خاتون کے سر میں کیل اور قوم کے چوراہے میں ہاتھی

گورنمنٹ کالج لاہور ایک درس گاہ نہیں، ہمارے تمدنی ارتقا کا اشاریہ تھا۔ ’’جاننے کی جستجو‘‘ اس ادارے کا اعلان ہی نہیں تھا، یہاں کی ایک ایک اینٹ پر علم، تحقیق اور تخلیق کے نشان ثبت تھے۔ مولانا آزاد، آرنلڈ، اقبال، گنگا رام، پطرس، صوفی تبسم، عبدالسلام، ڈاکٹر نذیر، پروفیسر سراج، خواجہ منظور، فیض، راشد، خورشید انور، بھیشم ساہنی، رفیع پیر، خوشونت، بلراج ساہنی، دیوآنند اور اشفاق احمد تو ڈیڑھ صدی پر پھیلی کہکشاں کے چند نجم ثاقب تھے، بھرے تھے یہاں چار سمتوں سے دریا۔ کچھ برس پہلے گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا اور پھر سننے میں آیا کہ اسے مدرسہ بنا دیا گیا ہے۔ گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا کا مصرع تو از رہ احترام دہرا نہیں سکتا لیکن استاد تبریزی کا ہم آواز ہونے سے کیوں کرانکار کروں، چو ریزم اشک، از دل آہ درد آلود برخیزد۔

میں آنسو بہائو?ں گا تو صدائے دردناک تو برآمد ہو گی۔ عجیب موسم اترا ہے کہ کوئی مضمون ہو، کاغذ پر شہر آشوب ابھر آتا ہے۔ مجھے تو آج گورنمنٹ کالج کے ایک گمشدہ دوست جعفر ابراہیم کو یاد کرنا تھا۔ منحنی بدن، دبتا ہوا قد مگر ذہنی قامت ایسی کہ جب ہم ایسے پیادے ڈکنز اور ہارڈی کو دریافت کر رہے تھے، جعفر ابراہیم مارسل پرائوست اور ڈی ایچ لارنس کی پرتیں بیان کرتے تھے۔ ایک روز دیکھا کہ وائس پرنسپل کے دفتر کی طرف آنے والی راہداری پر حسب معمول وارفتگی کے عالم میں بآواز بلند کچھ دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ قریب آنے پر کھلا کہ یار طرحدار پارمینیدس کے معروف جملے کی سرمستی میں ہیں، All That is، is۔ All that is not، is not۔ خدا معلوم پروفیسر شاہد حسین سے روشنی لے کر آ رہے تھے یا آر اے خان صاحب سے Daniel Keyes کے ناول Flowers for Algernon کا درس لیا تھا۔ جملہ بہرحال بحر معنی تھا اور گزشتہ دنوں برادر اقبال حیدر بٹ سے ملاقات کے دوران کوندے کی طرح ذہن میں لپکا۔ اقبال حیدر نے اثنائے گفتگو کہا کہ ملک عزیز میں زندگی کرنا ایک عجیب غیر حقیقی کیفیت سے گزرنا ہے۔ جو باتیں سامنے کی ہیں، انہیں اوجھل کر دیا گیا ہے اور جن معاملات کا سرے سے وجود ہی نہیں، ان پر سر پھٹول ہو رہی ہے۔ گویا ہم بحیثیت ایک قوم کے، ایتھنز کے اڑھائی ہزار برس قدیم فلسفی Parmenides سے بھی پیچھے جا پڑے ہیں۔ اقبال حیدر کا فقرہ مکمل ہوا تو دو دوست بہت دیر خاموش بیٹھے رہے۔ وبائیں صرف جسمانی امراض کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتیں، ذہنی افلاس سے بڑھ کر کوئی کیا وبا ہو گی۔ پشاور کا ایک حالیہ واقعہ سنیے۔ واضح رہے کہ یہاں 26 جنوری کو پشاور کے ایک مندر کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار کے قتل کا ذکر نہیں اور نہ 30جنوری کو پشاور میں ایک مسیحی پادری کے قتل کا حوالہ دے رہا ہوں۔

آٹھ فروری کو پشاور کے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں دو مرد اور دو عورتیں ایک حاملہ عورت کو اس حالت میں لے کر آئے کہ اس کے سر میں دو انچ لمبی آہنی کیل پیوست تھی۔ نیوروسرجن حیدر خان نے بتایا کہ کھوپڑی میں کیل پیوست ہونے کے باعث حاملہ خاتون شدید زخمی تھی، وہ مکمل طور پر ہوش میں تھی، لیکن بہت تکلیف میں تھی۔ آپریشن کے ذریعے کیل نکال کر مریضہ کو فارغ کر دیا گیا۔ طبی عملے نے پولیس کو اس واقعے کی اطلاع نہیں دی۔ مریضہ کے ہمراہ آنے والے چار افراد غائب ہو گئے۔ متاثرہ خاتون کا ابتدائی بیان تھا کہ اس نے ایک ’جعلی پیر‘ کے مشورے پر سر میں کیل ٹھونکی تھی تاکہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ خاتون نے اسپتال آنے سے قبل چمٹے کی مدد سے خود کیل نکالنے کی کوشش کی تھی۔ کیل ٹھونکنے کے لیے ہتھوڑا یا کوئی اور بھاری چیز استعمال کی گئی تھی۔ ڈاکٹر یا پولیس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ کیل کس نے اور کیسے ٹھونکی؟ ہسپتال کے ریکارڈ میں صرف زخمی خاتون کا نام ’’باز گلہ‘‘ درج تھا۔ ذرائع ابلاغ میں خبر نکلنے کے بعد پولیس نے کیمروں وغیرہ کی مدد سے خاتون کے گھر کا پتا چلالیا۔ معلوم ہوا کہ خاتون افغان مہاجر ہے اور دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں ہے۔ تاہم متاثرہ عورت نے ڈاکٹر کو بتایا تھا کہ اس کے شوہر کو بیٹیاں پسند نہیں ہیں۔ متاثرہ خاتون کا شوہر احمد صابر طلب کیا گیا جس نے پولیس کو بتایا کہ بازگلہ اس کی دوسری بیوی ہے۔

دونوں بیویوں سے اس کے گیارہ بچے ہیں۔ متاثرہ خاتون کے شوہر احمد صابر نے پولیس کو بتایا کہ میری بیوی نفسیاتی مریض ہے اور اس کے سر میں کیل کسی پیر نے نہیں بلکہ جنات نے ٹھونکی ہے۔ پشاور کے ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شوہر صاحب نے انکشاف کیا کہ جنات نے ان کی اہلیہ کو اپنے سر میں کیل ٹھونکنے پر مجبور کیا۔ جنات اس سے پہلے بھی اس کی بیوی کو تیسری منزل سے نیچے پھینک چکے ہیں۔ پولیس کے مطابق خاتون کے ہاتھوں پر پہلے سے زخموں کے نشانات بھی ہیں۔ خاتون کے شوہر نے دعویٰ کیا کہ ’میں گھر پر نہیں تھا اور جب گھر آیا تو بیوی کے سر میں کیل تھی۔ بیوی کے سر میں کیل جنات نے ٹھونکی ہے۔ ’’دوسری طرف پولیس نے کہا کہ خاتون کو ذہنی بیماری درپیش ہے اور کیل ٹھونکنے کا واقعہ بھی حادثاتی لگتا ہے۔

پڑھنے والے گھریلو تشدد کے اس واقعے کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ خاتون خود اپنے سر میں کیل کیسے ٹھونک سکتی ہے۔ سر میں گھسا کیل کا نوکیلا حصہ حادثاتی طور پر سر میں کیسے داخل ہو سکتا ہے؟ ایسی کارکردگی کے لئے دوسرا فرد درکار ہوتا ہے۔ عامل صاحب کہاں ہیں؟ خاتون اور شوہر کے بیانات میں تضاد کیوں ہے؟ متاثرہ خاتون کو پریس کانفرنس میں کیوں نہیں لایا گیا۔ جنات کا ذکر کرنے والے شوہر کو گرفتار کیوں نہیںکیا گیا؟ عزیزو، یہ صرف پشاور کی ایک خاتون کے سر میں گھسی کیل کا معاملہ نہیں، ہماری قوم کے چوراہے میں ہاتھی گھس گیا ہے اور ہماری تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ یہاں جو ہے، نہیں ہے اور جو نہیں ہے، وہی اصل حقیقت ہے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے