زندہ باد سفیان صفی

آج کل آپ کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں۔ گلیوں میں گندے پانی کی نالیاں، کچرا اور ہوا میں اڑتے پلاسٹک کے شاپر ملیں گے۔ پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ سادہ سی زندگی تھی۔ نہ نالیاں تھیں اور نہ نلکے۔ گاؤں کے باہر چشمے، کنویں اور تالاب ہوتے تھے۔ تالاب کی حیثیت مرکزی تھی۔ بارش ہونے سے اس میں پانی بھر جاتا۔ تالاب کے ساتھ ایک برگد کا بہت ہی گھنا درخت بھی ہوتا۔ شدید گرمی میں آنے جانے والے اس برگد کے نیچے کچھ دیر سستا لیتے۔ چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لئے بکریوں کے ریوڑ سائے میں بیٹھ کے جگالی کرتے۔ گھر کی متفرق ضرورتوں کے لئے لڑکیاں اپنی گاگروں میں یہاں سے پانی بھر کر لے جاتیں۔ شام کو چرواہے گھروں کو واپس لوٹنے سے پہلے اپنے جانوروں کو یہاں سے پانی پلاتے۔ برگد پر پرندوں کی الگ سے ایک دنیا آباد ہوتی۔ روز شام کے وقت ان کا میلہ لگتا۔

ہزارہ کے ادبی حلقوں میں سفیان صفی کی حیثیت گاؤں کے اس تالاب جیسی ہے۔ بغیر تفریق کیے ہر ایک کے ذوقِ سلیم کی پیاس بجھانا اس کا فطری فریضہ ہے۔ اس کا دل اور در سب کے لئے وا ہے۔ اس کا نہ ختم ہونے والا ایثار ہر وقت برگد کی شاخوں کی طرح اپنے بازو پھیلائے آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس نے ان لوگوں کو بھی اپنی مہربانیوں سے محروم نہیں رکھا جنھوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی جڑیں کاٹیں۔ اس کی طبیعت میں فقیرانہ عجز ہے۔ ہر ایک کے کام آنا اور بلا کسی عوضانے کے کام آنا اس کے واجبات میں شامل ہے۔ بہت سارے دوستوں کی کتابوں کو مرتب کرنے میں مددگار رہا۔ جن کو افضل سمجھا ان پر تحقیقی کام کروایا۔ اس نے کبھی پروا نہیں کی کہ کون کون اس کی تحقیقات میں لگا ہوا ہے۔

محلہ درویش میں ایک قدیم بوسیدہ حویلی ہے اسے بھگتوں والی ماڑی کہا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کے ایک چھوٹے سے حصے میں دو کیمیادان بھائی رہتے تھے۔ ان کے والد ظفر عمر کو اردو کا پہلا جاسوسی ناول نگار مانا جاتا ہے ایک کا نام فاروق عمر تھا۔ بہت منفرد قطعات کہتا تھا۔ کم کم مشاعروں میں جاتا۔ ایک دن میں مین بازار سے گزر رہا تھا سامنے سے وہ آ ٹکرایا۔ فقرہ چست کرنے سے نہیں چوکتا تھا۔

"ارے یہ کہاں بے مہار گھوم رہے ہیں”
"جہاں آپ مہار ڈالے گھوم رہے ہیں”
میں نے بھی فٹ جواب دیا۔

اتفاق سے اگلے ہفتے اس کا سفیان صفی سے آمنا سامنا ہوگیا۔ ان دنوں سفیان صفی نے اپنے سر پر بڑے بڑے بال رکھے ہوئے تھے۔ شاید سات سو سات مارکہ صابن سے دھونے کی وجہ سے خوب ابھرے ہوئے ہوتے تھے۔ اس دن سفیان صفی نے بال چھوٹے کروائے ہوئے تھے۔ فاروق عمر نے چھوٹتے ہی وار کیا۔
"ہا ہا ہا۔ صفی صاحب آپ کے سر پر ایک گھونسلہ تھا۔ وہ کیا ہوا”
"ہا ہا ہا۔ حضور کیا آپ نے اس میں انڈے دینے تھے”

سفیان صفی کمال کا حاضر دماغ ہے۔ موقعہ کی مناسبت سے فقرہ چست کرنا اس پر ختم ہے۔ نوجوانی کے دن تھے۔ مستی جوبن پر تھی۔ میں اور سفیان صفی ایک دو اور دوستوں کے ساتھ کہیں بیٹھے اس موضوع پر بحث کر رہے تھے کہ باقی مذاہب میں رقص اور موسیقی عبادت کے اہم ارکان ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ان فنون میں مجموعی طور پر بہت آگے ہیں۔ سفیان صفی نے اپنا اجتہاد پیش کیا۔

"اگر ہمارے ہاں رقص اور موسیقی جائز ہوتے تو میں اپنے علاقے کا سب سے بڑا خطیب ہوتا”

میں اور عبد القاہر ناصر محلہ کھوہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے۔ پاس سے گزرتے ہوئے اس نے ایک نوجوان کو روکا۔
"سفیان صاحب کوئی شعر سنائیں”

اس کے سر پر پھولے ہوئے بڑے بڑے بال، بے ترتیب پتلی پتلی نوآمدہ ریش، بے فکر سا چہرہ، خمیدہ گردن، ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ اور آنکھوں میں نامعلوم سی آوارگی۔ یہ سب کچھ میں نے پہلی نظر میں دیکھا۔
"کیسا شعر سننا ہے۔ انقلابی یا رومانوی۔”

پھر اس نے دو اشعار سنائے۔ ایک شعر میں خون اور دوسرے شعر میں ہونٹ تھے۔ سفیان صفی کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ دوسری ملاقات سید اکمل شاہ بختیاری کے ہاں ہوئی۔ پھر بار بار آمنا سامنا ہونے لگا۔ یہ مجھ سے گریز پا رہتا تھا۔ شاہ صاحب کی صدارت میں بزمِ فروغِ ادب قائم ہو گئی۔ نظامت سفیان صفی کے حصے میں آئی۔ اسماعیل ذبیح سرپرستِ اعلٰی تھے بزم کے زیادہ تر اجلاس ذبیح صاحب کے ہاں ہوتے۔ ان کی رہائش محلہ کھوہ میں گرلز کالج کی بغل میں بنے ایک سرکاری کوارٹر میں تھی۔ مجھ سمیت باقی بے وزن شعراء بھی بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے۔ شاہ صاحب اور ذبیح صاحب کمال محبت سے سب کی حوصلہ افزائی کرتے۔ ذبیح صاحب کی شاعری پر عارفانہ رنگ کا غلبہ تھا۔ بلدیہ میں کسی اچھی پوسٹ پر فائز تھے۔ باشرع نورانی چہرہ تھا۔ اسلامی تاریخ اور دینی علوم پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ انھوں نے حضور کی حیاتِ مبارکہ کو جنتری کے حساب سے ترتیب دے کر اچھی خاصی ایک ضخیم کتاب بھی مرتب کی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ یہاں سے چلے گئے اور میرا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ کچھ دن پہلے سفیان صفی بتا رہا تھا مراد آباد میں ان کا مزار ہے۔ اب ہر سال باقاعدہ ان کا عرس منعقد ہوتا ہے۔

پھر کاروانِ ادب ہزارہ کا دور آ گیا۔ سفیان صفی کے دورِ صدارت میں بہت زبردست پروگرامز بھی ہوئے۔ ہم سب دوستوں کا ہاتھ تنگ تھا۔ دس دس روپے ماہانہ جمع کر کے کاروانِ ادب ہزارہ کی ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھتے۔ سر پر آنے والے اجلاس کی تلوار لٹک رہی تھی۔ میں بازار میں سے گزر رہا تھا۔ ایک جگہ بہت سارے لوگ اکٹھے تھے۔ ڈھول بج رہا تھا۔ عبد الصبور قریشی انجمنِ تاجران کا کوئی الیکش تازہ تازہ جیتا تھا۔ خوشی میں اس کا چھوٹا بھائی لوگوں پر نوٹ اچھال رہا تھا۔ اس بار جو پانچ کے نوٹوں کی گڈی اچھالی۔ آدھے نوٹ ہوا میں بکھر گئے۔ اور آدھے نوٹوں کی تھپی میرے پیروں میں آ کر گری۔ کام بن گیا۔ اس بار ہم نے چائے کے ساتھ سموسے بھی منگوائے۔

ہمارے پاس وسائل کی تنگی رہتی تھی۔ ایک وجہ تو ہم سب سٹوڈنٹس تھے. اور دوسری وجہ کسی سپانسر کی مدد بھی حاصل نہیں تھی۔ اس لئے دوسرے شہروں کے مہمانوں کو بلانے سے گریز کرتے تھے۔ یونس مجاز نے اصرار کیا کہ ناصر زیدی کے ساتھ شام منائی جائے۔ اس نے ساری ذمہ داریاں، مہمانوں کو لانا لے جانا، ناصر زیدی پر مضامین پڑھنے والوں کا انتظام وغیرہ وغیرہ قبول کر لیں۔ ناصر زیدی کے ساتھ منور ہاشمی اور احمد ہاشمی بھی آئے۔ نمبر ون سکول کا مرکزی ہال لوگوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ حسبِ معمول تمام سینیئر شعراء اس بار بھی بوجوہ حاضر ہونے سے قاصر رہے۔ پروگرام شروع ہوا تو کوئی ایک مضمون پڑھنے والا بھی موجود نہیں تھا۔ سفیان صفی نے جلدی جلدی کاغذ پر کچھ پوائنٹس لکھے اور وہی پیش کیے۔ اور یحیٰی خالد کی صدارت میں پروگرام آگے بڑھنے لگا۔ منور ہاشمی نے اپنی باری پر مضامین نہ ہونے پر گلہ گزاری کے ساتھ ساتھ ہماری خوب کھنچائی کی۔ کسی نے عذر خواہی نہیں کی۔ البتہ یحیٰی خالد نے اپنے صدارتی خطبہ میں جوابِ شکوہ پیش کرتے ہوئے کہا۔

"ناصر زیدی بڑا شاعر ہوگا۔ اور ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پروگرام کرنے والے کون ہیں۔ یہ مختلف کالجوں کے سٹوڈنٹس ہیں۔ بغیر کسی سپانسر اور سرپرستی کے انھوں نے اپنی جیب خرچی اکٹھی کرکے یہ سب کچھ کیا ہے۔ ہمیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

فنکش ختم ہوا تو کہیں سے صدیق منظر نمودار ہوا اور میزبانی کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ کم از کم میں نے سکون کا سانس لیا۔

اچانک کاروانِ ادب ہزارہ کا نام بدل کر بزمِ لوح و قلم رکھ دیا گیا۔ سفیان صفی کو معزول کر دیا گیا۔ میں نے کچھ عرصہ نظامت کی اور پھر تنظیم وحید قریشی کے حوالے کر دی۔ میں اکتا چکا تھا۔ اس کے بعد ہر طرح کے تنظیمی امور اور مشاعروں سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس دوران دریائے دوڑ کے پل کے نیچے سے کتنا پانی گزرا۔ کچھ پتہ نہیں۔ ایک دن سفیان صفی اور محبوب عطا میرے پاس آئے۔ عطا صاحب بولے۔

"ساجد حمید نے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے۔ ادادہ علم و فن۔ وہ چاہتا ہے ہم سب اس کی تنظیم میں آ جائیں۔ اس کے لئے وہ سفیان صاحب کے حق میں بخوشی صدارت سے بھی دستبردار ہو رہا ہے۔ سعید صاحب ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ آپ بھی ہمارا ساتھ دیں۔”

نتیجتا ادارہ علم و فن کا نیا صدر سفیان صفی بنا دیا گیا۔ مجھے نظامت اور محبوب جوش کو سرپرستِ اعلٰی کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ ادارے کے تین شعبہ جات تھے۔ ادب، مصوری و خطاطی اور موسیقی۔ ادبی پروگراموں کی زیادہ تر میزبانی میں نے اپنے سکول میں کی۔ مصوری و خطاطی کے شعبہ کی تمام تر ذمہ داری اقبال شاہ کے کاندھوں پر تھی۔ اچھا خطاط اور مصور تھا۔ طے پایا کہ اس کے فن پاروں کی باقاعدہ نمائش منعقد کی جائے۔ نامور خطاط الٰہی بخش مطیع صاحب نے خوب ساتھ دیا۔ ڈی سی ہمایوں خان نے مہمانِ خصوصی بننا قبول کر لیا۔ پروگرام کی تیاریاں اپنی جگہ لیکن ہمیں اس طرح کے پروگرام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ نجانے وہ کون تھا۔ ایک دن ہمارے بیچ آ کر بیٹھ گیا۔ ہمیں پروگرام کرنے کی مکمل ترتیب اور تفصیل سمجھائی۔ مہمانِ خصوصی کو پھول پیش کرنا اس نے اپنے ذمہ لیا۔ ہم سمجھ گئے وہ ڈی سی آفس کا کوئی ملازم ہے۔ آخر وقت تک وہ ہمارے ساتھ رہا۔ بعد میں پتہ چلا وہ ساتھ والے گاؤں کا ایک ویہلا سا بندہ تھا۔ مقررہ وقت پر ڈی سی صاحب آ گئے۔ تازہ تازہ بارش ہوئی تھی۔ ان کا پاؤں پھسل گیا۔ لیکن وہ سنبھل گئے۔ ورنہ پروگرام ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا۔ تین دن تک یہ نمائش جاری رہی۔ ہری پور کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ واحد واقعہ ہے۔

موسیقی کا شعبہ طارق ایوب نے سنبھال رکھا تھا۔ اس مقصد کے لئے الحمرا سینما کے پاس باقاعدہ ایک کمرہ لیا گیا تھا۔ ادارے کا آفس بھی یہی تھا۔ ہر شام موسیقی سے متعلق افراد ریاض کرنے کے لئے یہاں اکٹھے ہوتے۔ کی بورڈ پر طارق ایوب بہت اچھا گاتا۔ اس کی آواز میں محمد رفیع کی گونج تھی۔ طبلے پر سنگت فیاض خان کرتا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے۔ طارق ایوب، ساجد حمید اور فیاض خان میرے پاس آئے۔

"ہمارے پاس ہارمونیم نہیں۔ سیکھنے کے لئے اس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک جگہ بڑا اچھا ہارمونیم مل رہا ہے۔ سعید صاحب کچھ کریں۔”
میں نے اپنی جیب سے حسبِ توفیق کچھ پیسے نکالے۔ اور انھیں کہا کہ اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ پھر میں ان تینوں کے ساتھ مین بازار میں نعیم عابد، رفیق انور، حاجی عبدالصبور، ندیم ظفر اور کچھ دوسرے دوستوں کے پاس گیا۔

"ہمارے ادارے کے شعبہِ موسیقی کے پاس ہارمونیم نہیں۔ اس کے بغیر بالکل بھی گزارہ ممکن نہیں۔ ہم ایک عدد ہارمونیم خریدنا چاہتے ہیں۔ آپ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالیں۔ اور شام کو آ کر گانا بھی سنا کریں۔”

باری باری سب کو دعوت دی۔ پیسے پورے ہو گئے ہارمونیم آ گیا۔ روزانہ ریاض ہوتا۔ دو تین ماہ کے بعد ایک پروگرام ایسا بھی کرتے جس میں شہر کے دوسرے فنکاروں کے ساتھ ساتھ باذوق افراد کو دعوت دی جاتی۔ خوب محفل جمتی۔ اسی طرح کی ایک محفل تھی۔ لوگوں سے کمرہ بھرا ہوا تھا۔ کسی فنکار نے سماں باندھا ہوا تھا۔ میں، سفیان صفی، محبوب عطا اور محبوب جوش سامنے بیٹھے تھے۔ اچانک میری چھٹی حس جاگ اٹھی۔ مجھے لگا کچھ مختلف ہو رہا ہے۔ پھر ایک جھماکا ہوا۔ میں نے سفیان صفی کو کہنی ماری۔ وہ سرور سے بند آنکھوں کو جھپکنے اور کھلے ہونٹوں کو سکوڑنے میں مصروف تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سفیان صفی نے عطا صاحب کے پہلو میں کہنی ماری۔ وہ دو زانو بیٹھے اپنی ران پر طبلہ بجا رہے تھے۔ کہنی کا سفر محبوب جوش کے پہلو تک پہنچ کے اختتام پذیر ہوا۔ ان دونوں کی آنکھیں بھی اب پھٹی پھٹی تھیں۔ کمرے میں حاضرین کی اکثریت کا تعلق جھگیوں سے تھا۔ پروگرام کے بعد ہم چاروں ایک ہوٹل میں سر جوڑے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ ایک فیصلے کے بعد سکون سے چائے پی۔ آفس میں چٹائی، پنکھا، طبلوں کی دو جوڑیاں، ہارمونیم، دف، بانسریاں، سٹیشنری، غرض جو کچھ بھی تھا میں نے پلٹ کے نہیں پوچھا کہ کس کے حصے میں کیا آیا۔ دروغ بر گردنِ راوی بعد میں کوئی کہہ رہا تھا۔
"یہاں ایک دو بار شادیوں کے آرڈر بھی آئے تھے جی۔”

کہتے ہیں کسی کو بہتر طور پر جاننے کے لئے اس کے ساتھ دسترخوان پر بھی بیٹھنا چاہیے۔ سفیان صفی اور میں بے شمار بار عطا صاحب کے دسترخوان پر آمنے سامنے بیٹھے۔ عطا صاحب کے ہاتھوں کی بنی مونگ کی دال ان کی مرغوب غذا ہے۔ جان پہچان کو زیادہ یقینی بنانے کے لئے ہم نے بے شمار سفر بھی ایک ساتھ کیے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ناران کا سفر بھی تھا۔ سیف الملوک جھیل چاروں طرف سے برف میں گھری تھی۔ چلچلاتی دھوپ سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ لوگ کالے شیشوں والے چشمے پہن کر گھوم رہے تھے۔ برف سے منعکس ہونے والی روشنی کی نوکدار کرنیں بدن کو چھید رہی تھیں۔ دوسرے دن معجزہ ہوا۔ سفیان صفی کی سانولے رنگ کی جلد اترنے لگی۔ کچھ دنوں کے لئے اس کا چہرہ گورا چٹا ہو گیا۔ سفر وسیلہِ ظفر ہے۔ اس پر میرا یقین پختہ ہو گیا۔

حاطم طائی نے تو کسی کے بے ربط سوالات کے لئے صرف سات سفر کیے تھے ہمارے سفروں کی تعداد دو درجن سے بھی زیادہ ہے۔ برادرم یعقوب آسی نے انجنیئرنگ یونیوسٹی ٹیکسلا میں مشاعرے کا اہتمام کیا۔ میں وحید قریشی اور سفیان صفی بھی مدعو تھے۔ واپسی پر مختلف شہروں سے آئے ہوئے ہم سارے دوست بس سٹینڈ پر اپنی اپنی بس کے انتظار میں کچی زمین پر دائرہ مار کے بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔ اس زمانے میں ہتھوڑا گروپ بہت مشہور ہو چکا تھا۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا پولیس نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ پوچھا
"آپ لوگ کون ہیں۔ اپنا اپنا شناختی کارڈ دکھائیں۔”

ہم پندرہ بیس تو ہوں گے۔ مجھ سمیت صرف دو لوگوں کے پاس شناختی کارڈ تھا۔ جن میں سے ایک رؤف امیر کا تھا۔
کسی نے کہا۔

"ہم سب شاعر ہیں۔ یونیورسٹی میں مشاعرہ پڑھ کر آ رہے ہیں۔”
ایک پولیس والا بولا۔
"پھر تو آپ میں سے کئیوں کے پاس چرس بھی ہوگی۔”
دوسرا پولیس والا بولا۔
"چھوڑو یار۔ بے ضرر لوگ ہیں۔”

پولیس والوں کے جانے کے بعد میں نے نوٹ کیا کچھ دوست زمین کرید کر کچھ تلاش کر رہے تھے۔

ایک بار میں، عطا صاحب، سفیان صفی اور حکیم خالد محمود توحیدی اوپر پہاڑوں کی طرف پکنک پر گئے۔ عطا صاحب کو راضی رکھنے کے لئے ایک عدد درگاہ پر جانا بھی ضروری تھا۔ ایک معروف درگاہ پر پہنچے تو بابا جی اپنی گھاس پھونس کی کٹیا سے ابھی باہر نہیں آئے تھے۔ عطا صاحب نے نعرے لگانے شروع کردیے۔
"بابا شونڈ ہے۔ بابا شونڈ ہے۔ بابا شونڈ ہے۔”

میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک رہی تھی۔ اللہ کا شکر ہے۔ کسی نے سنا نہیں۔ عقیدتمند ہمیں ادھیڑ کے رکھ دیتے۔ اتنے میں لنگر کی تقسیم شروع ہو گئی۔ ملنگوں نے ہمیں بھی ایک دسترخوان کے گرد بٹھا دیا۔ کھیسے میں بکرے کا کڑاہی گوشت ہو تو لنگر کے سوکھے چاولوں میں ریت کے ذرے محسوس ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ ہم چاروں کے گلے میں نوالے اٹک رہے تھے۔ طباق کو خالی چھوڑنا لنگر کی بے حرمتی کے ضمرے میں آتا۔ یہاں سفیان صفی کا چست دماغ کام آیا۔ وہ ایک خدمتگار سے درخواست گزار ہوا
"سرکار ایک شاپر دے دیں۔ تاکہ کچھ لنگر گھر کے لئے بھی لے جاؤں۔ سب دعائیں دیں گے”

واپسی پر ہم نے گرم گرم تندوری روٹیوں کے ساتھ گھر کا بنا کڑاہی گوشت کھایا۔ ہوٹل والا پیسے نہیں لے رہا تھا۔ لنگر کے چاول کھا کے وہ اور اس کے ملازمین بہت شکرگزار ہو رہے تھے۔

میرا ایک خالو اپنے گرائیوں کے ساتھ گاؤں کے حجرے میں بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ مختلف شرطیں لگنی شروع ہو گئیں۔ کسی نے پاس رکھے ایک برتن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"جو شخص یہ نمک کھائے گا میں اسے آٹھ آنے دوں گا۔”

سستپائی کا زمانہ تھا۔ آٹھ آنے بڑی رقم تھی۔ میرے خالو نے غیرت میں آ کر چیلنج قبول کر لیا۔ گاؤں کے حکیم نے بڑی مشکل سے اس کے پیٹ سے نمک نکالا تھا۔ کئی سالوں تک علاج کے سلسلے میں ان کی اٹھنیاں لگتی رہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ صرف منظر اور کردار بدل جاتے ہیں۔ مینگورہ سوات کے پر فضا مقام فضا گھٹ پر ایک چھوٹی سی نہر کے کنارے ہم پانچ لوگ بیٹھے تھے۔ عطا صاحب کی بے چین روح نے انہیں کب ٹک کر بیٹھنے دیا۔ انھوں نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور اچھل کر پیچھے ہٹے۔ جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ میں نے بھی ڈرتے ڈرتے انگلی ڈبو کر دیکھی۔ پانی ناقابلِ یقین حد تک ٹھنڈا تھا۔ مجھے شرارت سوجھی۔

"آپ میں سے اگر کوئی اس پانی میں آدھا گھنٹہ اپنے پاؤں ڈال کر بیٹھے تو میں سب کو ایک کلو ٹراؤٹ مچھلی کھلاؤں گا۔”
کسی نے چیلنج قبول نہیں کیا۔ تھوڑی دیر بعد سفیان صفی نے ہمت کی۔

"اگر مچھلی دو کلو ہو تو میں تیار ہوں۔”

میں نے مچھلی کی مقدار ڈبل کر دی۔ سفیان صفی پانی میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ وقت آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔ مجھے فکر ہونے لگی سرد پانی کی وجہ سے سفیان صفی کا کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو جائے۔

"یار سفیان مذاق اپنی جگہ۔ پانی بہت ٹھنڈا ہے۔ ِٹانگیں ناکارہ ہو جائیں گی۔ کوئی اور نقصان بھی ہو سکتا ہے۔”

عطا صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ بت بنا بیٹھا رہا۔ قریب بیٹھے لوگوں کے لئے بھی دلچسپی کا سامان پیدا ہو گیا تھا۔ درمیان میں ایک دو بار ایسا لگا کہ سفیان صفی کی برداشت جواب دینے والی ہے۔ سب نے اس کو باری باری سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ ٹائم پورا ہو گیا۔ ٹھنڈک سے اس کی لاتیں نیلاہٹ پکڑ چکی تھیں۔ شاید اسی ٹھنڈ کا اثر ہے کہ ساری زندگی اس کا دماغ اور مزاج پھر ٹھنڈا رہا۔

سفیان صفی نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ صرف اور صرف ادب کے نام وقف رکھا۔ یہ اس کا شوق نہیں عشق ہے۔ پہلا اور آخری عشق۔ ادب اس کے وجود کا حصہ ہے۔ شعر اس کے خون میں دوڑتا ہے۔ میں نے ادب کے علاوہ اس کی زندگی میں کبھی کوئی مصروفیت نہیں دیکھی۔ اس نے کوئی کھیل نہیں کھیلا۔ یہ پیدائشی شاعر ہے۔ اس نے ابتدا سے ہی اچھا شعر کہا۔ شروع شروع میں اس نے احمد فراز، شکیب جلالی، اختر شیرانی اور ساحر لدھیابوی کے رنگوں کی کال ٹیل بنانے کی کوشش کی۔ اندر کا غبار کچھ کم ہوا تو اس کا اپنا رنگ واضح ہونا شروع ہو گیا۔ اس کی اپنی شعری فضا تیار ہونے لگی۔ لفظوں، علامتوں اور استعاروں کا ایک منفرد نظامِ شمسی قائم ہونے لگا۔ اس نے اپنے قاری کو لفظی صورتوں سے حیرت انگیز خوابوں کے جزیروں پر اڑتی ہوئی سنہری تتلیاں دکھانے کے لئے سفر آغاز کر دیا تھا۔

آسمان پر بجلی چمکی۔ کئی مسافر اپنا رستہ بھول گئے۔ افسر منہاس، سفیان صفی اور محبوب عطا نے استاد پرنم الٰہ آبادی کو اپنا رہنما کر لیا۔ استاد قمر جلالوی سے چلنے والا رستہ استاد پرنم الٰہ آبادی پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس وقت یہ حقیقت ان تینوں کی سمجھ سے اوجھل تھی۔ سفیان صفی اپنی منزل کی طرف بڑھنے کے بجائے کچھ عرصہ کے لئے ایک چھوٹی سی بستی میں ٹھہر گیا۔ اس بستی کی مخصوص زبان اور لہجہ تھا۔ باہر کی دنیا کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے نزدیک صرف بد گوئی کے لئے جانے کی اجازت تھی۔ تازہ ہوا سے بستی کے مکینوں کے سر میں درد شروع ہو جاتا۔ اگرچہ پرنم صاحب اپنے اندر معلومات کا ایک جہان رکھتے تھے۔ حافظہ بھی کمال کا تھا۔ کوئی واقعہ بیان کرتے تو نقشہ کھینچ کے رکھ دیتے۔ اپنے استاد کے علاوہ کسی کو نہیں مانتے تھے۔ اور چاہتے تھے ان کے شاگرد بھی ہر وقت ہر جگہ ان کے قصیدے پڑھتے رہیں۔ خوش آمد پسند تھے۔ دوسروں پر اپنے قادرالکلام ہونے کی دھاک بٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ انھوں نے مجھے بھی اپنا شاگرد بننے کی دعوت دی۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔

"استاد جی میں آپ کا آپ کے شاگردوں سے زیادہ احترام کرتا ہوں۔ میں ایک خود رو پودا ہوں۔ اگر آپ نے کانٹ چھانٹ شروع کر دی تو میں ختم ہو جاؤں گا۔ ویسے میرا مزاج بھی ایسا نہیں۔”

سارے شاگرد ان کے لئے سگریٹ اور دوسرے تحائف لے کر آتے۔ میں پرنم صاحب کی ڈبیا سے سگریٹ پھونکتا۔

ایک دن میرے پاس تشریف لائے۔ سفیان صفی بھی ساتھ تھا۔ گفتگو کے دوران انھوں نے ناصر کاظمی کی ایک معروف غزل پر اعتراض کر دیا کہ بے وزن ہے۔ میں نے تقطیع کرکے وضاحت کی تو اس بات پر ڈٹ گئے کہ یہ مروجہ بحر نہیں۔ بات بڑھتے بڑھتے زحافات تک جا پہنچی۔ میں نے غالب کے اشعار سے اسناد پیش کیں تو فرمایا۔
"غالب کوئی مستند شاعر نہیں ہے۔ تم ناصر کی یہ غزل ذرا گنگنا کے دیکھو صاف پتہ چل جائے گا۔”
سفیان صفی کے لئے اب مزید خاموش رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ پھٹ پڑا۔

"استاد جی آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ نصرت فتح علی سے بڑا گائک کون ہے۔ اس نے یہ غزل گائی ہوئی ہے۔”

پرنم صاحب اپنے شاگردوں کو شعر کی مختلف ٹیکنیکس کی باقاعدہ پریکٹس کرواتے تھے۔ ایک دن پرنم صاحب نے رات کا قیام عطا صاحب کے ہاں کیا۔ میں اور سفیان صفی بھی وہیں تھے۔ دیر گئے تک انھوں نے ہم تینوں سے موئنث قافیہ کے ساتھ مذکر ردیف رکھ کے اشعار کہلوائے۔ اس بات پر البتہ وہ سختی سے عمل درآمد کرواتے کہ کوئی ان کے مخصوص ڈکشن سے باہر رہ کر شعر نہ کہے۔

میں نے بہت کوشش کی کہ پرنم صاحب کے فکر و فن کے حوالے سے کوئی اچھی تحریر مل جائے۔ ان کے مخصوص اسلوب اور طرزِ احساس پر کہیں کوئی کام نظر نہیں آیا۔ لے دے کے ہر ایک اسی بات کی جگالی کر رہا ہے کہ پرنم صاحب کے کلام کو فلاں فلاں گلوکار نے گایا ہے۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام کے دیباچہ میں بھی یہی کچھ دہرایا گیا ہے۔ پرنم صاحب نے بھی رموزِ شعر اور اپنے مخصوص دبستان کے حوالے سے کوئی تحریر نہیں چھوڑی۔ روایتی حکیموں کی طرح ہو سکتا ہے کسی منظورِ نظر شاگرد کے سینے میں یہ علوم منتقل کیے ہوں۔ لوگوں کو بتانا پڑتا ہے کہ فلاں قوال یا گلوکار کا گایا ہوا فلاں کلام پرنم صاحب کا ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے۔

سفیان صفی نے اس بستی کو خیر باد کہہ دیا۔ اب وہ ایک ایسی وادی میں ہے جس کا وہ بے تاج بادشاہ ہے۔ لفظ اور اس سے جڑا احساس دونوں اس کے طابع ہیں۔ اس کی انگلی کے اشارے سے دیوار چل پڑتی ہے۔ اس کے جنبشِ ابرو سے پانی الٹی جانب بہنے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ پتھر اس کی خواہش پر اس کی پسندیدہ مورت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ سارے موسم اس کی دسترس میں ہیں۔ یہ کسی جادو کا کرشمہ نہیں۔ نہ اس کے سر پر کوئی ہما آ کر بیٹھا ہے۔ یہ سب اس کی ریاضت کا ثمر ہے۔ کندن بننے کے لئے اس نے اپنے آپ کو سات بار آگ سے گزارا ہے۔ اس وادی میں پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر نہیں ہو جاتا۔ اس جانب بھی ایک منظر ہے۔ وجود کے اندر کا منظر۔ بادلوں کا رتھ اس کے ارادے کی دوری پر ہر لمحہ تیار رہتا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے۔ اپنے ساتھ سوار کر کے نامعلوم دنیاؤں کی سیر کرواتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی نہیں جس کی مدد سے یہ کسی ٹوپی میں سے کبوتر نکالتا ہو۔ یہ تو بدن سے چراغ نکالنے کی بات کرتا ہے۔ اس کے نگار خانے میں نایاب عکس جھلملاتے ہیں۔ اپنے محبوب کو اگر یہ دھوپ کی پوشاک پہناتا ہے تو اس کے سائے کو بھی ستاروں کی قبا سے آراستہ کرتا ہے۔ اس کی وادی میں پت جھڑ کا موسم بھی دل بستہ اور ناز آفرین ہے۔ شاخ سے پھول کا اترنا بھی کسی نازنین کی سیڑھیوں پر خوش خرامی سے کم نہیں۔ سفیان صفی صرف چراغ سے روشنی کشید نہیں کرتا وہ روشنی سے چراغ بنانا بھی جانتا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء نے کتنے پتے کی بات کی ہے۔

"اسے اشعار میں سہ جہتی امیجز ہیش کرنے پر قدرت حاصل ہے۔ اسی لئے اس کے ہاں مکمل منظر تک مکمل شعوری رسائی کے لئے قاری یا سامع کو لامحالہ ایک مخصوص عینک کی ضرورت پڑتی ہے۔”

گاڑیاں بدلنے کے عمل میں البتہ ایک نقصان ہو گیا۔ بہت ہی بڑا نقصان۔ ابتدائی دنوں میں سفیان صفی کے پاس جو نظم تھی کہیں رستے میں کھو گئی۔

سفیان صفی ادب شناس بندہ تھا۔ کب تک سائنس کے ساتھ نباہ کرتا۔ ایم ایس سی فزکس بیچ میں چھوڑ کر آ گیا۔ سب نے رجھ کے لعن طعن کی۔ بھگوڑا تھا کیا کر سکتا تھا۔ خاموشی سے سب کو سہتا رہا۔ کچھ عرصہ نمبر ون سکول ہری پور میں تدریس کی۔ ایم اے اردو کیا اور اوگی کالج پہنچ گیا۔ ایک طویل عرصہ ایبٹ آباد کالج میں گزارا۔ ایبٹ آباد کالج کی صد سالا تقریبات میں ہمیں بھی بھلایا۔ کالج کے مرکزی ہال میں بہت بِڑا مشاعرہ ہوا۔ مہمانوں کے لئے رات کے کھانے کا بہترین انتظام تھا۔ اس پر کالج کا عملہ ٹوٹ پڑا۔ پورے پورے طباق اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لئے۔ ایک طرف دہی اور کھیر کے کونڈے ابھی تک پڑے ہوئے تھے۔ سفیان صفی نے وہ اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ دیے۔ بارگیننگ شروع ہوگئی۔ بارٹر سسٹم کے تحت دوسرے گروپوں نے ہمیں بریانی دی۔ ہم نے انھیں دہی اور کھیر میں شراکت دار بنایا۔

ایبٹ آباد کالج میں تدریس کے دوران سفیان صفی نے ایم فل کی۔ عطا صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ اور صابر کلوروی صاحب کی توجہ اور شفقت اگر شاملِ حال نہ ہوتی تو سفیان صفی اس پل صراط کو شاید پار نہ کر سکتا۔ کلوروی صاحب جیسے لوگ کسی بھی عہد کے لئے ایک غیر مترقبہ نعمت کا درجہ رکھتے ہیں۔ باقیات کلامِ اقبال پر انھوں نے ڈاکٹریٹ کی تھی۔ پہلی بار سفیان صفی صاحب کے ساتھ میں قلندر آباد ان کے گھر گیا۔ عطا صاحب اور ساجد حمید بھی ساتھ تھے۔ ہم سب نے وہاں عطا صاحب کی پہلی کتاب کی پروف ریڈنگ کی۔ گھر کیا تھا ایک بہت بڑی مطالعہ گاہ تھی۔ بہترین ریکس میں لاتعداد کتابیں ترتیب سے رکھی تھیں۔ ہر کتاب مجلد۔ گرد کا ایک ذرہ کہیں موجود نہیں۔پر سکون اور آرامدہ فضا۔ علم و ادب پر تحقیق کرنے والے وہاں قیام و طعام کی طرف سے بے فکر ہو کر جاتے۔ مجھے ایک سوال نے پریشان کر رکھا تھا۔

"آپ افریقہ اور بنگال کس دور میں گئے تھے۔”

بڑے عرصہ تک اردو ڈائجسٹ میں شکاریات کے موضوع پر ان کی کہانیاں چھپتی رہی تھیں۔ کبھی وہ افریقہ کے جنگلوں میں پاگل ہاتھی کو ٹھکانے لگاتے نظر آتے اور کبھی بنگال کا ٹائیگر ان پر حملہ آور ہوتا۔ مسکرا کے فرمایا۔

"آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ میں آج کی تاریخ تک کبھی ملک سے باہر نہیں گیا۔ دوسری بات مجھے ایئر گن تک چلانی نہیں آتی۔”

کلوروی صاحب پشاور یونیورسٹی کے شعبہِ اردو کے صدر تھے۔ ہر سال وہ باڑہ گلی کے سمر کیمپ میں ایک زبردست آل پاکستان مشاعرہ کرواتے۔ ہری پور سے میں، سفیان صفی اور عطا صاحب باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتے۔ اسی طرح کا ایک مشاعرہ تھا۔ ہم تینوں پہنچ چکے تھے۔ پیچھے پیچھے میرے تین کزنز محبوب، صبور قریشی اور خالد توحیدی بھی پہنچ گئے۔ چونکہ بن بلائے تھے۔ اپنا تمام بندوبست کرکے آئے تھے۔ رات دیر گئے مشاعرہ ختم ہوا تو انھوں نے بلڈنگ سے قدرے ہٹ کر ایک گہری جگہ خیمہ لگا لیا۔ تاکہ ہوا سے محفوظ رہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ بستر بچھائے گئے۔ ہم چاروں اپنے اپنے کمبلوں میں گھسے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔ ابھی ہم اس موسیقی سے لطف اندوز ہی ہو رہے تھے کہ طوفانی بارش شروع ہو گئی۔ میں نے اپنا سر بھی کمبل میں گھسا لیا۔ ذرا سی آنکھ لگی تھی کہ ہلچل مچ گئی۔ خیمے میں پانی گھس آیا تھا۔ ہم نے بستر سر پر اٹھائے اور خیمے سے باہر بھاگے۔ سامنے سیاہ پوش اندھیرا کھڑا تھا۔ افراتفری میں سمجھ نہیں آ رہی تھی کدہر جائیں۔ سفیان صفی نے شور سن لیا ٹارچ لے کر پیشوائی کو آیا۔ گرتے پڑتے کیمپس کی بلڈنگ تک پہنچے۔ پانی سے نچھڑتے ہوئے، بھاری بھرکم صبور قریشی نعرہ زن ہوا۔
"زندہ باد سفیان صفی۔”

کلوروی صاحب نے نئے سرے سے سب کے لئے بستروں کا انتظام کیا۔ صبح پتہ چلا ہم نے ایک برساتی نالے میں اپنا خیمہ ایستادہ کیا تھا۔
بات کہاں سے شروع ہو کر کہاں پہنچ گئی۔ سفیاں صفی نے ڈاکٹریٹ کی اور ڈاکٹر محمد سفیان صفی بن گیا۔ اس نے چند دن ہری ہور کالج میں گزارے۔ ہھر ہزارہ یونیورسٹی نے اس کی خدمات اپنے نام کر لیں۔ آج کل ایک ایسے علاقے کے کالج کا پرنسپل ہے جہاں کے لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر اپنا علاقہ چھوڑ چھوڑ کر شہروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ اس دوران بے شمار لوگوں نے اس کی نگرانی میں اپنے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالاجات مکمل کیے۔ اس وجہ سے بہت سارے تخلیق کار جو گوشہٍ گمنانی کا حصہ بننے والے تھے تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو گئے۔

سفیان صفی جتنا بڑا شاعر اور ادیب ہے اتنا ہی یہ شہرت کی طرف سے بے نیاز ہے۔ کوئی باذوق دوست مل گیا تو دو تین اشعار سنا دے گا۔ اس کے ایک شعر سے مراد چھبیس مصرعوں والی ایک غزل ہے۔ داد دے دے کر سننے والے کا گلہ خشک ہو جاتا ہے۔ اپنے فنی سفر کے آغاز میں اس نے بہت ہی لاجواب نظمیں کہی تھیں۔ پرنم صاحب کی موجودگی میں افسر منہاس نے اگرچہ اپنی غزل کو لہو لہان کیا۔ لیکن اس کی نظم مکمل محفوظ رہی اور عصری نمائندہ ہونے کی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے پروان چڑھتی رہی۔ اس کے برعکس سفیان صفی اپنی نظم کو واضح شناخت دینے کے فرائض سے ابھی تک سبکدوش نہیں ہو سکا۔ کاروانِ ادب ہزارہ کی مختلف تنقیدی نشستوں میں کئی بار اس نے افسانہ بھی پیش کیا تھا۔ کمال افسانہ تھا۔ اس وقت کے مروجہ جدید افسانے سے دو قدم آگے کا افسانہ۔ اس کا افسانہ کنویں میں بند کسی مینڈک کی کہانی نہیں تھا۔ بلکہ ایک مکمل طرزِ فکر اور زندہ معاشرت کا ترجمان تھا۔ مختلف اوقات میں خاکہ نگاری بھی کی۔ ایبٹ آباد میں بشیر سوز کے لئے ایک شام کا اہتمام کیا گیا۔ اتفاق سے سوز صاحب کی فیملی بھی وہاں موجود تھی۔ سوز صاحب سفیان صفی کو ایک طرف لے جاتے ہیں۔
"صفی صاحب، آپ کے بے ہودہ ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ خیال رہے میری فیملی بیٹھی ہوئی ہے۔ ہاتھ کو تھوڑا ہلکا ہی رکھنا ہے۔”
سفیان صفی نے اپنی تلوار میان میں ڈال لی۔ اور کند چھری سے بکرا ذبح کرنا شروع کر دیا۔ ذرا فنکاری دیکھیے۔
"سوز صاحب ایک وقت میں ایک ہی سگریٹ پیتے ہیں۔ دوسرا سگریٹ پہلے سگریٹ سے سلگا کر پہلے والا پھینک دیتے ہیں۔ اس کی جدائی میں لمبے لمبے کش لیتے ہیں۔ دہویں کا اس قدر غبار ہوتا ہے سمجھ نہیں آ پاتا کہ
یہ دہواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔”
کلاسیکل شاعری سے مزید استفادہ کرتے ہوئے کہا۔

"ان کے جثہِ مبارک میں سب سے نمایاں ان کا پیٹ ہے۔ اس کی تابناک قوس دیکھ کر بے اختیار غالب کا یہ مصرع نوکِ زبان چومنے لگتا ہے
سینہِ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا”

پروگرام کے اختتام پر اظہارِ تشکر کے لئے سوز صاحب کی بیگم خاص طور پر سفیان صفی کے پاس آئیں۔

سفیان صاحب ہزارہ کی ادب سے متعلق شخصیات کے واقعات کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ خاص کر ان واقعات کا جو ناقابلِ اشاعت ہونے کی وجہ سے سینہ بہ سینہ چلتے ہیں۔ اکٹھا ہونے کی صورت میں. یہ مواد دو ہزار صفحات پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ کسی وقت ذرا انہیں اکسا کر تو دیکھیں۔ آمد کیسے ہوتی ہے اس کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کریں۔ ان سے یہ راز تو ضرور معلوم کریں کہ سلطان سکون صاحب سفر میں اپنے ساتھ چادر اور سوئی دھاگہ کیوں رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے