نئے چیئرمین کی تقرری یا نیب کا مکمل خاتمہ

ہر حوالے سے اور ہر پیمانے پر ثابت ہوا کہ قومی احتساب بیورو ،اصلاً قومی انتقام بیورو ہے ۔ اس ادارے سے ہر گھنائونا کام لیا گیا لیکن اس ادارے نے نہیں کیا تو احتساب نہیں کیا۔

اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں فیصلوں میں گواہی مل جاتی ہے کہ یہ احتساب کا نہیں بلکہ پولیٹکل انجینئرنگ کا ادارہ ہے ۔

اس کے زیادہ تر اہلکار اور بالخصوص اس کے سابق چیئرمین جاوید اقبال خود سب سے زیادہ لائق احتساب ہیں۔ وہ اور ان کے ترجمان خود بلیک میل ہوتے رہے اور دوسروں کو بلیک میل کرتے رہے ۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھلونا بنے رہے اور پھر ایک خاتون سے چیئرمین نیب کے خلاف مواد ہاتھ میں لینے کے بعد عمران خان انہیں بلیک میل اور ڈکٹیٹ کرتے رہے ۔

سیف الرحمان سربراہ تھے،جنرل امجد تھے، جنرل خالد مقبول تھے، ایڈمرل فصیح تھے یا پھر قمرالزمان ، کسی دور میں اس ادارے نے احتساب کا کام نہیں کیا لیکن عمران خان اور ان کو اقتدار میں لانے والوں نے جس بری طرح اس ادارے کو استعمال کیا، اس کی وجہ سے تو الٹا اس ادارے نے سیاست کو رسوا اور معیشت کو تباہ کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔

پچھلے چار سال میں نیب کی وجہ سے نہ جانے کتنا سرمایہ اس ملک سے نکل گیا۔نہ جانے کتنے سرمایہ کار پاکستان چھوڑ گئے ۔ نہ جانے کتنے افسروں نے عملا ًکام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ مختصر یہ کہ اس ملک کی موجودہ اقتصادی تباہی اور سرکاری افسران کے کام چور بن جانے میں بنیادی کردار نیب نے ادا کیا۔

فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا، اس کے بعد کوئی افسر معمولی رسک کی حامل فائل کو ہاتھ لگانے کا رسک نہیں لے رہا۔ درحقیقت جنرل مشرف کے دور میں بنایا گیا نیب کا قانون ہی انصاف کے اصولوں کے منافی تھا۔ ہمارا دین اور مغربی دنیا کے قوانین، دونوں کی رو سے جرم ثابت کرنا ، الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن نیب قانون کی رو سے نیب کسی پر الزام لگادیتا ہے اور پھر اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنا اس کی ذمہ داری ہے ۔

ہمارے دین اسلام اور موجودہ مہذب دنیا کے قوانین کی رو سے ہر شخص کو اس وقت تک معصوم سمجھاجائے گا جب تک وہ عدالت سے مجرم ثابت نہ ہو لیکن نیب قانون کی رو سے ہر ناپسندیدہ شخص کو مجرم قرار دیاجاتا ہے ۔ یہ سراسر ظالمانہ قانون ہے جس کی وجہ سے نیب اور اس کے چیئرمین سب سے بڑا مافیا بن گئے تھے۔ ابھی تو صرف طیبہ گل بولی ہیں لیکن نہ جانے کتنے سو عزت مند لوگوں کی عزتیں نیب کے ہاتھوں تار تار ہوئیں۔

اگر کبھی مریم نواز شریف نے وہ بیان کیا جو ان کے ساتھ نیب کی تحویل میں ہوا تو طوفان کھڑا ہوجائےگا۔ نیب صرف عزتوں کے درپے نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ سے بریگیڈئیر (ر) اسد منیر جیسے لوگ بھی خودکشیوں پر مجبور ہوئے ۔یوں میرے نزدیک اس کے قانون میں ترمیم کرنے اور نئے چیئرمین کے انتخاب پر وقت ضائع کرنے کی بجائے اس ادارے کا وجود ہی ختم کردینا چاہئے اور اس کے سابق اور موجودہ ذمہ داروں کے اثاثوں کی ایف آئی اے جیسے اداروں کے ذریعے تحقیق اور عدالتوں کے ذریعے محاسبہ بھی ہونا چاہئے ۔

کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن نیب کا مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اس کی ایک آنکھ حد سے زیادہ دیکھنے والی اور دوسری مکمل بند ہوا کرتی ۔ پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ(ق) اور پیٹریاٹ سے متعلق اس کی آنکھ مکمل بند تھی جبکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے متعلق حد سے زیادہ کھلی تھی ۔ سیف الرحمان کے دور میں مسلم لیگ(ن) کو دیکھنے والی آنکھ مکمل بند اور پیپلز پارٹی سے متعلق حد سے زیادہ کھلی تھی۔

زرداری صاحب کے دور میں اس کی دونوں آنکھیں بند تھیں جبکہ عمران خان کے دور میں اس کی ایک آنکھ حد سے زیادہ کھل گئی ۔ نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے ساتھ ساتھ ناپسندیدہ سرکاری افسران اور غیرسرکاری کاروباری لوگوں تک کو بھی دیکھنے لگی لیکن عمران خان اور اس کے اتحادیوں سے متعلق اس کی آنکھ مکمل بند رہی ۔ اسے صاف پانی اسکیم تو نظر آئی لیکن بی آر ٹی ، بلین ٹری سونامی، ہیلی کاپٹر اور پارٹی فنڈنگ جیسے معاملات نظر نہیں آئے۔

مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ عمران خان، اسپیکر اور کئی اہم وزرا کے خلاف کیسز تیار ہیں اور ریفرنس کے لئے نیب صرف اشارے کا منتظر ہے ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کے بہت سارے لوگ نیب کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی نیب کا مزہ چکھوا دیں لیکن غلطی کا جواب غلطی سے اور ظلم کا جواب ظلم سے اہل ظرف کا شیوہ نہیں۔ کسی نے اگر کرپشن کی ہے تو اس ملک میں ایف آئی اے، ایف بی آر ، اینٹی کرپشن اور اسی طرح کے کئی دیگر ادارے موجود ہیں۔ ان سے تحقیقات کروا کے عدالتوں سے رجوع کیا جائے ۔

جب ہم جیسے لوگ نیب کے مکمل خاتمے کا ذکر کرتے ہیں تو کچھ لوگ اس سے یہ معنی نکالتے ہیں کہ جیسے ہم چاہتے ہیں کہ کرپشن کو روکنے والا کوئی ادارہ نہ ہو حالانکہ مجھ جیسے لوگ نہ تو نیب کے دائرے میں آتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ کرپشن روکنے کا کوئی ادارہ نہ ہو۔ نیب کا ہر کیس بھی اوپر جاکر اعلیٰ عدلیہ میں ہی جاتاہے اور حتمی فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہوتا ہے ۔

نیب اگر کرپشن روکنے کا ادارہ ہوتا تواس کے بن جانے کے بعد کرپشن کم ہونی چاہئے تھی لیکن عمران خان کے دور میں عالمی اداروں نے بتایا کہ کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے ۔ نیب کے بنائے ہوئے نناوے فی صد کیسز کو اعلیٰ عدلیہ نے اٹھا کر پھینک دیا۔

اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس ادارے کو ختم کرکے عدالتوں اور ججز کی تعداد بڑھائی جائے ۔ ایف آئی اے اور ایف بی آر جیسے اداروں کو مضبوط اور آزاد بنایا جائے ۔ پراسیکیوشن کے معاملات پر توجہ دی جائے ۔

وکلا کی بھاری فیسوں اور کیسز کے فیصلوں میں تاخیر ی حربوں کے مسئلے کا حل نکالا جائے ۔ لمبے لمبے اسٹے آرڈرز کا مسئلہ حل کیا جائے اور عدالتی اصلاحات پر توجہ دی جائے ۔اب نیب قانون میں تبدیلی کی گئی تو اس پر عمران خان کو اعتراض ہے ۔ زرداری صاحب جو نام تجویز کریں گے، وہ کتنا معتبر کیوں نہ ہو لیکن اس کے غیرمعتبرہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ ان کا نام زرداری صاحب تجویز کررہے ہیں ۔

نون لیگ جو نام تجویز کرے گی ، اس پر زرداری صاحب اور عمران خان صاحب کو اعتراض ہوگا۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ایسا بندہ چیئرمین نیب بن جائے جو گزشتہ چیئرمین کی طرح پھر کسی اور طاقت کے ہاتھوں کھلونا بن جائے ۔اس لئے اس مصیبت سے مکمل طور پر جان چھڑانا ہی ملکی مفاد میں دکھائی دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے