب جہاں صف اول کے مزاح نگار تھے وہاں صف اول کے انسان بھی تھے، کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی برائی کرتا تو وہ اس کی کوئی اچھی صفت بیان کردیتے تھے، آپ یقین جانیں کہ حیدر آباد دکن اور بمبئی میں قیام کے دوران میں غیبت کے لئے ترس کر رہ گیا۔ان کی انسان دوستی کا ایک رخ میں نے بمبئی میں بھی دیکھا، لاہور سے روانہ ہوئے اور بمبئی پہنچنے تک وہ اپنے ایک ہندو شاعر دوست کا ذکر بڑی محبت سے کرتے رہے۔ وہ بمبئی میں رہتا تھا چنانچہ انہوں نے اس کی تلاش شروع کردی، اس کی تلاش جس کا ایڈریس بھی ان کے پاس نہیں تھا، مجھے شاعر کا نام یاد نہیں رہا، بس اتنا یاد ہے کہ وہ راہگیروں سے اس کا پتہ پوچھتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ جہاں کہیں کسی اردو شاعر کا پوسٹر دیکھتےاس میں موصوف کا نام تلاش کرتے، جب نظر نہ آتا تو اداس ہو جاتے۔ ب

الآخر کہنے لگے ’’کوئی ٹیکسی لیتے ہیں، انہیں اکثر مقامات اور افراد کا پتہ ہوتا ہے‘‘، چنانچہ ایک ٹیکسی ہائر کی گئی اور اس میں بیٹھتے ہی اس شاعر کے بارے میں پوچھا، اس نے نفی میں سر ہلایا۔ پھر ضمیر صاحب رستے میں مختلف مقامات پر گاڑی روکتے اور کسی راہ چلتے سے شاعر موصوف کے بارے میں پوچھتے اور ہر دفعہ نفی میں جواب پا کر اداس ہو جاتے۔ ایک اور مقام پر اسی طرح گاڑی رکوائی اور ایک شخص سے شاعر کی رہائش کا پوچھا۔ اس نے ایک طرف اشارہ کرکے کہا ’’وہ سامنے والا گھر انہی کا ہے‘‘۔اس وقت جعفری صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ ٹیکسی اس کے گھر کے سامنے رکوائی، بیل دی، اندر سے ایک صاحب دھوتی کو لنگوٹی کے انداز میں پہنے باہر نکلے، جعفری صاحب کی آنکھیں فرط مسرت سے بھیگ گئیں، آگے بڑھ کر اس سے معانقہ کیا، مگر اس شاعر کے چہرے پر خوشی کے دور دور تک آثار نہ تھے۔ ہم اس کے پاس آدھ گھنٹہ بیٹھے، شایداس نے چائے پلائی تھی یا شاید نہیں پلائی تھی، بہرحال جب اٹھ کر باہر آئے تو ضمیر صاحب کافی دیرتک خاموش رہے، میں نے ان کےچہرے کی طرف نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے کہ اپنے دوست کی سردمہری پر ان کی آنکھوں میں پانی سا ضرور تیرگیا ہوگا!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے