محفوظ بچپن : قسط نمبر:3،محفوظ انٹرنیٹ/ آن لائن دنیا

( محفوظ بچپن ایک جامعہ سوچ کو فروغ دینے کی مہم ہے، جس میں ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کی جانی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت پر توجہ دی جائے۔ اور انہیں جسمانی، نفسیاتی کے ساتھ جنسی احتصال سے بچایا جا سکے۔
گزشتہ دو اقساط میں محفوط گھر اور محفوظ اسکول کا تصور پیش کیا گیا ہے)۔

[pullquote] ٹیکنالوجی کی دنیا کا انقلاب اور بچوں کے لئےبڑھتا خطرہ[/pullquote]

انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ہی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایسا انقلاب آیا کہ انسانی سماج کا صدیوں سے جاری چلن اچانک بدلنے لگا۔ دنیا ایک گلوبل ویلج یا عالمی سماج میں دھلنے لگی۔ اس سے متاثر تو ہر معاشرہ، فرد اور قوم ہوئی مگر اس کے سب سے زیاردہ اثرات نوجوان نسل اور بچوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔

یہ ایک بالکل نئی دنیا کی شروعات ہے جس سے معاشرے کے بڑے یعنی والدین، اساتذہ اور دیگر لوگ خود بھی اتنے آگاہ نہیں ہیں، اور بچوں کو اس حوالے سے رہنمائی دینے سے عمومی طور پر قاصر نظر آتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کے یہ آن لائن سماج بچوں کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس میں ہر دن آنے والی جدیدیت کے ساتھ جہاں بڑے پریشان ہیں وہیں نوجوانوں اور بچوں کی دلچسپی اس جادوئی دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لئے یہاں موجود خطرات کو جاننا ضروری ہے۔

کرونا وائرس کی آمد کے ساتھ دنیا بھر میں بچوں کا سکرین کے سامنا کرتے رہنے کا وقت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں نا صرف بچوں کو الگ سے فون، ٹیبلیٹس، لیپ ٹاپ یا دسک ٹاپ کمپوٹر تک رسائی کی زیادہ آزادی مل گئی ہے۔ بلکہ ان میں سے کئی ایک کے پاس اپنے ذاتی سمارٹ فونز وغیرہ بھی آ چکے ہیں۔ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بھی بہت متحرک ہو گئے ہیں، اور ان میں سے اکثر اپنی سرگرمیوں کو والدین سے خفیہ رکھنے کے گر بھی سیکھ چکے ہیں لیکن والدین اگر بروقت اس رجحان کو بھانپ لیں اور تھوڑا سا کوشش کریں تو مکمل تو نہیں مگر کچھ حد تک وہ بچوں کی نگرانی کر سکتے ہیں۔

[pullquote]والدین کے لئے کچھ تجاویز[/pullquote]

1-سب سے پہلے والدین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ آن لائن موجود سب معلومات 100 فیصد درست نہیں ہوتیں۔ ان کے بچے سکرین پر کیا دیکھ رہے ہیں، کن لوگوں سے رابطے میں ہیں اور ان کی سرگرمیاں کس نوعیت کی ہیں؟

2-والدین کو خود بھی وقت نکال کر انٹرنیٹ کے استعمال سے واقف ہونا چاہئے۔ تا کہ وہ بچوں کی برواوزنگ ہسٹری جان سکیں، ان کے سوشل میڈیا کو مانیٹر کر سکیں۔

3-سب سے پہلے والدین یہ بات سمجھ لیں کہ وہ انچارج ہیں۔ بچوں کے سامنے اپنی ٹیکنیکل کمزوریوں کا تذکرہ نا کریں۔ بلکہ انہیں اس خیال میں رہنے دیں کہ آپ جان سکتے ہیں کہ وہ آن لائن کیا کچھ کر رہے ہیں۔

4-آپ ان کے بل ادا کرتے ہیں، انہیں ڈیوائیس لے کر بھی آپ نے دی ہے، اس لئے اس کا استعمال کا گھریلو قانون بھی آپ نے طے کرنا ہے اور بچوں کو اس قانون کا علم ہونا چاہئے۔

5-بچوں کو خفیہ طور پر انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کوشش کریں بچوں کے لئے بڑی سکرین کا انتظام ہو، جیسے ڈسک ٹاپ، جو گھر کے ایسے حصے میں نصب ہو جہاں چلتے پھرتے والدین کی نگاہ جاتی رہے۔ تا کہ آپ جان سکیں بچے سکرین پر کیا دیکھ رہے ہیں۔

6-سوشل میڈیا یا آن لائن گیم کے لئے وقت مقرر کریں۔ بچے ایک یا دو گھنٹے سے زیادہ اس طرح کی سرگرمیوں میں صرف نا کریں۔ اکثر انہیں ذرائع سے بچے اجنبی لوگوں سے رابطے میں آجاتے ہیں۔ اسطرح ان کی نجی معلومات، تصاویر، گھر یا اسکول کا پتہ وغیرہ ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے جو جرائم پیشہ یا منفی ذہنیت رکھتے ہوں۔

7-بچوں کو انٹرنیٹ کے خطرات سے بار بار آگاہ کریں، انہیں بتایئں کسی اجنبی سے فاصلہ رکھیں، اپنی تصاویراور دیگر معلومات کسی کو مت بھیجیں۔ نئے دوست بنانے سے پہلے بہت احتیاظ کریں۔ کو شش کریں انہیں لوگوں کو اپنے سوشل میڈیا پرآنے دیں جن کو والدین بھی جانتے ہیں یا کم از کم اسکول کا حوالہ ہو۔ ان دوستوں کے ساتھ بھی تعلقات کی حدود کے بارے میں بچوں کو ہدایات دیں۔ جیسے اپنی نا مناسب تصاویر یا وڈیو نا شئیر کریں۔ والدین کے بینک یا کریڈٹ کارڈ کے نمبر، شناختی کارڈ کی معلومات وغیرہ نا بتائیں۔ نا ہی والدین کے گھر آنے جانے کے اوقات کی خبر دوسروں کو دیں۔ گھر میں موجود قیمتی اشیاء، نقدی یا زیورات کی تفصیل اول تو بچوں کو نا دیں اور اگر وہ جانتے ہوں تو انہیں سمجھائیں کہ ایسی باتیں دوسروں کو نہیں بتاتے۔

ایک اخباری سروے کے مطابق پچاس فیصد سے زیادہ بچے اپنی آن لائن سرگرمیوں کو والدین سے چھپانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ان کی سکرین لاک ہوتٰے ہیں یا، ان کے ٹیکسٹ پیغامات والی ایپس پر پاس کوڈ لگا ہوتا ہے۔ وہ والدین کو سوشل میڈیا پر ایڈ نہیں کرتے یا کامیابی سے ایک سے زیادہ اکاونٹس چلاتے ہیں۔ اس طرح والدین چکمہ کھا جاتے ہیں۔

[pullquote]خفیہ گروپس کے ذریعے بچوں کو بلیک میل کرنا[/pullquote]

سکرین کی عادت علت میں بدل سکتی ہے، جیسے کہ نشہ۔اس لئے اس کا تدارک ضروری ہے۔ بہت ساری آن لائن گیمز کی سائٹس نوجوانوں اور بچوں کو اپنا عادی بنا لیتی ہیں، یہاں تک کہ چند گیمز کے ذریعے بچے خفیہ گروپس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جہاں ان کی ذہنی روش کو بدلنے کے لئے آزمائش پر مبنی پروگرام ہوتے ہیں۔ جو بچوں کو آہستہ آہستہ شدت پسندی کی طرف راغب کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ وہ انہیں خود کشی کے لئے رضامند کر سکتے ہیں۔یا بچوں کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے آپ کو بچے کے رویے پر نگاہ رکھنی ہوگی۔انہیں مکمل بھروسہ دینا دینا ہوگا کہ وہ ہر پریشانی بلاجھجک آپ کو بتا سکتے ہیں۔ اس طرح کی کسی شکایت کی صورت میں فوراَ متعلقہ ادارے سے رابطہ کریں۔تا کہ قانونی مدد حاصل کی جا سکے۔

[pullquote]آن لائن غیراخلاقی مواد[/pullquote]

آن لائن غیراخلاقی مواد کی بھرمار ہے۔ اور یہ ناماسب کونٹینٹ اب ہر سماجی رابطے کی ساتئٹ پر ناصرف موجود ہے بلکہ لوگ ایک دوسرے کو بھیجنے میں کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ بچے بھی اس طرح کے مواد تک باآسانی رسائی رکھتے ہیں۔ اسلئے ان کے دوستوں،رابطہ کاروں کا والدین کو ہونا لازمی ہے۔ اور روزانہ کی بنیاد پر بچوں سے ان کے نئے پرانے دوستوں کے بارے میں عمومی بات چیت ضرور کریں۔ایسے میں آپ کسی نئے نام سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ یا کسی مشکوک دوست کے بارے میں بھی جان سکیں گے۔

[pullquote] بچوں کے بدلتے رویوں کی نگرانی[/pullquote]

اس صورت میں بچوں کو تربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے، انہیں زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے کے لئے سختی کے بجائے دلیل سے کام لیا جائے۔ ان پربھروسہ کیا جائے لیکن ساتھ ساتھ ان کے بدلتے رویوں کی نگرانی بھی ضروری ہے۔

[pullquote]بزرگوں کے ساتھ اچھا واقت گذارنے کی ترغیب[/pullquote]

بچوں کو گھمانے ضرور لیجائیں، انہیں خاندان کے بزرگوں کے ساتھ اچھا واقت گذارنے کی ترغیب دیں۔ طلوع صبح، غروب آفتاب یا ہریالی کے مناظر دکھائیں، انہیں بدلتے موسموں کو شعور دیں۔ پھولوں، کتابوں اور ہمجولیوں کے ساتھ کھیلنے کی اہمیت سکھائیں۔

[pullquote] کھانے کے اوقات میں فون کا استعمال ترک کریں[/pullquote]

کھانے کے اوقات میں خود بھی فون کا استعمال ترک کریں، اسی طرح رات کو دیر تک سمارٹ فون کے استعمال سے خود بھی پرہیز کریں اور بچوں کو بھی جلد سونے جاگنے کی تربیت دیں۔ عبادات، غور و فکر کی نشست کا اہتمام کریں۔ یاد رہے بچے آپ کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔

[pullquote]صحت مندانہ آن لائن سرگرمیاں[/pullquote]

انٹرنیٹ کی دنیا میں لاتعداد مواقع بھی موجود ہیں۔ سیکھنے اور آگے بڑھنے کے لئے ضروری معلومات لیں اور بچوں کو ایسی صحت مندانہ آن لائن سرگرمیوں سے متعارف کروایں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ وقت ضائع کرنے کے بجائے ہنر سیکھیں۔

[pullquote]بڑا مسئلہ والدین کا انٹرنیٹ سے ناواقفیت[/pullquote]

پاکستانی والدین کی بڑی تعداد ان پڑھ ہے یا بہت بنیادی تعلیم رکھتی ہے۔ ان کے لئے انٹرنیٹ کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہے۔ بلکہ ان میں سے اکثر سمارٹ فون کے استعمال کے لئے اپنے بچوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان والدین کو خطرات کا نا تو اندازہ ہے نا ہی آگاہی۔ اسلئے یہ ایک سماجی مسئلہ بن رہا ہے۔ پڑھے لکھے افراد، خاص کر اساتذہ کی زمہ داری اس حوالے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کہ وہ ایسے بچوں پر توجہ دیں، انہیں اعتماد میں لیں اور ان کے والدین کی بھی تربیت کریں۔

[pullquote] آن لائن جھوٹ اور دھوکہ دہی[/pullquote]

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں تبدیلی کی رفتار کا ساتھ دینا یا اسے مکمل طور پر سمجھ لینا شاید دو دہائی پہلے جوان رہ چکی نسلوں کے لئے ممکن نا ہو، ان خطرات کا ادراک بھی صحیح طور پر نہیں جا سکتا۔ آن لائن جھوٹ اور دھوکہ دہی کے واقعات بھی عام ہیں۔ جعلی معلومات، جھوٹی خبریں اور ریٹنگ کے چکر میں بہت سا غلط مواد دستیاب ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہر شعبہ زندگی کے افراد کو خود کو تیار کرنا ہوگا۔ نئی نسل اگر اخلاقی تربیت ٹھوس ہو تو وہ آن لائن کے بہت سے خطرات سے بچ سکتے ہیں۔ بچوں کو وقت دیں، ان کے اور اپنے درمیان ٹینالوجی کو مت آنے دیں۔

یہ تحریر شاید تمام صورت حال کا جائزہ نا لے سکی ہو مگر یہ ایک کوشش ہے ، جس میں آپ کا تجربہ اور رائے سے مزید بہتری کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے