قومی و یکساں نصاب اور مادری زبانیں

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے طلباءکویہ ’نوید‘سنادی کہ امتحانات ہر صورت ہوںگے۔ گلگت بلتستان میں نیشنل کالج آف آرٹس کا کیمپس کھول دیا جائےگا۔ گلگت بلتستان کے طلباءو طالبات کے لئے 56کروڑ کی خصوصی گرانٹ کا بھی اعلان کردیا جو سکالرشپ کے لئے مختص کئے جائیں گے جن سے ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی جاسکے گی۔ 60کروڑ مالیت کا منصوبہ تکنیکی مہارت کے لئے مختص کرنے کا اعلان کردیا جبکہ 600 طلباءکے لئے جدیدمضامین کے سکالرشپ کا بھی اعلان کردیا جن میں آرٹیفیشل اینٹیلیجنس، ڈیٹا سائنس ودیگر شامل ہیں۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا بنیادی مدعا قومی نصاب کے متعلق تھا جس پر انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ قومی نصاب تیار کرلیا گیا ہے جو کہ تمامسرکاری ، نجی تعلیمی اداروں اور مدارس پر بھی لاگو ہوگا۔ شفقت محمود نےاس بابت اپنے خیالات کاا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ بدنصیب ملک ہے جہاں پر جس کا جی چاہا ویسا نصاب متعارف کرایا گیا ہے جس کی وجہ سے تقسیم درتقسیم شروع ہوگئی ۔ پہلی مرتبہ وفاقی حکومت نے قومی نصاب کے لئے قدم اٹھایا ہے جس کا مقصد تمام تعلیمی اداروں کو برابری کی سطح پر لانا ہے ۔ وفاقی وزیر شفقت محمود کی پریس کانفرنس کے دوران ہی خیال آیا کہ اس سےگلگت بلتستان کے متعلق سوال کیا جائے اور پہلا خیال صوبائی وزیر تعلیم کے متعلق تھا جو اپنا عہدہ سنبھالنے سے لیکر اب تک مکمل طور پر منظر سے غائب ہیں، خوش قسمتی یہ ہوئی کہ پریس کانفرنس کے دوران ہی وفاقی وزیر نے اپنے بائیں جانب موجود خاموش مزاج شخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی وزیر تعلیم راجہ اعظم صاحب بھی موجود ہیں ورنہ نجانے کہیں نہ کہیں سے تو سوال نے آنا تھا کیونکہ راجہ اعظم جب سے وزیر تعلیم بنے ہیں تب سے اب تک کہیں پر بھی سامنے نہیں آئے ہیں؟ ایک عرصے تک تو اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر رہے تاہم بعد کے اجلاسوں میں انہوں نے شرکت تو کرلی لیکن اب تک لب کشاہی کچھ نہیں کی ہے۔

حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے کہ تعلیم کے میدان میں بہت بڑا قدم اٹھانے جارہی ہے ۔ اس قدم میں کسی بھی قسم کی جلدبازی آئندہ کی نسلوں پر اثر انداز ہوگی۔ اس تعلیمی نظام اور قومی نصاب پر عملدرآمد کرانے سے قبل ملک کی جغرافیائی صورتحال کو دیکھنا ناگزیر ہے۔ راقم نے وفاقی وزیر شفقت محمودسے یہی سوال کیا تھا کہ پاکستان اس وقت 6 اکائیوں پر مشتمل ملک ہے جس میں چار صوبے ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہے، ان تمام علاقوں کی ایک قومی نصاب میں کس طرح نمائندگی کی جاسکتی ہے؟ دوسرا سوال مادری زبانوں کے متعلق تھا جن کو نصاب میں شامل کرنے، نصابی زبان بنانے اور قومی سطح پر ان کے تحفظ کے لئے سابقہ حکومت کے دور میں کچھ کام ہوا تھا تاہم آپ (وفاقی وزارت تعلیم) کے دفتر میں آکر وہ فائل گم گئی ہے تو ان زبانوں کے تحفظ اور ترویج میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ان دو معاملات پر مبنی سوال کے جواب میں وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ’پہلی مرتبہ قومی اور یکساں نصاب تعلیم شروع کیا گیا اور ابتدائی مراحل میں ہے جس کے عملدرآمد میں صوبائی حکومتوں کا کردار ہے۔ مادری زبانوں پر انہوں نے کہا کہ ان کی ترویج کی اہمیت مسمم ہے تاہم ایسی کوئی پالیسی زیر غور نہیں ہے۔یہ جواب غیر تسلی بخش تھا جسے صحافتی زبان میں ’گول کرنا‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ بھی سمجھ نہیں آسکا کہ یکساں نصاب کے زریعے ترقی کے زینے طے کرنے والے اداروں کو کھینچ کر منجمد اداروں کے برابر کردیا جائے گا یا پھر منجمد اداروں کو ترقی کی جانب گامزن کیا جائے گا۔

پاکستان کی تمام اکائیوں کا پس منظر ، تاریخ اور جغرافیہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے ، کہیں پر صرف شاہراہ قراقرم مشترک ہے تو کہیں پر دریائے سندھ مشترک ہے، کہیں پر جی ٹی روڈ مشترک ہے تو کہیں پر سمندری تعلقات ہیں ۔ ہر صوبہ بلکہ صوبے کے اندر بھی متعدد اقوام بس رہی ہیں جو اپنا تاریخی پس منظر رکھتی ہیں اور بھرپور ثقافت کے مالک ہیں۔اس ساری صورتحال کو اگر حکومت نے نظر انداز کرکے عجلت میں فیصلہ کرلیا تو یقینا منفی نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں، کیونکہ کوئی صوبہ نہیں چاہے تو کہ اس کے بچے کسی اور صوبے یا علاقے کے ہیروز کی کہانیاں پڑھیں، مقامی سطح پر اپنے زخائر کو چھوڑ کر دیگر علاقوں کے استعاروں کو استعمال کریں اور اپنی تاریخ کو الماریوں میں بند کردے۔ مادری زبانوں کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔

پاکستان میں کم و بیش 70 مختلف زبانیں پائی جاتی ہیں تاہم کسی حکومت نےان زبانوں کے ترویج و تحفظ کے لئے اس طرح اقدامات نہیں اٹھائے ہیں بالخصوص گلگت بلتستان کی زبانوں پر۔ گلگت بلتستان کی پانچ بڑی مادری زبانوں شینا، بلتی، کھوار، بروشسکی اور وخی بڑی مشکل سے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے جہاں پر اس کو لکھنے کا رواج قائم ہوا ہے ۔ اس سے قبل ان زبانوں پر کسی غیر ملکی مفکرین اور سکالر زنے کام کیا ہے لیکن علاقائی اور ملکی سطح پر حکومتوں نے کبھی اس بات پر توجہ ہی نہیں دی ہے کہ اتنے بڑے زخیرے اور علم کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت نے اس حوالے سے خاصا کام کیا تھا جس میں سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی اپنی کاوشوں کے علاوہ اس وقت کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کی دلچسپی بھی شامل تھی، جس کے بعد حکومتی سطح پر تھوڑا بہت کام ہوا لیکن بہت ہی جلد حافظ حفیظ الرحمن روایتی سیاست میں پھنس گئے اور مرکز میں حکومت تبدیل ہوگئی۔ ڈاکٹر کاظم نیاز کے بعد کے چیف سیکریٹری بابر تارڑ نے اس شعبے کو مکمل نظر انداز کردیا یہاں تک کہ ایک بار فائل ان کے سامنے گئی تو انہوں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائل کو دوسری جانب رکھ دیا اور پھر فائل کھل بھی نہیں سکی۔ اس وقت خیبر پختونخواہ حکومت اور بلوچستان حکومت نے اپنے علاقائی و مادری زبانوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی بھی کی ہے اور معاملات کو بہتری سے آگے لیکر چل رہے ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ عمومی طور پر زبان صرف اظہارکا زریعہ ہے اور کئی خیالات دماغ کے اندر صرف اس وجہ سے مر جاتے ہیں کہ ا ن کے اظہار کے لئے مناسب الفاظ نہیں ملتے ہیں۔ آج کی کوئی ایک ایسی زبان نہیں ہوگی جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ کسی دوسری زبان کے متبادل کے طور پر سامنے آسکتی ہے یا کمی کو پورا کرسکتی ہے۔ گلگت بلتستان حکومت سے توقع ہے کہ وہ قومی اور یکساں تعلیمی نصاب پر جائزہ لے گی اور گلگت بلتستان کی مادری زبانوں کے تحفظ و ترویج کے لئے اقدامات اٹھائے گی، جسے صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے