14 برس پہلے… نواز شریف پر کیا گزری؟

تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے معتوب ومغضوب فرد، محمد نوازشریف نے حال ہی میں کسی ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح ضیا دور کے جنرل چشتی جیسا بانکپن اور طمطراق رکھنے والے جنرل محموداحمد نے 12 اکتوبر1999 کو وزیراعظم ہاﺅس پہ قبضہ کیاتھا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ نوازشریف دفتر کے بجائے وزیراعظم ہاﺅس کے رہائشی حصے میں تھے۔ نوازشریف بتاتے ہیں کہ جنرل موصوف اس شکوہ کے ساتھ انکی طرف بڑھے جس شکوہ وجلال کے ساتھ شاید بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ بھی ہتھیار ڈالنے کے لئے کھڑے جنرل نیازی کی طرف نہیں بڑھا ہوگا۔ ان کے ساتھ بارہ کمانڈوز تھے۔ سب کے ہاتھ میں جدید گنیں تھیں۔ سب کی گنوں کا رُخ وزیراعظم کے سینے کی طرف تھا۔ انہی لمحات میں لاہور سے بیگم کلثوم نواز کا فون آیا۔ ”میں ٹی وی پر عجیب خبریں دیکھ رہی ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟“ میاں صاحب بیگم کو اس صورت حال سے آگاہ کررہے تھے کہ وزیراعظم کو حراست میں لینے کے لئے آنے والے دستے کے سربراہ جنرل محمود نے بلند آواز سے حکم دیا _ ”کاٹ دو فون کی تاریں“۔ تاریں کٹ گئیں۔ وزیراعظم گرفتار ہوگیا۔ ایک گاڑی میں ڈال کر چکلالہ کی ایک بیرک میں پہنچادیاگیا۔ رات کو جنرل محمود سمیت کون کون سے جرنیل، زیرحراست وزیراعظم کے پاس آئے؟ کس کاغذ پر دستخط کرانے کے لئے کس کس طرح شدید دباﺅڈالا۔ کیا کیا حربے آزمائے اور بالآخر زچ ہوکر نوازشریف نے کہا ”Over my dead body“ _ اس کے لئے تمہیں میری لاش سے گزرنا ہوگا۔

اس کہانی کی جزئیات پھر کسی دن۔ آج میں اکتوبر سے نہیں ستمبر سے جڑی ایک داستان ”گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را“ (کبھی کبھی اس قصے کو دہراتے رہنا چاہیے) کے طورپر یاد کررہا ہوں۔ یہ 9 ستمبر2007 کا ذکر ہے جب نوازشریف نے مشرف کی رعونت کو چیلنج کرنے کے لئے ہر طرح کی مصلحت، احتیاط، خدشات اور امکانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے لئے رخت سفر باندھا تھا۔ یہ اچانک نہیں ہوا تھا۔ اُس کے پیچھے الف لیلٰی کی بھید بھری کہانیوں سے بھی زیادہ ایک دلچسپ کہانی بغداد کی پُر پیچ گلیوں کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اس کہانی کا آغاز22 مارچ2007 کے دن ہوا تھا جب میری لندن میں میاں صاحب سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ کئی گھنٹوں پر محیط اس ملاقات میں شہبازشریف صاحب کو بھی شامل کرلیاگیا تھا۔ اگلے تین چار دن کی داستان، حقیقی معنوں میں کسی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ مجھے ڈیوک سٹریٹ کا وہ چھوٹا سا زیرزمین کافی ہاﺅس کبھی نہ بھولے گا جہاں ہم نے دفتر اور گھر کے بجائے اس لئے ملاقات کی تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا جو بالآخر 9ستمبر2007 کو لندن سے پاکستان کے لئے رخت سفر باندھنے کا دیباچہ بنا۔ خواجہ محمد آصف کو کیسے ہنگامی طورپر طلب کیاگیا؟ فخرالدین جی ابراہیم کس طرح سب کام چھوڑ چھاڑ کر لندن پہنچے؟ میں خود پر بڑا جبر کرتے ہوئے اپنے قلم کی لگام کھینچ رہا ہوں۔ لیکن۔ آپ کو اس کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

میں 23 مارچ 2007 سے شروع ہونے والی کہانی کے کم وبیش ساڑھے پانچ مہینوں پر محیط طلسماتی پیچ وخم سے صرف نظر کرتے ہوئے 9 ستمبر2007 تک آتا ہوں۔ دو دن قبل نواز شریف ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرچکے تھے کہ "مشرف جو جی چاہے کرلے، میں پاکستان آ رہا ہوں۔”

میں آج بھی اپنے تصور کی آنکھ سے وہ منظر دیکھ رہا ہوں جب نوازشریف آکسفورڈ سٹریٹ سے نکلتی ڈیوک سٹریٹ پر واقع 60 ڈیوک مینشن کے فلیٹ نمبر 10 میں اپنے دفتر میں الماریوں اورمیز کی درازوں کا جائزہ لیتے ہوئے کاغذات کی چھانٹی کررہے تھے۔ اُس وقت کمرے میں میرے علاوہ حسن نواز اور میاں صاحب کے پرائیویٹ سیکریٹری عمران چودہری کے سوا کوئی نہ تھا۔ میاں صاحب نے اچانک میز کی کسی دراز سے ایک چھوٹا سا کاغذ نکالا۔ غور سے دیکھا اور حسن سے کہنے لگے __ ”دیکھو حسن! اس پر ایک ٹیکسی ڈرائیور کا نام اور فون نمبر لکھے ہیں۔ پچھلے دنوں میں نے اس ٹیکسی میں سفر کیا تھا تو زندہ دل ڈرائیور نے کہا تھا کہ صاحب آپ نے بڑا اچھا پرفیوم لگا رکھا ہے۔ میں نے اُس سے وعدہ کرلیا تھا کہ تمہیں یہ پرفیوم پیش کروں گا۔“ پھر میاں صاحب نے پرفیوم کا نام لیتے ہوئے کہا _ ”یہ پرفیوم خرید کرٹیکسی ڈرائیور کو فون کرنا اور کسی طرح پہنچا دینا۔ سُستی نہ کرنا اور میری طرف سے تاخیر پراُس سے معذرت بھی کرنا۔“

اُس دن پاکستان میں سعودی سفیر ڈاکٹر علی عواض العسیری کی طرف سے باربار کوشش ہورہی تھی کہ وہ میاں صاحب سے بات کریں۔ میاں صاحب مسلسل گریز کررہے تھے۔ اُن دنوں پی۔ٹی۔آئی کے موجودہ راہنما رﺅف حسن سعودی سفیر کے سٹاف سے وابستہ تھے۔ انہوں نے میرے فون پر بات کی اور کہنے لگے کہ عسیری صاحب بات کرنا چاہتے ہیں اور میاں صاحب گریز کررہے ہیں۔ آپ انہیں قائل کریں۔ عسیری صاحب کے ساتھ میری بھی اچھی صاحب سلامت تھی۔ انہوں نے بھی مجھ سے بات کی۔ میں نے میاں صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ فیصلہ تو آپ نے کرہی لیا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے کہاکہ ہماری طرف سے کال نہیں جانی چاہیے۔ رﺅف حسن کے توسط سے سعودی سفیر کی کال آئی۔ میاں صاحب نے تحمل سے سنی۔ خلاصہ یہی کہ عسیری صاحب نے اُنہیں مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ بہت جلد معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ میاں صاحب نے کہاکہ میں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا۔ سپریم کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اب میرا نہ آنا، انتہائی نامناسب ہے اور سیاسی طور پر میرے لئے بہت مہلک بھی۔ سعودی سفیر نے غالباً اشارہ دیا کہ آپ کو دوبارہ جدہ بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ میاں صاحب نے انگریزی میں کہا ”Now these things don’t matter for me. I have already taken a decision. “
”اب یہ باتیں میرے لئے معنی نہیں رکھتیں۔ میں پہلے ہی فیصلہ کرچکا ہوں۔“

واپسی کے انتظامات، ٹکٹوں، ائیر لائن کا انتخاب وغیرہ کے معاملات سٹاف کے ایک متحرک رُکن افضال بھٹی دیکھ رہے تھے۔ ملکی وغیرملکی میڈیا کے علاوہ برطانیہ، امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں مقیم بہت سے پاکستانی بھی ہمراہ جانے کے لئے پہنچ گئے۔ ایمریٹس، اتحاد، تھائی کے علاوہ کئی دیگر ائیر لائنز پر بھی نشستیں بُک کرائی گئیں۔ پی۔آئی۔اے اور ائیر بلیو کو فہرست سے خارج کردیاگیا۔ قافلہ ہیتھرو ائیر پورٹ پہنچا تو کچھ ہی دیر بعد افضال بھٹی نے میرا پاسپورٹ اور بورڈنگ کارڈ میرے حوالے کیا۔ یہ پی۔آئی۔اے کی پرواز 786 تھی جو براہ راست ہیھترو سے اسلام آباد آرہی تھی۔ میں نے حیرت سے پوچھا __ ”پی۔آئی۔اے میں جا رہے ہیں؟“ میں بورڈنگ کارڈ تھامے گیٹ نمبر34 کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ ایگزیکٹو لاﺅنج کے باہر شہبازشریف، میاں صاحب اور اسحاق ڈار کھڑے ہیں۔ شہباز صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسحاق ڈار انہیں کچھ سمجھا رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی شہبازصاحب کہنے لگے __ ”آپ بھائی صاحب سے کہیں نا۔ مجھے چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں۔“ میاں صاحب نے عین ہوائی اڈے پہنچ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ شہباز صاحب کو فی الحال نہیں جانا چاہیے۔ ایک غیرملکی چینل کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے میاں صاحب بولے ”پی۔آئی۔اے ہماری قومی ائیر لائن ہے جو براہ راست لندن سے اسلام آباد جاتی ہے۔ باقی تمام پروازیں راستے میں کہیں نہ کہیں رُکتی ہیں۔ مشرف کے عالمی سرپرست کہیں بھی ہمارے لئے مسئلہ کھڑا کرسکتے ہیں۔ ہم نے پی۔آئی۔اے کا انتخاب اس لئے بھی کیا ہے کہ اس پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ہوتا ہے۔“

طیارے میں، میاں صاحب اور میں پہلو بہ پہلو نشستوں پر تھے۔ ونڈوسیٹ پر میں اور ساتھ والی سیٹ پر میاں صاحب۔ لمبے سفر کی حکایتِ طویل کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ میں گاہے گاہے اُن کی بائیں کلائی پربندھی گھڑی دیکھتا رہا جو پاکستان کا وقت بتا رہی تھی۔ طیارہ رن وے کو چھو رہا تھا جب ہم نے دیکھا کہ چار سو وردی اور بے وردی کمانڈوز پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ مسلح، کچھ غیرمسلح۔ جہاز کے سارے عملے نے فرداً فرداً میاں صاحب کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ ہم سب اکانومی کلاس میں جمع ہوگئے۔ اب طیارے کو کمانڈوز نے گھیر لیا تھا۔ پولیس کے شائستہ مزاج افسر، کلیم امام اُن دنوں اسلام آباد ائیر پورٹ پر امیگریشن ڈائریکٹر کے طورپر تعینات تھے۔ دو ساتھیوں کے ہمراہ طیارے میں آئے۔ میاں صاحب کوسیلوٹ کیا اور بولے _ ”سر آپ پاسپورٹ دے دیں تاکہ اس پر آپ کا دخول (Entry) لگادیاجائے۔ ہم نے کہاکہ نہیں، میاں صاحب کی امیگریشن بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔ اس ضمن میں برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے رُکن، لارڈ نذیر نے ترجمانی کے فرائض سنبھال لئے۔ ڈیڑھ گھنٹہ بحث مباحثہ جاری رہا۔ بالآخر طے پایا کہ میاں صاحب کار پر نہیں، ہمارے ساتھ بس پر ہی وی۔آئی۔پی لاﺅنج جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ اب وی۔آئی۔پی لاﺅنج کے اندر اور باہر سینکڑوں کمانڈوز نے مورچے سنبھال لئے۔ پولیس کے دستے الگ تھے۔

مجھے کلیم امام ایک طرف لے گئے اور بولے _ ”آپ میاں صاحب سے کہیں وہ پاسپورٹ دے دیں۔ یہ رسمی سی کارروائی ہے۔“ میں نے کہاکہ یہ فیصلہ تو میاں صاحب خود ہی کریں گے۔ میں لاﺅنج میں میاں صاحب کے سامنے والی نشست پر بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور اپنی جگہ سے اٹھے۔ میں بھی ساتھ چلا تو کمانڈوز کا غول بھی متحرک ہوگیا۔ ایک دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر میاں صاحب نے کہاکہ _ ”یہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟“ میں نے کہا _ ”ان کی نیت ٹھیک نہیں لگتی۔“ اب وی۔

آئی۔پی لاﺅنج مچھلی بازار کا منظر پیش کررہا تھا۔ اتنے میں اچانک درمیانے قد کا ایک منحنی سا شخص ہاتھ میں میگافون تھامے، سابق وزیراعظم کے سامنے آکھڑا ہوا اور بولا _ ”میں لیفٹیننٹ کرنل اظہر محمود قاضی ہوں۔ میرا تعلق نیب سے ہے۔ میرے پاس محمد نوازشریف کی گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔ ملزم ایک منی لانڈرنگ کے کیس میں نیب کو مطلوب ہے۔“ شیم شیم کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔ کرنل قاضی نے دوسرا اعلان کیا _ ”نوازشریف آپ زیرحراست ہیں۔“ اس کے ساتھ ہی بیسیوں کمانڈوز اور پولیس اہلکار نوازشریف کو دبوچنے کے لئے بڑھے، لیگی کارکنوں نے شدید مزاحمت کی اور میاں صاحب کو گھیرے میں لے لیا۔ اب اہلکار خود سری اور بدتمیزی پر اتر آئے۔ پرویز رشید کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس نے کپکپاتی مگر گرج دار آواز میں کہا _ ”خبردار پاکستان کے سابق وزیراعظم سے زیادتی ہوئی تو ہم جانیں دے دیں گے۔“

بالآخر نوازشریف کو کمانڈوز نے نرغے میں لے لیا۔ پکڑے جکڑے دھکم پیل کرتے ہوئے لاﺅنج سے باہر لے گئے۔ کچھ فرط جوش سے نعرے لگاتے رہ گئے۔ کچھ آنکھیں نم ہوئیں۔ کچھ ہاتھ الوداعی انداز میں لہرائے۔ کچھ بت بنے کھڑے رہے۔ مشرف کی ریاستی طاقت جیت گئی۔ اپنے وزیراعظم سمیت یہ سب ہار گئے۔ شاہراہ دستور کے کنارے کھڑے وہ سپریم کورٹ بھی ہار گئی جس نے حکم دیاتھا کہ نوازشریف کو وطن واپسی سے نہیں روکا جاسکتا۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے کئی سال بعد نوازشریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل قرار دے دیا تھا اور جو آئین شکنی سمیت بیسیوں گناہوں میں لت پت پرویزمشرف کا بال بھی بیکا نہ کرسکی تھی۔

اُس دن پورے اسلام آباد میں کرفیو کی کیفیت تھی۔ میں نہ جانے کس طرح گھر پہنچا۔ ٹی۔وی پر خبر چل رہی تھی کہ نوازشریف کو واپس جدہ بھیج دیاگیا ہے۔ پاک سرزمین شاد باد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے