زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے

حکومت میں کسی ذمہ دار عہدے دار نے ماحولیاتی تبدیلی اور موسم گرما کی غیر معمولی شدت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس برس ہم بہار کی رت سے گزرے بغیر ہی موسم گرما میں داخل ہو گئے ہیں۔ بات تو موسمیاتی تناظر میں کہی گئی تھی لیکن ہماری حالیہ سیاست کے پیچ و خم پر بھی پوری طرح منطبق ہوتی ہے۔ 1978 کے اکتوبر میں فیض صاحب نے لکھا تھا، ’’اب کہ تو خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے‘‘ امید کی کسی زود گزر کیفیت میں فیض صاحب نے تو یہ بھی لکھا تھا، ’’جاتے جاتے یونہی دم بھر کو خزاں ٹھہری ہے۔ ‘‘ ایک اور زمانے میں کہی گئی باتیں کس جگ میں آ کے پوری ہو رہی ہیں۔ قوموں پر اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں۔ ہم مگر مقدرات کی تقسیم میں وہ غم بھی دوش پر اٹھا لیتے ہیں جن پر ہمارا نام ہی کندہ نہیں تھا۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے قافلے کی گھنٹیوں میں ملال کے سر رچ گئے ہیں۔ ’’اک کڑا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں‘‘۔ اس سے پہلے کہ مسافر وطن کی خبر لی جائے، آئیے دور دیس کے دو قصوں کی باز خوانی کرتے ہیں۔ شاید ہماری تیرہ شبی کے جنگلوں میں کسی سبک رو چشمے کی دھارا کا سراغ ملے، کسی راستے کا نشاں ملے۔

امریکا میں 1850 کی دہائی غلامی کے سوال سے عبارت تھی۔ Harriet Stowe کا ناول Uncle Tom ’s Cabin 1852میں شائع ہوا تھا۔ ملک کے طول و عرض میں اخباری مضامین اور مباحثوں کی ہوا چل رہی تھی۔ 1860 کا صدارتی انتخاب آن پہنچا۔ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے نامزدگی کے لیے چار امیدوار تھے۔ سالمن چیز، ولیم سیورڈ، ایڈورڈ بیٹس اور ابراہم لنکن۔ چاروں قدآور سیاست دان اور غلامی کے سخت مخالف تھے لیکن چاروں کی رائے تھی کہ وہ جنوبی ریاستوں کی ممکنہ علیحدگی اور ناگزیر خانہ جنگی میں امریکی یونین کا بہتر دفاع کر سکتے ہیں۔ ایک اعصاب شکن مہم کے بعد ابراہم لنکن صدارت کا امیدوار قرار پایا۔ انتخاب جیتنے کے بعد لنکن نے اپنے تینوں حریفوں کو کابینہ کا حصہ بنا لیا۔ یہ ایک حیران کن سیاسی قدم تھا کہ صدارتی کابینہ کے ارکان قریب قریب ہر مسئلے پر سخت اختلاف رائے رکھتے تھے۔ لنکن نے نااہل جرنیلوں، خانہ جنگی میں ناکامیوں کے طویل سلسلے اور پیچیدہ سیاسی جوڑ توڑ میں اپنے حریفوں کی متنوع صلاحیتوں سے کیسے فائدہ اٹھایا۔ یہ کہانی امریکی مصنفہ ڈورس گڈون (Doris Goodwin) نے 2005 میں شائع ہونے والی کتاب A Team of Rivals میں لکھی ہے۔ سیاست دان سے مدبر تک کے سفر کا ایک بنیادی نشان یہ ہے کہ ذاتی عناد کے جذبے کو وسیع تر قومی مفاد کی کٹھالی میں کیسے ڈھالا جائے۔

امریکی خانہ جنگی کی طرح برطانوی تاریخ میں بھی وجودی آزمائش کے دو امتحان گزرے ہیں۔ 1588میں جب ہسپانوی بیڑا برطانیہ کے ساحلوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ساڑھے تین سو برس بعد مئی 1940 میں جب نازی جرمنی کا لشکر جرار ایک کے بعد ایک یورپی ملک فتح کرتے ہوئے رود بار انگلستان کے جنوبی ساحلوں تک آ پہنچا تھا۔ 10 مئی 1940کو ونسٹن چرچل نے وزارت عظمیٰ سنبھال کر پانچ رکنی جنگی کابینہ تشکیل دی تو اپنے سیاسی حریف لیبر پارٹی کے کلیمنٹ ایٹلی کو نائب وزیر اعظم مقرر کیا۔ لیبر پارٹی ہی سے آرتھر گرین ووڈ کو کابینہ کا رکن بنایا گیا۔ چھ سالہ طویل جنگ میں کابینہ کا حجم تبدیل ہوتا رہا لیکن لیبر اور کنزرویٹو پارٹی کا اتحاد مئی 1945 میں حتمی فتح تک قائم رہا۔ ونسٹن چرچل اور اس کے حریف سیاسی جوڑ توڑ سے ماورا نہیں تھے لیکن آزمائش کی گھڑی میں برطانیہ کا مفاد جماعتی وابستگی اور شخصی منصب سے بالاتر ٹھہرا۔

آج پاکستان پون صدی پر محیط اپنی تاریخ میں دوسری مرتبہ شدید ترین بحران سے دوچار ہے۔ دسمبر 1971 کی سرد راتوں کے بعد ہماری مملکت کو کبھی ایسی گہری اور تہہ در تہہ الجھی ہوئی صورت حال سے واسطہ نہیں پڑا۔ نصف صدی قبل ہم امتحان پر پورے نہیں اترے تھے۔ آئینی سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا۔ جنگ ہار گئے تھے اور ملک دولخت ہو گیا تھا۔ آج جغرافیائی سالمیت کو کسی سنجیدہ خطرے کا سامنا نہیں۔ موجودہ بحران کی نوعیت داخلی سطح پر آئینی، سیاسی اور معاشی الجھائو کی ہے۔ ماضی کی طرح حالیہ کشمکش میں بھی متعدد دیدہ اور نادیدہ حریف موجود ہیں۔ قوم بری طرح منقسم ہے اور اس تقسیم کی لکیریں واضح نہیں ہیں۔ البتہ یہ معلوم ہے کہ ملکی خزانے میں زرمبادلہ جام کے لب سے تہ جام اتر آیا ہے۔ وفاق کی چاروں اکائیوں میں حکومتیں ڈانواں ڈول ہیں اور وفاق میں اختیار کی کشتی بری طرح ہچکولے کھا رہی ہے۔ سیاست کے سوال عدالتوں میں زار و زبوں ہیں اور جمہوریت کا نحیف و لرزاں ہیولہ دستور کا نسخہ بغل میں دبائے دہلیز پہ بیٹھا ہے۔ سیاسی کشمکش کا مدوجزر فہم و ادراک کے دمدمے روند رہا ہے۔ صدیق سالک کے لفظوں میں ’مد تحریک انصاف کا اور جزر مخلوط حکومت کا‘۔ ریاست اور حکومت میں ارتباط پر گزشتہ بدعہدیوں کی پرچھائیاں لرز رہی ہیں۔ معیشت میں اونچے درجے کا سیلاب کمزور پشتوں سے ٹکرا رہا ہے۔

سفارتی محاذ پر ممکنہ کمک آئی ایم ایف کی اشارہ ابرو سے مشروط ہے۔ کیا ہماری صفوں میں کوئی الزبتھ اول ہے جو ہمارے ساحلوں پر روشنی کے اشاروں سے طوفانوں کا رخ پھیر سکے؟ کیا ہمارے ایوانوں میں کوئی ونسٹن چرچل ہے جو متفرق سیاسی دھاروں کو زندگی بخش دریا کی روانی بخش سکے؟ کیا ہماری سیاست میں کوئی ابراہم لنکن ہے جو تاریخ کے چبھتے ہوئے سوالات کا تدبر کے ٹھہرائو سے مقابلہ کر سکے؟ کیا اختیار کے دیدہ و نادیدہ مراکز میں کوئی ایسا عالی دماغ موجود ہے جو منصب کی روزمرہ فروعات سے اوپر اٹھ کر معاشی اور سیاسی بحران کے جزیرہ نما منطقوں میں ایک ناقابلِ شکست چٹان کی یکجائی پیدا کر سکے۔ ہم اس برس بہار کی رت سے گزرے بغیر تپتے سورج تلے آن کھڑے ہوئے ہیں اور ہمیں حبس کے موسم میں بادل کا ٹکڑا دکھائی نہیں دیتا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے