عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے

پاکستان کے سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی آپ بیتی پڑھنے کے بعد ایک بات کی داد دینا پڑتی ہے اور وہ ہے ان کی صاف گوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ چھپایا نہیں۔ سادہ سی زبان میں اپنی زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو شخص پاکستان کے اہم ترین عدالتی عہدے پر براجمان رہا اسے اپنے ماضی میں غربت میں گزارے ایام پر کوئی شرمندگی نہیں، یہ ان کیلئے باعث فخر ہیں بلکہ ان واقعات پر ہم سب کو فخر ہونا چاہئے کہ کیسے ایک ایسا شخص جو بچپن میں ہی یتیم ہو گیا، جس کے پاس سرکاری اسکول کی فیس جمع کروانے کے بھی پیسے نہ تھے اور جو معمولی نوکریاں کرکے اپنا خرچ چلتا تھا، اپنی محنت اور یقینِ کامل سے کامیابی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ہمیں یہ ماننے میں عار کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے باپ دادا میں سے کوئی موچی تھا اور کوئی کمہار یا نائی۔ ہم محنت کشوں کی اولاد ہیں۔ انگریزوں کے کتے نہلانے والوں کی طرح ’’خاندانی‘‘ نہیں۔ ہماری میراث علم ہے، وہ تربیت ہے جو ہمارے والدین نے کی اور ہمارا اثاثہ اس دھرتی کی محبت ہے جس نے ہماری آبیاری کی اور ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے۔ ارشاد صاحب ایامِ تنگدستی میں بھی کبھی شاکی نہیں رہے۔ ان کی پُراعتمادی ان کو زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی رہی۔ ایک جگہ ارشاد صاحب نے ذکر کیا ہے کہ ان کے ہونے والے سسرال میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ ارشاد صاحب کوتاہ قامت ہیں حالانکہ ان کا قد اپنی بیگم کے برابر تھا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے ارشاد صاحب نے خصوصی جوتوں کا آرڈر دیا جو ایک انچ بلند تھے اور اس طرح ان کے سسرالی رشتہ داروں کا وہم جاتا رہا اور انہیں لگنے لگا کہ ارشاد صاحب کا قد تھوڑا لمبا ہے۔

میرے خیال میں یہ کتاب بھی ان کے جوتے کی طرح ہے جس کے ذریعے ارشاد صاحب اپنے طویل القامت ہونے کا تاثر دیتے تھے۔ بطور چیف جسٹس ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی جواز فراہم کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا جبکہ سینئر ترین جج اور چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت دیگر بہت سے ججوں نے انکار کردیا تھا۔ ارشاد صاحب کے بقول وہ اگر ایسا نہ کرتے تو ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہو جاتیں اور مشرف ابھی تک اقتدار میں ہوتا۔ پہلی بات تو یہ کہ فوجی عدالتیں قائم ہونا پی سی او کے تحت حلف نہ لینے سے مشروط نہیں، ضیاء الحق کے دور میں فوجی عدالتیں اس لئے قائم نہیں ہوئی تھیں کہ ججوں کے عدم تعاون کی وجہ سے عدالتیں بند ہو گئی تھیں بلکہ اس لئے کہ ضیاء الحق اپنی آمرانہ طاقت کو پوری طرح نافذ کرنا چاہتا تھا۔ پرویز مشرف کو ایسا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ ارشاد حسن خان سمیت سپریم کورٹ کے بارہ ججوں نے پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی جواز فراہم کیا۔

ایک فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا حق دینے کے حوالے سے ارشاد صاحب کا کہنا ہے کہ یہ حق انہوں نے نہیں دیا یہ تو پرویز مشرف کی طرف سے جاری کردہ عبوری حکمنامے میں پہلےسے درج تھا۔ ارشاد صاحب بار بار اس بات کو دہراتے ہیں کہ انہوں نے خالد انور اور دیگر وکلا سے یہ سوال پوچھا کہ آپ بتائیں کیا کرنا چاہئے۔ بقول ان کے خالد انور بھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ ہو چکا ہے اسے واپس موڑنا ناممکن ہے لہٰذا اپنے تئیں ارشاد صاحب نے وہی کیا جو کرنا عملی طور پر ممکن تھا۔ میرے، خیال میں ارشاد صاحب دو کام کر سکتے تھے ایک تو یہ کہ وہ بعین ویسا کرتے جیسے سعید الزمان صدیقی صاحب نے کیا اور خاموشی سے ریٹائر ہو جاتے۔ انکار کی جرأت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری روایت میں امام ابوحنیفہؒ نے تو قاضی القضاۃ کا عہدہ یہ کہہ کر قبول نہیں کیا تھا کہ وہ اس کے اہل نہیں! اور اس بات پر انہیں عباسی خلیفہ کے ہاتھوں صعبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جو غاصب سے بیعت لے وہ بھی تاریخ میں اسی منصب کا حق دارٹھہرے جو عزت بیعت سے انکار کرنے والے کے نصیب میں آتی ہے۔ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے موت سے پہلے مرناپڑتا ہے تاکہ انسان ہمیشہ جی سکے۔ آپ بیتی کے ذریعے تاریخ سازی کرکے آپ تاریخ سے این آر او لے سکتے۔

دوسرا کام جو ارشاد صاحب کر سکتے تھے وہ یہ کہ اسی یقین محکم سے کام لیتے جس کا مظاہرہ انہوں نے قلفی کھانے کے ضمن میں کیا تھا، خدا پر بھروسہ کرکے آگے بڑھتے، شاید کوئی دس آنے کا سکہ انہیں سپریم کورٹ کی دہلیز پر گرا ہوا مل ہی جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ جعلی ریفرنڈم ہوتا، نہ منتخب وزیر اعظم کو ہائی جیکر کہہ کر ملک بدر کیا جاتا، نہ آئینی صدر کو یک جنبش قلم ہٹایا جاسکتا اور نہ ہی پرویز رشید اور صدیق الفاروق جیسے سیاسی کارکنوں کو جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی پاداش میں زنداں میں ڈالا جاتا، لیکن یہ سب نہیں ہوا، لہٰذا اب وہ سب بھی نہیں ہوسکتا جس کی توقع ارشاد صاحب اس کتاب سے کر رہے ہیں۔ اس کاوش سے ارشاد صاحب کا قد بلند نہیں ہوابلکہ تھوڑا اور کم ہوگیاہے!

آخر میں میرے تین اشعار:

خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے

اس نظامِ زر کو اب برباد ہونا چاہئے

ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں

عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے

عرض کرتے عمر گزری ہے عطاؔ صاحب جہاں

آج اس محفل میں کچھ ’’ارشاد‘‘ ہونا چاہئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے