ایک تھا انگریز، ایک ہے انگریزی !

لوگ انگریزوں اور انگریزی کے بارے میں جو چاہے کہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمیں انگریز اور انگریزی دونوں سےبہت محبت ہے۔ اس ضمن میں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ انگریز اور انگریزی سے محبت کے معاملے میں میں تنہا نہیں ہوں بلکہ اس انجمن میں میرے رازداں اور بھی ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنے ایک ہم خیال دوست کو دیکھا کہ اس نے اپنا گورا چٹا بیٹا گود میں اٹھایا ہوا ہے، اس کی بلائیں لے رہا ہے اور کہہ رہا ہے ’’آہا، میرا بیٹا تو کسی انگریز کا بیٹا لگتا ہے!‘‘ میرے ہم خیال لوگوں میں صرف یہی دوست نہیں جنہیں اپنے بیٹے پر کسی انگریز کا بیٹاہونے کا شبہ گزرا تھا بلکہ انگریز کے زمانے کے خانسامے اور خان بہادر بھی میری ہی طرح انگریزی دور کے قصیدہ خواں ہیں۔ آپ ان سے بات کر کے دیکھیں وہ انگریز حکومت کی برکات اور اس کے فیوض پر کچھ یوں روشنی ڈالیں گے کہ انگریز حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک پر خواہ مخواہ ندامت سی ہونے لگے گی۔سبحان اللہ! کیا زمانہ تھا، جب انگریز ڈپٹی کمشنر جو انگلستان سے اپر ڈویژنل کلرک سے پروموٹ ہو کر ہندوستان میں بطور ڈپٹی کمشنربن کر آئے تھےان کے حضور ہمارے وڈیرے ڈالیاں پیش کرنے کے لیے حاضر ہوتے تھے اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کرنے کی صورت میں شاداں و فرحاں گھروں کو لوٹتے تھے، انگریز کے دربار میں کرسی ملنے پر مہینوں اس پر فخر و انبساط کا اظہار ہوتا تھا۔ الحمد للہ اپنے ان محسنوں کے احسانات کو یاد رکھنے والی نسل اور پھر ان کی اگلی نسل اس وقت ہمارے درمیان موجود ہے اور اتنے کروفر سے موجود ہے کہ آج ہم ان کی خدمت میں ڈالیاں پیش کرنے کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور قدم بوسی کی سعادت حاصل ہونے پر شاداں و فرحاں گھروں کو لوٹتے ہیں۔

اور جہاں تک انگریزی زبان سے محبت کا تعلق ہے تو اس زبان کے کشتگان میں تو کشتگان قوم سے افسران قوم تک شامل ہیں تبھی تو انگریز کے جانے کے بعد بھی دفتروں سے انگریزی نہیں گئی، دراصل اس زبان میں برکت بہت ہے، آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو میں بات کرتے ہوئے انسان کچھ کچھ گھٹیا سا لگتا ہے، لیکن جونہی وہ انگریزی میں گفتگو کا آغاز کرتا ہے۔ ایک دم سے ’’اپ گریڈ‘‘ ہو جاتا ہے۔ میں نے بھی تو یہی دیکھا ہے کہ جونہی کوئی شخص انگریزی بولنے والوں کی ’’یونین‘‘ میں شامل ہوا اس کے درجات بلند ہو گئے، تاہم اس کے لیے صرف انگریزی بولنا کافی نہیں بلکہ اندر سے انگریز ہونا بھی ضروری ہے اور ’’کالے لوگوں‘‘ کو ایک فاصلے پر رکھنا تو بنیادی شرط ہے۔

میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ اگر ہم میں سے کوئی اپنی قومی یا مادری زبان میں گفتگو کرے تو اس کے بارے میں پہلا تاثر کچھ ٹھیک نہیں رہتا جبکہ انگریزی بولتے ہی اس کی ٹانگوں کے ساتھ لمبے لمبے بانس لگ جاتے ہیں اور وہ اتنا اونچا نظر آنے لگتا ہے کہ خواہ مخواہ اس کے سامنے جھکنے کو جی چاہتا ہے اور یہ ضروری بھی ہے کیونکہ بقول مرزا محمود سرحدی؎

جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں

ہم خودی کو بلند کرتے رہے

تاہم اردو پر انگریزی کی ’’فضیلت‘‘ کا پوری طرح اندازہ لگانا ہو تو کبھی انگریزی اخبارات میں دانشوروں کے خوبصورت انگریزی میں لکھے ہوئے مضمون پڑھیں، محسوس ہوگا کہ کوئی شخص بلندی پر کھڑا ہو کر بات کررہا ہے بلکہ بیشتر اوقات تو وہ اتنی بلندی پر کھڑے ہوتے ہیں کہ نیچے تک آواز ہی نہیں آتی، اس کے برعکس یہی مضمون اردو میں ترجمہ کر کے پڑھیں، تو یہ مضمون دو ٹکے کے نہیں لگیں گا، اب ظاہر ہے اس میں ان دانشوروں کا یا ان کی دانشوری کا کوئی قصور نہیں، قصور تو اس نیٹو (NATIVE) زبان کا ہے، جسے اردو کہتے ہیں اور جسے اس بے دلی سے ٹائپ کیا جاتا ہے کہ نہ کہیں کوما اور نہ کہیں فل اسٹاپ ڈالا جاتا ہےتاہم یہاں یہ وضاحت ایک دفعہ پھر ضروری ہے کہ انگریزی کے کشتگان میں صرف رہنمایان کرام اور افسران عظام ہی شامل نہیں بلکہ معاملہ :

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

والا ہے۔ چنانچہ ہم سب لوگ انگریزی سے اپنی محبت اور عقیدت کا عملی ثبوت پیش کرنے کیلئے اگر اور کچھ نہیں تو اپنی گفتگو میں انگریزی کا ایک آدھ جملہ بولنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں اور جنہیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوتی، وہ اپنی خاموش محبت کا ثبوت کسی نہ کسی طور پیش ضرور کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست ایک دفتر میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ انگریزی سے والہانہ محبت کے باوجود بدقسمتی سے اس زبان سے متعارف ہونے کی سعادت سے محروم رہے۔ مگر مجال ہے اپنی یہ محرومی کسی پر ظاہر ہونے دیں، چنانچہ جب کوئی انگریزی میں درخواست آئے تو درخواست ہاتھ میں پکڑتے ہیں، عینک لگاتے ہیں اور پانچ دس منٹ تک پوری توجہ اس کے نفس مضمون پر غور کرتے ہیں، بالآخر درخواست میز پر رکھتے ہیں، عینک اتارتے ہیں اور میز پر کہنیاں ٹکا کر درخواست گزار سے کہتے ہیں ’’درخواست میں نے پڑھ لی ہے، اب تم مختصراً مجھے یہ بتائو کہ تم چاہتے کیا ہو؟‘‘

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے