ایک صاحبِ اسلوب لکھاری!

کنہیا لال کپور جو بہت لمبے تڑنگے تھے، گورنمنٹ کالج میں لیکچرر شپ کے لیے انٹرویو دینے گئے، انٹرویو لینے والے کالج کے پرنسپل پطرس بخاری تھے، انہوں نے ایک نظر کنہیا لال کے قد پر ڈالی اور پھر پوچھا، ’’آپ کا قد واقعی اتنا ہےیا آج انٹرویو کے لیے خصوصی اہتمام کرکے آئے ہیں؟ ‘‘ مرزا یٰسین بیگ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے وہ بیٹھے ہوئے تو کبھی لگتے ہی نہیں اور جب کبھی بیٹھے ہوں تو بھی کھڑے ہی لگتے ہیں۔ ایک دفعہ میرے پاس آئے تو جاتی دفعہ کہنے لگے، سر آپ کے ساتھ تصویر بنوانی ہے۔ میں نے کہا ’’اوکے‘‘اور ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا مگر میں نے محسوس کیا کہ تصویر ’’بے وزن‘‘ ہو رہی ہے جس پر وہ کہنے لگے تصویر بے وزن ہو رہی ہے یا نہیں مگر آپ میرے لیے کھڑے ہوں، مجھے یہ بے ادبی لگتی ہے آپ اپنی کرسی پر بیٹھے رہیں، میں آپ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے کھڑا ہو جاتا ہوں‘‘۔ میں نے عرض کی، نہیں، مرزا صاحب ایسا نہ کریں اور اس کے ساتھ ہی میں نے انہیں زبردستی اپنی کرسی پر بٹھا دیا اور خود ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا تب کہیں جاکر تصویر کا وزن ٹھیک ہوا ۔

مرزا صاحب جب کبھی میرے پاس آتے ہیں کسی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ لے کر آتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ میں ان دنوں تقریبات میں شرکت سے پرہیز کرتا ہوں ساری عمر یہی کام کیا ہے اب ریسٹ بھی ملنا چاہئے چنانچہ میں مختلف بہانے بناتا ہوں مگر وہ میرا کوئی بہانہ نہیں چلنے دیتے۔ گزشتہ ہفتے تشریف لائے اور ظاہر ہے ایک تقریب میں شرکت کے حوالے ہی سے آئے تھے مگر اس دفعہ میں نے ان سے کوئی بہانہ بیان نہیں کیا اور اسی وقت ’’قبول ہے ‘‘ کہہ دیا۔ یہ سجاد جہانیاں کی کتاب ’’ٹاہلی والا لیٹر بکس‘‘ کی تقریب رونمائی تھی اور وہ اپنے ساتھ یہ کتاب بھی لے کر آئے تھے۔ میں سجاد جہانیاں کو پوری زندگی میں شاید دو دفعہ سے زیادہ نہیں ملا مگر بندے کا پتہ تو ایک دفعہ ملنے ہی سے پتہ چل جاتا ہے اور میں نے محسوس کر لیا کہ یہ بندہ محبت اور خلوص کا پیکر ہے اور جب ان کی کتاب پڑھی جسے کالموں کی کتاب قرار دیا گیا ہے تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یقیناً یہ تحریریں کسی اخبار میں بطور کالم ہی شائع ہوئی ہوں گی مگر یہ کالم نہیں خوبصورت ادبی تحریریں ہیں۔ کہیں کہیں ان پر افسانے کا گمان بھی گزرتا ہے اور کہیں نثری شاعری کا بھی۔ کتاب کی پہلی تحریر ’’ماں کا گھر‘‘ ہے۔ یہ موضوع کسی کمزورلکھاری کے ہاتھ لگتا تو وہ ماں کی محبت کو بھی اپنے جیسا بنا دیتا مگر منصف نے اپنے جادو گر قلم سے ماں کی محبت کو کئی رنگوں میں بھر دیا ہے اس میں محبت اوپر کی سطح سے نہیں زیریں سطح سے پھوٹتی نظر آتی ہے دلوں کو موم کی طرح پگھلاتا ہے اورلکھاری اس سے قوت بھی حاصل کرتا ہے۔

ایک اداسی ہے جو اس کی ہر سطر میں پھیلی ہوئی ہے مگر یہ حوصلہ دینے والی اداسی ہے۔ ایک دوسرے مضمون میںسجاد اپنی ننھی منی بیٹیوں کے معصوم سے خط ہمیں پڑھاتا ہے جو وہ اپنے ماموں کی طرف کچھ دن رہنے کے لیے جاتے وقت اپنے پاپا کے نام چھوڑ جاتی ہیں۔آپ بیٹیوں سے محبت کرنے کے حوالے سے جتنی مرضی کتابیں لکھ لیں مگر یہ ایک تحریر ان پر بھاری ہے۔ سجاد اپنی ننھی پریوںکےیہ خط پڑھتے ہوئے خود ہی کسی اور جہان میں نظر آتا ہے اور اس کا قاری بھی اس کا ہم سفر ہو جاتا ہے۔ مجھے اس کتاب کی سب سے خوبصورت تحریر’’ایک روپیہ ‘‘ لگی ہے۔ نائیلٹی سے بھراہوا اسکول کا زمانہ، چنے بیچنے والا جیدا، تین دہائیوں کے بعد بھی وہ چنے بیچتا ہے مگر کیا خوبصورت انداز ہےان تین دہائیوں کو چند سطروں میں سمیٹنے کا۔آپ بھی ملاحظہ فرمائیں کیا ہوا جو اسے موٹے شیشوں والی عینک لگ گئی ہے اور ہاتھوں کی رفتار ذرا سست ہو گئی ہے، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پچھلے دس بارہ سال سے ملتان کے تاریخی اور قدیمی ادارے مسلم ہائی اسکول کی انتظامیہ نے اس کا یہ ٹھیلہ اسکول بدر کر دیا ہے مگر محمد سلیم عرف جیدا، مسلم اسکول کے پھاٹک سے باہر آکر بھی ٹھیلہ لگاتا ہے اس کے چنوں اور کچوریوں کا اور چاول چھولوں کا آج بھی وہی ذائقہ ہے۔ فرق پڑا ہے تو یہ کہ اس کے ٹھیلے تلے پڑا روپیہ اب ٹھوکروں کی زد میں ہے اور بے توقیر۔

آپ اگرمیرے ساتھ ذرا ماضی کی سیر دیکھنے کو راضی ہوں تو تحریر کے یہ انٹ شنٹ ابتدائی جملے آپ کو سمجھ آ جائیں گے اس کے بعد سجاد ماضی میں گم ہو جاتا ہے اور میں اس مختصر سی تحریر میں آپ کو اس کی جھلکیاں نہیں دکھا سکتا۔ البتہ مجھے اپنے پرائمری اسکول کا بلا چنوں والا یاد آ گیا ہے۔ میں گزشتہ برس وزیر آباد گیا تو اپنے اسکول کی زیارت کو بھی جا نکلا وہاں ایک استاد سے ملاقات ہوئی جو میرے ایک استاد کے پوتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا بلا زندہ ہے۔ کہنے لگے جی زندہ ہے، آپ نے اس سے ملنا ہے؟ میں نے کہا ضرور انہوں نے ایک طالب علم سے کہا جائو بلے کو بلا کر لائو اور پھر بلا میرے سامنے کھڑا تھا لمبی سفید داڑھی،آنکھیں چندھیائی ہوئی، ماسٹر جی نے میری طرف اشارہ کرکے اس سے کہا بلے بتائو یہ کون ہے؟ بلے نے کچھ دیر آنکھیں جھپکائیں اور پھر کہا ’’یہ مولانا قاسمی کا بیٹا ہے ‘‘۔ اندازہ لگائیں کہ گزشتہ ستر برسوں میں لاکھوں بچے اس نے دیکھے ہوں گے مگر ستر برس بعد بھی وہ مجھے پہچان گیا!

سجاد صاحب کو چاہئے کہ وہ بھی کبھی محمد سلیم عرف جیدے کو آزمائیں اور پوچھیں کہ وہ کون ہے اگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے تو چلیں مجھے آزما کر دیکھ لیں مجھے کوئی تحریر دکھائیں جو ان کی ہو مگر اس پر ان کا نام نہ لکھا ہو، میں چند لمحے توقف کے بعد بتا دونگا ’’یہ تحریر سجاد جہانیاں کی ہے ‘‘۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے