میلاد منانے کے حامی اورمخالف پڑھیں

میلاد منانے والوں کو بھی اسکی حیثیت ذھن نشین رکھنی چاہئے

یہ بات درست ہے کہ میلاد منانا بدعت نہیں اور نعمت خداوندی کے بیان اور اس پر خوشی کے اظہار نیز رسول اللہﷺ سے محبت و عقیدت کے جذبے کے اظہار اور آپکی سیرت و شان کے بیان کیلئے منانا باعث ثواب ہے۔

مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاھئے کہ میلاد نہ منانا نہ تو گناہ ہے، نہ اس کے نہ کرنے پر نکیر جائز ہے، نہ ہی معترضین کو عشق رسولﷺ سے بے بہرہ قرار دینا یا ان پر دشمن رسول ﷺ کی پھبتیاں کسنا جائز ہے اور نہ ہی اسکا منانا مدار ایمان و محبت ٹھر انا درست ہے۔

نہ منانے والے اسے نہ منانے کیلئے چند مختلف الانواع دلائل رکھتے ہیں (مثلا یہ کہ انکے نزدیک یہ ثابت نہیں، یا سد الذرائع کے تحت اسے نہ منانا چاہئے یا کوئی اور علمی دلیل یا شبہ وغیرہ)، لہذا انکے نہ منانے کو ایک علمی و فقہی اختلاف سے زیادہ نہیں سمجھنا چاھئے۔

ایک مخصوص دن میلاد منانا زیادہ سے زیادہ ”ایک” مستحسن عمل ہے اور بس، وہ بھی استنباطی نہ کہ براہ راست شارع کی طرف سے مقرر کردہ فعل، لہذا اس پر ایسی شدت اختیار کرنا کہ اسے معیار ایمان و محبت سمجھ لیا جائے یہ حد اعتدال سے باہر نکل جانا ہے۔

کسی مخصوص دن میلاد منانا یا نہ منانا ایسا ہی ہے جیسے کسی مخصوص دن سیرت کانفرنس کروانا یا نہ کروانا کہ شارع نے دونوں کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں کیا، لہذا اسے کسی طور "تعیین شرعی” سمجھ لینا درست نہیں۔

دوسری اہم بات ہے مباح + منکرات

مباح یا مندوب چیز کے ساتھ قبیح امور شامل کردیئے جانے کے بعد اسکے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کیا جانا چاہئے اس میں بوجہ اختلاف ذوق و مزاج اختلاف ہوجانا ایک فطری سی چیز ہے۔

چنانچہ جسکی نظر مندوب پر ہوگی اسکا فیصلہ یہ ہوگا کہ منکرات سے بچا جانا چاہئے مگر نفس مندوب کو ترک نہیں کرنا چاہئے کہ اس سے بہت سا خیر جاتا رہے گا۔

اسکے برخلاف جسکی نظر عوام کے رجحانات پر ہوگی وہ یہ فتوی دے گا کہ خواص تو یقینا ان خرافات سے پرہیز کرلیں گے البتہ عوام کو ان سے روکنا ممکن نہیں لہذا عوام کو ان سے بچانے کیلئے لازم ہے کہ اس معاملے میں ان کے سامنے ممانعت کی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔

یہ دونوں رویے اپنی اپنی جگہ درست ہوتے ہیں اور ان میں اختلاف بھی حقیقی نہیں ہوتا کیونکہ جو مجوزین ہوتے ہیں وہ بھی منکرات کے جواز کے قائل نہیں ہوتے نیز جو عدم جواز کی بات کرتے ہیں نفس مندوب کو وہ بھی ناجائز نہیں کہتے البتہ اسکے لواحقات کی بنا پر اسکی مخالفت کرتے ہیں۔

میلاد کے حوالے سے زیادہ اختلاف اسی نوع کا ہے جو معاشرتی رویوں کی وجہ سے اس قدر بڑھ گیا ہے۔

میلاد کے حوالے سے تیسری اہم رائے

جس شخص کے نزدیک میلاد منانا کسی دلیل صحیح سے ثابت نہیں یا وہ مجوزین کی تعبیر نصوص سے اختلاف کرتا ہے یا وہ سدالذرائع کے تناظر میں اس سے منع کرتا ہے تو اسے حق ہے کہ اسے نہ منائے (کہ مجوزین کے نزدیک یہ ویسے بھی امور واجبہ میں سے نہیں) اور دوسروں کو اپنی رائے سے متفق کرنے کی کوشش بھی کرے۔

مگر اسے چاہئے کہ فریق مخالف کی رائے کو بدعت کے بجائے اجتہادی خطا پر محمول کرے (کہ دوسرا گروہ بھی نصوص ہی سے اس پر استدلال قائم کرتا ہے)۔

فقہی زخیرے میں اس امر کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں کہ ایک فقہی گروہ کے نزدیک ایک شے جائز ہوتی ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک ناجائز، لیکن ناجائز کہنے والے جائز کہنے والوں پر بدعت کے ارتکاب کا الزام نہیں لگادیتے۔

اسی طرح وہ شخص جسکے نزدیک میلاد منانا دلائل شریعہ سے مستنبط ہوتا ہے اسے حق ہے کہ اسے منائے اور دوسروں کو اسکی دعوت دے، مگر اس پر لازم ہے کہ نہ منانے والوں پر عشق رسول ﷺ سے بے بہرہ ہونے کا الزام نہ لگائے۔

حضرت عائشہ (رض) کے نزدیک شب معراج میں رسول اللہ (ص) کیلئے رویت باری تعالی ثابت نہیں البتہ حضرت عباس (رض) سمیت صحابہ کی ایک جماعت کے نزدیک یہ ثابت ہے،

مگر ان صحابہ نے کبھی حضرت عائشہ (رض) پر یہ الزام نہیں لگایا کہ رویت باری تعالی کا انکار کرکے وہ رسول خدا کا درجہ کم کرتی ہیں یا ان سے محبت نہیں کرتیں۔

علمی اختلاف کو علمی دائرے پر ہی محمول کرنا چاہیے۔

اور آخری بات

اگر محمدﷺ واقعی عوام کے بھی رسول ہیں تو عوام کی خوشی منانے کے جو جائز کلچرل طریقے ہیں ان کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ محمدﷺ صرف خشک متکلمین کے رسول ہیں عوام کے نہیں۔

رسول خدا ﷺ یثرب میں جلوہ افروز ہوتے ہیں تو یثرب والوں کے بچے، بوڑھے، جوان الغرض سب آپ کے استقبال کیلئے شہر سے باہر آجاتے ہیں اور یہ پڑھتے جاتے ہیں: ”طلع البدر علینا” کہ دیکھو ”ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوگیا”۔

یہ کیا تھا؟ مدینے کے لوگوں کے استقبال کا ایک کلچرل طریقہ اور بس،

اور نبی علیہ السلام نے اس پر کوئی نکیر نہ کی کہ "یہ تم کیا فضول کام کررہے ہو، اسلام ایسے کاموں کا دین نہیں، بس میری اطاعت کرو”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے