کچھ باتیں ظہیر کاشمیری کی

دسمبر 1994 کا دوسرا ہفتہ ختم ہو رہا تھا۔ موسم سرما کی پھیکی دھوپ میں لاہور کی لٹن روڈ کی سمت سے ایک جنازہ میانی صاحب کے قبرستان کی طرف آ رہا تھا۔ غم نصیبوں میں وہ نیاز مند بھی بوجھل قدموں سے شریک تھا جس نے جانے والے کی بزم طرب سے حیات کا سبق لیا تھا۔ ظہیر کاشمیری رخصت ہو رہے تھے۔ وہی ظہیر کاشمیری جس نے لکھا تھا، ’موسم بدلا، رت گدرائی، اہل جنوں بے باک ہوئے‘۔ شاعر لوگ تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اہل جنوں کی بے باکی کی خوش گمانیاں بیان کرتے ہیں۔ کیسا جنون، کہاں کی بے باکی؟ شہر کا ہجوم تو پھل دار زمینوں کو زنگ آلود بنگلوں میں بدلنے والوں کی کاروباری ذہنیت سے ترتیب پاتا ہے۔ ظہیر کاشمیری سے اپنی راہ و رسم ان برسوں میں ہوئی جب ایس جی ایم بدر الدین کی گرفتاری کے بعد روز نامہ مساوات کی ادارت کا بھاری پتھر امرتسر کے اس جواں عزم بزرگ نے چوم کر اپنے گلے میں پہن لیا تھا۔ امرتسر آشفتہ سروں کی زمین ہے۔

جیلیانوالا باغ کی روش روش پہ بغاوت کی کہانی لکھی ہے۔ منٹو کا افسانہ ’1919 کی ایک بات‘ تو ہم سب نے پڑھ رکھا ہے۔ سیف الدین کچلو سے کون واقف نہیں۔ ہمارے نصاب میں کچلو صاحب کا نام نہیں ملتا اور یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ کچلو صاحب کے امرتسر کی اگلی نسل میں ظہیر کاشمیری نے ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک میں ہتھکڑی کا زیور پہنا تھا۔ لفظ سے بندوق کا مقابلہ کرنے والے لہو کی بوند ظہیر کاشمیری کی رگوں میں ’بازی میان قاتل و خنجر‘ کی حکایت تھی۔ آپ کے نیاز مند نے لاہور کے ٹی ہاؤس میں زیادہ وقت نہیں گزارا۔ افتاد طبع کی خرابی تھی۔ صحافیوں نے ادیب کہہ کے اپنی صف سے خارج کیا اور ادیبوں نے صحافی ہونے کی تہمت دھری۔ داغ نے بھی تو کہا تھا ’یا جگر میں یا رہے گا دل میں تیر، یہ ہی دو گوشے تو ہیں آرام کے‘۔

80ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی ایک شام البتہ ٹی ہاؤس میں بابا ظہیر کی شفقت سے منور ہوگئی۔ وہ دیارِ مغرب میں ادبی تنقید کے زاویے سمجھاتے رہے۔ نیازمند بزاخفش کی طرح سر ہلاتا رہا۔ چائے کی پیالیاں خالی ہو گئیں۔ راکھ دان سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر گیا۔ بابا ظہیر قدرتی طور پر بلند آہنگ تھے۔ معمول کی گفتگو میں بھی خطابت کا شکوہ اور استاد کا دبنگ لہجہ جھلکتا تھا۔ اگلے روز ایک صاحبزادے نے درویش کے طرز تکلم پر طنز کرتے ہوئے فرمایا کہ جہاں کوئی کام کی بات کہنا ہوتی ہے، آواز مزید دھیمی ہو جاتی ہے۔ نکتہ چیں کو خبر نہیں کہ جہاں اپنی رائے دی جاتی ہے وہاں غلطی کا امکان آ لیتا ہے اور یہ اندیشہ لہجے کے عجز میں جھلک دیتا ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ اپنے معمول سے گریز کرتے ہوئے دو کالم تلے اوپر روزمرہ کے معاملات پر لکھ دیے۔ اخبار میں کالم کے لئے روزِ مقررہ پر کاغذ سیاہ کرنے میں کوتاہی ہو تو سید حیدر تقی محضر میں نام قلم زد کر دیتے ہیں۔ اتفاق سے 17 جولائی کو دن کے پہلے پہر میں جو کالم لکھا، وہ رات گئے ضمنی انتخاب کے غیر متوقع نتائج میں دب گیا۔ اگلا کالم 22 جولائی کو لکھنا تھا۔ اس روز پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے ایسا رن پڑا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ شام چھ بجے ٹیلی ویژن کے دفتر سے براہ راست تبصرہ کر کے کوئی تین کلومیٹر دور بزم یاراں میں پہنچا تو جناب آصف زرداری کی سبک قدمی اور محترم شجاعت حسین کے ایک مبینہ رقعے کی خبر ملی۔ سب تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نظیر اکبر آبادی حیات ہوتے تو انہوں نے تجزیے کی بے ثباتی اور عدل کی کہہ مکرنیوں پر ایک نظم ارزاں کی ہوتی۔ عنوان بھلے علامہ اقبال سے مستعار لیتے کہ ’الٰہ آباد کا لنگڑا لاہور تک پہنچ گیا‘۔

پاکستان میں عدالت کا احترام قانون کی کتاب میں بھی لکھا ہے اور ہم ایسے کم ہمت تو یوں بھی ’ بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے‘ کا آموختہ دہراتے رہتے ہیں۔ یہ کہنے کو کہاں سے جگر لائیں کہ عدالت کی توہین انگریز بہادر کی کتاب قانون سے استنباط نہیں کی جاتی۔ عدالت کی توہین تو انصاف کا خون کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عدل کے ایوانوں پر ترازو کی شبیہ کندہ ہے مگر ہم ایسے نصیب کے کھوٹے ہیں کہ مئی 1955 سے جولائی 2022 تک جب عدل کی زنجیر ہلائی، ہمارا تانگہ کچہری سے خالی واپس آیا۔ ہماری آہ نارسا رہی۔ ہمارے نالے عدل کی غلام گردشوں میں یوں اوجھل ہو ئے جیسے بلوچستان کے ہم وطن مٹی کی محبت کے غبار ناقہ میں نافہ آہو کی صورت گم ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اہل حکم سے استدعا کا وعدہ کیا تھا۔ اب تو محترم عمران خان نے بھی اقرار کیا ہے کہ صاحبان اختیار فرماتے ہیں کہ وطن دشمن عناصر سے نمٹنے کے لئے نظام عدل موثر نہیں ہے۔ شہادت موجود نہیں ہوتی اور ملزم بری ہو جاتے ہیں۔ علاج اس کا یہی ہے کہ شہید جسم سلامت اٹھائے جائیں اور بغیر شنوائی کے ریاست کے احتسابی شکنجے میں گھان کر دیے جائیں۔ گویا دستور کی شق 10 (الف) میں شفاف سماعت کی ضمانت ایسی ہی بے بضاعت ہے جیسے دستور کی شق چھ۔ جس دھجی گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں/یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے۔ ہمارے گریباں کی دھجی ہی سمجھئے۔ لشکر کا علم تو قوم کے احترام سے سربلند ہوتا ہے۔ قانون کی پاسداری سے ہوائوں کو مہمیز کرتا ہے۔ دستور کے تسلسل سے وفاق کے بادباں سیتا ہے۔ بحران کے منجدھار میں یکجہتی کا لنگر اتارتا ہے۔ یہ عجیب رسم چلی ہے کہ پارلیمنٹ پر جرگہ بیٹھا ہے اور باخبر صحافی اطلاع دیتے ہیں کہ ’سافٹ مداخلت‘ کی چھڑی سے نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ سافٹ مداخلت غیر جانب داری کا کون سا درجہ ہے اور سوال تو یہ بھی ہے کہ مہربان آمریت قوم کے ارتقا کا کون سا زینہ ہے۔ ہمیں صحافی کی خبر پہ بدگمانی کی جسارت نہیں، ہاں مگر اک غبی سے ڈرتے ہیں۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے