شارق جمال خان کی خرد پسندی

پطرس کے مضامین ہم سب نے پڑھ رکھے ہیں۔ اردو مزاح کی یہ کلاسیک تصنیف 1927 ءمیں شائع ہوئی جب پطرس کیمبرج سے انگریزی ادبیات میں ٹرائی پوز مکمل کر کے لاہور لوٹ آئے تھے۔ یہ بات قدرے کم معروف ہے کہ برطانیہ میں قیام کے دوران پطرس بچوں کے منفرد رسالے پھول کے لئے ہلکی پھلکی تحریریں بھی بھیجا کرتے تھے۔ ان میں سے دو نثر پارے بچپن میں میرے ہاتھ لگے۔ ’لندن کا سپاہی‘ اور ’لندن کی ٹیوب‘۔ کیا دل آویز بیان تھا۔ ایسی لطیف نثر کہ چھوٹے بچوں کے دل و دماغ روشن کر دے۔ ’لندن کا سپاہی‘ کا بنیادی پیغام تھا کہ پولیس شہریوں کی محافظ اور مددگار ہے۔ پولیس تمدن کا حصہ ہے، جبر کا آلہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ انگریز بہادر نے یہ انتظام اپنے ملک میں قائم کیا تھا۔ ہندوستان جیسی نوآبادیوں میں پولیس عوام کا حصہ نہیں بلکہ بیرونی حکمرانوں کا خوف قائم رکھنے کا ہتھیار تھی۔

آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ 1928ء میں سائمن کمیشن کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے لالہ لاجپت رائے پر لاہور کے ایس پی جیمزا سکاٹ نے خود تشدد کیا تھا جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ برطانوی ہند میں حسرت موہانی، سیف الدین کچلو اور جے پرکاش نرائن جیسے اہل حریت کو ناپسندیدہ گروہ سمجھنا پولیس کی تربیت کا حصہ تھا۔ اگر آزادی محبانِ وطن کی جدوجہد کا نتیجہ تھی تو پاکستان کی نوآزاد ریاست میں پولیس اور عوام کا رشتہ تبدیل ہونا چاہئے تھا۔ ہماری تاریخ مگر پیچیدہ پگڈنڈیوں کا جاں گسل سفر رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے نہ صرف پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا بلکہ جبر و تشدد کے اس بندوبست میں نامعلوم کے شاخسانے بھی شامل ہوتے گئے۔ حسن ناصر، نذیر عباسی اور حمید بلوچ تو چند استعارے ہیں، ریاستی تشدد کی اندھیری گلیوں میں کھو جانے والوں کی فہرست بے حد طویل ہے۔ قانون کی کتاب نے ریاست کو عوام کے تحفظ کے لئے جو قوت نافذہ بخشی تھی، اسے عوام کو بے دست و پا کرنے کا حیلہ بنا لیا گیا۔

اس بدصورت تصویر میں اگر عوام بے بس ہوئے تو خود پولیس کی اہلیت اور تشخص پر بھی دھبے لگے۔ یوں سمجھئے کہ صاحبزادہ عبدالرؤف اور راؤ رشید جیسے ناموں میں اصغر خان ہلاکو اور مسعود محمود جیسے کرداروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ قلم کی آوارگی دیکھئے، پطرس بخاری سے چلے تو مسعود محمود کی خبر لاتا ہے۔ مدعا یہ تھا کہ پولیس اگر خوف، تشدد، لاقانونیت اور جبر کی علامت ٹھہرے تو اس صحرا میں تمدن کی قلم کیسے لگائی جائے۔ شعر و ادب، علم اور فکر کی امید کیسے باندھی جائے؟ لیکن نہیں صاحب، ہماری دھرتی بنجر نہیں، امکان کا معدن ہے۔ لو دیتا ہے کیا کیا یہ چراغ تہ داماں…

علی افتخار جعفری جیسے سلجھے ہوئے، خوش ذوق اور صاحب طرز شاعر سے برسوں ملاقات رہی۔ کار سرکار میں طاق مگر حلقہ احباب میں صرف علم و ادب پر بات ہوتی تھی۔ ایک مختصر مجموعہ ’مٹی ملے خواب‘ شائع ہوا مگر اس سوختہ نصیب نے جانے میں عجلت دکھائی۔ 9 فروری 2014 کو 44 برس کی عمر میں رخصت ہو گئے۔ کچھ برس بعد حلقہ ارباب فکر کے ایک مشاعرے میں شارق جمال خاں سے تعارف ہوا۔ نشست و برخاست کے سبھاؤ اور تکلم کی حلاوت سے علی افتخار کی یاد تازہ ہو گئی۔ یہ معلوم تھا کہ ان کا ایک مجموعہ ’آتش زیر پا‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے تاہم پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اب ان کا دوسرا مجموعہ ’فسانہ کون و مکاں‘ پڑھا تو ایک منفرد رنگ کے حقیقی شاعر سے تعارف کی خوشی نصیب ہوئی۔ شارق کلاسیکی ذوق رکھتے ہیں، لغت پر فارسی کا رنگ غالب ہے۔ قدما میں بیدل اور غالب سے فیض اٹھایا ہے اور جدید شاعروں میں راشد کی چھوٹ دکھائی دیتی ہے۔ ان تین ناموں سے آپ نے جان لیا ہو گا کہ شارق جمال کو کائناتی سوالات سے تعلق ہے اور وہ اوہام کی اس بستی میں خرد کا چراغ لئے وارد ہوئے ہیں۔ ان کی نظم ’بتانِ اوہام‘ کا ایک ٹکڑا دیکھئے:

خرد ہی شرعِ ہنروراں ہے

خرد ہی اسلوبِ کاملاں ہے

خرد کی پیکر طرازیوں نے جمال فکر و نظر تراشا

حقیقتوں نے دروغ و وہم و یقیں کے غم سے نجات پا کر

بتانِ اوہام و خوف و دہشت کو ان کے معبد میں توڑ ڈالا

اب شارق جمال کی غزل کا رنگ ملاحظہ ہو

مکاں تو ہے ہی نہیں لامکاں تو ہے ہی نہیں

مرے شعور سے ہٹ کر جہاں تو ہے ہی نہیں

گو مثل آئنہ ہیں یہ کون و مکاں مگر

بے چہرگی عذاب ہے آئنہ ساز کی

مجھ کو جہان ناقص و کہنہ سے کیا غرض

اک کائنات ہے کہ پریشان مجھ میں ہے

حریفان ہوس، اے منکرین چشم و گیسو

بدن کی آگہی تو سب سے پہلی آگہی ہے

آج کے پاکستاں میں جہاں ہم جہل، جنون اور ضعیف الاعتقادی کی غلام گردشوں میں فان گوگ کی پینٹنگ ’’قیدی‘‘ کے کرداروں کی مانند رائیگانی کے سفر پر ہیں، شارق جمال کی شاعری مجھے فرانسسکو گویا کی پینٹنگ یاد دلاتی ہے ’جہاں عقل و خرد کو اونگھ آجائے، وہاں عفریت جنم لیتے ہیں‘۔ 36 نظموں اور 59غزلوں کا یہ مجموعہ اردو شعر میں خرد افروزی کی مثنوی کہا جا سکتا ہے۔
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے