طالبان، عمران خان اور پختون

انہیں اقتدار دلوایا گیا لیکن افسوس کہ عمران خان کو یہ نہیں سمجھایا گیا کہ پاکستان جیسے ملک کا اقتدار کس قدر ذمہ داری کا متقاضی ہے۔

حکمران بنانے سے قبل انہیں یہ نہیں سمجھایا گیا کہ حکمران بننے کے بعد زبان کس قدر احتیاط سے استعمال کرنی ہے اور نہ انہیںاختلافِ رائے کی اہمیت باور کروائی گئی اور نہ عمران خان کو مشاورت کے فن سے آشنا کرایا گیا۔

اپنے آپ کو عقل کل پہلے سےسمجھتے تھے اور جب وزیراعظم بنوائے گئے تو اس کے بعد تو وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا بھی سمجھنے لگے ۔وہ بہرحال وزیراعظم پاکستان ہیں، یوں ان کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ ریکارڈ کا حصہ بنتا ہے ۔

دنیا پاکستانی ریاست کی پالیسی سمجھتی ہے، یہ ردعمل ظاہر کرتی اور پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی بناتی ہے۔اب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ اور دنیا پر احسان جتارہے تھے کہ پاکستان نے ان کا ساتھ دے کر اسی ہزار جانوں کی قربانی دی ہے ۔

لیکن وہ ممالک ان کی بات پر کیوں کر یقین کریں گے جبکہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ یہی عمران خان بطور وزیراعظم اپنی اسمبلی کے فلور پر اسامہ بن لادن کو شہید جبکہ دوسری طرف طالبان کو غلامی کی زنجیریں توڑنے والے قرار دے چکے ہیں۔

جنرل اسمبلی سے اسی خطاب میں ایک طرف امریکہ اورعالمی برادری کو یہ باور کرارہے تھے کہ وہ طالبان کے خلاف اقوام متحدہ کی چھتری تلے جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ادراک کرے اور یہ کہ ان کے ملک پر ڈبل گیم کا الزام غلط ہے اور دوسری طرف اسی خطاب میں طالبان کی وکالت کرکے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے(انہوں نے تسلیم کرنے کا واشگاف مطالبہ نہیں کیا لیکن ان کی حکومت کی مدد کرنے اور دیگر مطالبات کا لب لباب یہی تھا) ۔

دوسری طرف اسی خطاب میں انہوں نے طالبان کے قہر کو بھی دعوت دی۔ انہوں نے افغان طالبان کی تحریک کو پختون قوم پرستی سے جوڑ دیا حالانکہ طالبان نے کبھی پختون نیشنلزم کی بات نہیں کی۔ ان کا نعرہ شریعت ہے ۔ وہ اپنی منزل خلافت قرار دیتے ہیں۔

طالبان کے مقابلے میں جو لوگ امریکہ اور نیٹو کی چھتری تلے حکمران بنے ، وہ حامد کرزئی تھے یا اشرف غنی اور دونوں پختون تھے ۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فورم پر اپنے اس خطاب میں انہوں نے پاکستانی عسکریت پسندوں کی طرف سے طالبان کی سپورٹ میں بندوق اٹھانے کی وجہ یہ بیان کی کہ دونوں طرف (افغانستان اور پاکستان) پختون تھے اور پختون نیشنلزم کی بنیاد پر پاکستانی طالبان نے افغان طالبان کی حمایت میں ہتھیار اٹھائے حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کی وجہ پختون قوم پرستی نہیں بلکہ مذہبی نظریاتی ہم آہنگی یاپھر سٹریٹیجک گیم ہے۔

طالبان کے پہلے دور میں ان کا حامی اخبار وزیرستان یا پشاور نہیں بلکہ کراچی سے نکلتا تھا جو ایک اردو بولنے والے عالم دین کے زیراہتمام شائع ہوتا تھا۔ ان کے سب سے بڑے حامی جنرل حمید گل (جنرل صاحب مرحوم بتایا کرتے تھے کہ ان کے آباواجداد ملاکنڈ ڈویژن کے علاقے بونیر سے آئے تھے اور وہ نسلا پختون ہیں ۔

لیکن اس حساب سے پھر مولانا صوفی محمد صاحب تاجک النسل ہیں جو طالبان کے حق میں ہزاروں لوگ افغانستان لے گئے تھے )اور کرنل امام تھے جو ظاہر ہے کہ پختون قوم پرست ہر گز نہیں تھے۔نائن الیون کے بعد ان کے حق میں پہلا فتوی لال مسجد کے امام کی طرف سے آیا ۔

بلاشبہ مولوی نیک محمد پاکستانی طالبان کے پہلے لیڈر تھے لیکن انہوں نے پناہ عرب اور ازبک مجاہدین کو دی تھی۔ اس وقت عمران خان کے چہیتے بیوروکریٹ اور ان کے موجودہ پرنسپل سیکرٹری اعظم ، جنوبی وزیرستان ایجنسی کےپولیٹیکل ایجنٹ تھے ۔

طالبان کی پہلی حکومت کے پاکستان میں جو شدید ترین مخالف تھے وہ بھی اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے لیڈر تھے اور اب دوبارہ ان کی کامیابی پر بھی سب سے زیادہ ماتم یہ قوم پرست جماعتیں کررہی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان میں پنجابی طالبان بھی شامل تھے ۔

لشکر جھنگوی کے لوگ زیادہ تر پنجاب اور سندھ سےتھے اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سابق جماعتی ارشد وحید اور اکمل وحید جیسے لوگ بھی شامل تھے تو پھر کیسے یہ پختون نیشنلزم کی تحریک تھی یا ہے؟ اردو بولنےوالے سید منورحسن کی وہ بہت عزت کرتے تھے لیکن پختون قاضی حسین احمد پر مہمند ایجنسی میں پختون میجر مست گل نےخودکش حملہ کروایا تھا۔ پاکستانی طالبان نے سب سے زیادہ پختون قوم پرست جماعت اے این پی کے رہنماوں اور کارکنوں کو قتل کیا۔

سب سے زیادہ پختونخوا کے پولیس اہل کار ان کے ہاتھوں مارے گئے ۔ پختون آفتاب شیرپاو، پختون امیر مقام اورپختون مولانافضل الرحمان پر بار بار خود کش حملے ہوئے لیکن الحمدللہ میاں نواز شریف یا عمران خان کبھی نشانہ نہیں بنائے گئے ۔ بیت اللّٰہ محسود پختون تھے اور ان کے نمبرون حریف اسفندیارولی خان بھی پختون ہیں۔

مولانا فضل اللّٰہ بھی سواتی پختون تھے اور ان کے بندوں کے ہاتھوں نشانہ بننے والی ملالہ یوسفزئی بھی پختون ہے ۔ اے پی ایس پر حملے کا ماسٹر مائند عمر منصور عرف نرے بھی پختون تھے اور وہاں پر لقمہ اجل بننے والے بچے بھی پختون تھے۔

دوبارہ منظم ہونے کے بعد ٹی ٹی پی نے جو پہلی ٹارگٹ لسٹ جاری کی ہے ، اس میں آفتاب شیرپاو اور میاں افتخار جیسے پختونوں کےنام تو ہیں لیکن پنجابی لیڈروں کے نام نہیں ۔

پھر آخر عمران خان کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ پختون نیشنلزم کی وجہ سے پاکستانی عسکریت پسندوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے؟ پختونوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ کمیونزم اور کیپٹلزم کی جنگ ہو یا پھر القاعدہ اور طالبان کی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیساتھ نظریاتی اور تزویراتی جنگ ہو، اس کیلئے میدان پختونوں کی سرزمین بن جاتا ہے ۔

اس وقت پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہے جس میں وزرا بھی بڑی تعداد میں پختون ہیں اور اعظم خان جیسے بیوروکریٹس بھی پختون ہیں لیکن وہ عمران خان کے سامنے حق بات کا اظہار کرسکتے ہیں نہ ان کو تاریخی حقائق بتاسکتے ہیں۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے