ڈاکٹر مہدی بہاراں پہ خاک ڈال گئے

23 فروری کی دوپہر عین اس گھڑی جب اسلام آباد ہائی کورٹ پاکستان میں اظہار کی آزادی پر تازہ ترین ریاستی حملے پیکا (PECA) کے سیکشن 20 پر عمل درآمد روک رہی تھی، لاہور کی ایک نواحی بستی میں صحافت کی آزادی کے ایک بہادر سپاہی ڈاکٹر مہدی حسن نیند کے عالم میں بغیر آہٹ کیے ابدی نیند کی وادی میں اتر گئے۔ ٹھیک ساٹھ برس پہلے 24 سالہ مہدی حسن ایوب آمریت کے خلاف ایک مضمون لکھنے کی پاداش میں گرفتار ہو کر 1962 میں ساہیوال جیل بھیجے گئے تھے۔ دریا کی ساری عمر روانی میں کٹ گئی۔ قلم حرف حق لکھتا رہا، تقریر تاریخ کے پیچاک بیان کرتی رہی۔ معاش اندھے جبروت کی سنگین دیوار سے مسلسل دست و گریبان رہا۔ احساس پر جہل کے دشنام اور جسم پر عناد کے زخم کھاتے ضعیف سپاہی نے بالآخر وقت کے سیل بے اماں کے سامنے سپر ڈال دی۔ اگر جہالت کے رقبہ تاریک پر علم کی روشنی کرتے، رائیگانی کے امکان کو تخلیق کی سرمدی وارفتگی سے شکست دیتے اور کرہ ارض پر پھیلی انسانی درماندگی کے لئے بلا امتیاز ہمدردی کا درماں کرتے زندگی بسر ہو تو وقت سے ہار مان لینے میں شرمساری نہیں، فرد کی ممکنہ ترین معنویت کا اعلان سنائی دیتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر مہدی حسن ایسے ہی تھے۔ ’ہر اک نوشتہ و فرماں پہ خاک ڈالتے ہیں / غلام، فرق خدایاں پہ خاک ڈالتے ہیں‘۔

مجھے اپنے اساتذہ، بزرگوں اور رہنمائو ں کی شفقت بیان کرتے ہوئے جھجک ہوتی ہے۔ چھتنار پیڑوں کا کام ہی چھائوں دینا ہے۔ اگر ہمیں ان کی مہر بے پایاں سے کچھ حصہ ملا تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں، ہم نہیں ہوتے تو ٹھنڈک کی ان موتی بوندوں سے راہِ وفا شعاراں کے کچھ اور کنکر پتھر نہال ہوئے ہوتے۔ معاف کیجئے گا، میں ڈاکٹر مہدی کے لئے صاحب یا مرحوم کے سابقے استعمال نہیں کر سکوں گا۔ وہ صاحب نہیں تھے، رفیق تھے۔ ڈاکٹر مہدی دس برس کی عمر میں پانی پت سے لاہور آئے تھے اور زادِ سفر میں پانی پت ہی کے الطاف حسین حالی کی روایت لائے تھے، ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا / خاکساری اپنی کام آئی بہت۔ مرحوم لکھنے سے معذور ہوں کہ وہ رخصت کہاں ہوئے؟ اس ملک میں صحافت، تدریس، انسانی حقوق اور انصاف کے لئے جدوجہد کی درخشاں روایت کا بدستور حصہ رہیں گے۔ اس ملک میں صحافت کا سفر کبھی آسان نہیں رہا لیکن گزشتہ کچھ مہینوں میں ہماری صحافت یکے بعد دیگرے ایسے قدآور اساتذہ سے محروم ہوئی ہے کہ شہر اظہار کی فصیل منہدم ہو گئی ہے۔ 12 اپریل 2021 کو آئی اے رحمان رخصت ہو گئے۔ 29 نومبر 2021 کو محمد ضیا الدین مفارقت دے گئے اور اب ڈاکٹر مہدی حسن۔ اس ملک میں کتاب مزاحمت کی تدوین جاری رہے گی لیکن علم، پیشہ ورانہ مہارت اور ذہنی دیانت کے ان استعاروں کا متبادل ملنا مشکل ہو گا۔

درویش کی رائے میں قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے اور آخری حکمران تھے جو صحافت کی آزادی میں حقیقی ایقان رکھتے تھے۔ قائد نے سریندر ناتھ بینرجی، گوپال گوکھلے اور تلک جیسے رہنماؤں کی رفاقت میں جدوجہدِ آزادی کی بنیاد رکھی تھی، وہ قومی آزادی، جمہوریت اور آزاد صحافت کا باہم تعلق سمجھتے تھے۔ ہم نے قائد کے تصورات سے جو سلوک کیا اس کا ایک اشارہ یہ ہے کہ مارچ 1948 میں قائد اعظم نے جس مسودہ قانون پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا، اکتوبر 1948 میں اسے پبلک سیفٹی ایکٹ کے عنوان سے مسلط کر دیا گیا۔ تب بھی معاملہ بغیر مقدمہ چلائے نظربند کرنے کا تھا، آج بھی بغیر ضمانت کے چھ ماہ قید رکھنے کے عزائم ہیں۔ ڈاکٹر مہدی کی زندگی ایک روشن خیال، جمہوری، ترقی پسند اور ترقی یافتہ پاکستان کے خواب میں گزری۔ اس خواب کو کسی سازش، کالے قانون اور انتظامی ضابطے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر مہدی نے نامہ نگار کی حیثیت سے صحافت شروع کی۔ لاہور پہنچ کر ایک نیوز ایجنسی کی بنیاد رکھی۔ 1966ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں تدریسی فرائض سنبھالے۔ صحافت کے استاد کی حیثیت سے ڈاکٹر مہدی کے اصل جوہر کھلے۔ انہوں نے پچاس برس تک صحافیوں کی تین نسلوں کی تربیت کی۔ اپنے ترقی پسند خیالات کی بنا پر رفقائے کار کی چشم حسود کا نشانہ رہے۔ برخود غلط طلبا کی کوتاہ نگاہی کا رنج بھی اٹھایا لیکن ان سے محبت کرنے والے طالب علموں کا ایک انبوہ تھا جو انہیں حصار احترام میں لیے رکھتا تھا۔ ڈاکٹر مہدی کے نظریاتی مخالف بھی ان کی فکری دیانت، ذہنی تہذیب اور اصول پسندی کے قائل تھے۔ ایسے آبلہ پا شخص کو اس سے کیا فرق پڑ سکتا تھا کہ برسوں ان کی ڈاکٹریٹ کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اٹھارہ برس تک لیکچرر کے گریڈ میں رکھا گیا۔ ڈاکٹر مہدی کی تصانیف پڑھ کر امتحان پاس کرنے والے ان کے ممتحن قرار پاتے تھے۔ پاکستان کے تنخواہیہ طبقے میں ایسی کم ظرفی کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

ضیا آمریت کی مخالفت میں ملازمت سے برطرف کیے گئے۔ عدالت نے ناصحانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ استاد ہوتے ہوئے سیاست میں حصہ کیوں لیتے ہیں؟ ڈاکٹر مہدی نے اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے مگر گرج دار لہجے میں جواب دیا، ’سیاست کی تعلیم دینا بطور استاد میرے منصب کا حصہ ہے‘۔ سیاست کی تعلیم وہ طالب علموں ہی کو نہیں، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو بھی اسی دوٹوک انداز میں دیتے تھے۔ جب تک پاکستان کی زمین پر ایسے سوجھوان کردار پیدا ہوتے رہیں گے، اس دھرتی کے افتادگانِ خاک کے لیے امید باقی رہے گی۔ تاہم اب زمینی حقیقت بھی دیکھ لیجیے، چالیس برس سے اس ملک کی درس گاہوں میں طالب علموں سے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف نامہ لیا جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقے کو سیاست سے بیگانگی کا حکم دیا جائے گا تو پھر کیا تعجب کہ شہری عملی زندگی میں داخل ہو کر اجتماعی بہتری کی بجائے ذاتی مفاد کی دوڑ میں شریک ہو گا نیز پارلیمنٹ کے فلور پر سیاسی استدلال کی بجائے گالی دشنام کی گونج سنائی دے گی۔

اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ

فصل بوئی تھی چاندنی کی

اب اس میں اگنے لگے اندھیرے

تو کیسا جی میں ملال رکھنا

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے