ریاست اور مذہب

ریاست کا قیام اِس مقصد کے تحت عمل میں لایا جاتا ہے کہ ایک خاص علاقہ میں آباد افراد خواہ وہ کسی قوم ، مذہب یا زبان سے تعلق رکھتے ہوں ، کو اپنی صلاحیتوں اور نقطہ ہائے نظر کے اظہار کا پورا پورا موقع فراہم کیا جا سکے اور وہ تمام افراد امن کی سی فضاء میں اپنی زندگیاں بسر کر سکیں اور ریاست اُن کے ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری بہر طور قبول کرے۔ جبکہ اِس کے برعکس مذہب خالصتاً ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے ، کسی قومی ریاست کا کوئی اپنا مذہب ہونا چاہیئے اور نہ افراد کے مذاہب سے کوئی سروکار۔

لیکن وطنِ عزیز میں معاملات اس حقیقت کے برعکس ہیں۔ ریاست نہ تو کسی کے تحفظ (بالخصوص اقلیت) کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی نقطہ ہائے نظر کے اظہار کو برداشت کرنے کے لیئے۔ اِس کی ایک بنیادی وجہ آپ کا آئین ہے ، یعنی لفظِ آئین اصلاً مذہب کو اپنا موضوع نہیں بناتا لیکن ہم اِس ریاست میں جب آئین کا لفظ سُنتے ہیں تو ساتھ ہی ہمیں ایک مذہبی آئین کا لفظ بھی سُننا پڑتا ہے۔ گویا آپ جمہوری آئین کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی آئین بھی رکھتے اور یہ سب سے خطرناک بات ہے۔ یہ دونوں آئین آپ کو عین متوازی چلانا پڑتے ہیں اور کسی حقیر سے مسئلے کے پیدا ہو جانے پر بھی آپ اِنہیں آپس میں ٹکرانے سے نہیں روک سکتے۔

ہم بحیثیتِ ریاست ابھی تک اِس تصادم سے گریز کی کوئی صورت پیدا نہیں کر سکے اور اُس کی وجہ تعلیمی انحطاط ہے۔ زہرِ ہلاہل کو قند کہہ کر پیش کیئے جانے والے اور پڑھائے جانے والے نصاب میں اِسلام اور مُلکی سلامتی کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہا ہے۔ یعنی بالترتیب یہ خطرہ یا تو آٹھ سالا بھاوش کمار سے ہے جسے یقیناً ابھی لفظِ مذہب سے شناسائی بھی نہ ہو گی ، یا یہ خطرہ اُن لوگوں سے ہے جو ریاست کی غلط پالیسیوں پر سوالات اُٹھاتے ہیں ، اُن لوگوں سے جن کے تحفظ اور آزادیِ اظہارِ رائے کی ذمہ داری بھی خود ریاست پر ہے۔

لہٰذا ، ریاست کو مذہبی نہیں قومی ہونا چاہیئے جس کا مقصد یہ ہو کہ وہ محض کسی مولوی کے کہہ دینے سے بھاوش کو بلاسفمی کیس میں عدالت نہ بُلائے اور کسی سوال کے اُٹھائے جانے پر افراد کو نہ اُٹھائے۔ کیونکہ اکثریت ہو یا اقلیت ، وہ ریاست کے نظم میں برابر کی شریک ہوتی ہیں ، مثلاً جب کوئی حضرت مولانا فلاں صاحب اشارے پر رُک کر قوانین کی پاسداری کرتا ہے تو کوئی بھاوش کُمار بھی اُسی اشارے پر رُکتا اور قوانین کی پاسداری کرتا ہے۔

لہذا اپنی قوم کو ایجوکیٹ کریں ، معیاری تعلیم فرام کریں تاکہ وہ ایک قومی ریاست کے مطالبے کو عملی جامہ پہنا سکے اور اِس کے لیئے ضروری ہے کہ آپ تقلید پر مبنی مدارسِ فکر کا خاتمہ کریں جہاں بظاہر دہشت گردی اور شدت پسندی تو نہیں پڑھائی جا رہی مگر یہ مذہبی فکر پڑھایا جا رہا ہے جو اِس شدت پسندی کی طرف مائل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کیونکہ وہاں تعلیم پانے والے طلباء کے اذہانِ میں کم و بیش دو باتیں تو لازماً ٹھونسی جاتی ہیں ۔ ایک یہ کہ مُسلمان ساری دُنیا پر حکومت کرنے کے لیئے پیدا ہوئے ہیں اور دوسری یہ کہ ہمیں ہر حال میں خلافت نافذ کرنی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ معیاری تعلیم تک رسائی کیسے ممکن ہو ؟ اس کے لیئے ایک رائے خاکسار کی بھی ہے اور وہ یہ کہ بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی اُن کی خصوصی یا وسیع البنیاد تعلیم کا فیصلہ کرنا چھوڑ دیں اور اُنہیں عمومی تعلیم دِلائیں ۔ یعنی کسی بچے کو مدرسے میں بھیجنے کی بجائے سکول بھیجیں ، تاکہ سب سے پہلے وہ بنیادی علم سیکھے جس میں زبانیں ہیں ، حساب ہے اور وہ تمام چیزیں ہیں جو کسی بھی خصوصی تعلیم کی طرف جانے کی بنیاد ہیں۔ اُس کے بعد جب وہ بچہ شعور کی عمر کے پہنچے تو وہ بذاتِ خود کسی بھی خصوصی تعلیم کا انتخاب کرنے کا حق رکھتا ہو ، یعنی چاہے تو وہ ڈاکٹر بن جائے اور چاہے تو عالم۔ ہمیں اِس کے لیئے ہر طرح کی جد و جہد کرنا ہو گی اور ظاہر ہے کہ یہ ایک توجہ طلب سفر ہے اس لیئے اس میں لمبا وقت بھی صرف ہوسکتا ہے مگر ، اُجالے کی پَو کو پُھوٹتا دیکھنے کے لیئے ہمیں تِیرہ شبی کو باصبر گزارنا ہی پڑتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے