سوشل میڈیا پر توہین مذہب،توہین رسالت،توہین قرآن ، توہین صحابہ اور توہین اہل بیت پرمبنی مواد پھیلانے کے الزام میں مدرسے کا مفتی گرفتار

[pullquote]لاہور : ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور کی کاروائی۔۔۔ سوشل میڈیا پر بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ملزم مفتی عبدالشکور گرفتار۔۔۔[/pullquote]

تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ملزم مفتی عبدالشکور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر توہین مذہب،توہین رسالت،توہین قرآن و توہین شعائر اسلام پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث تھا۔۔۔

مذکورہ ملزم سمن آباد لاہور کی ایک مسجد کا امام اور لاہور کے ایک معروف دینی ادارے کا مدرس بھی ہے۔۔۔مذکورہ ملزم سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں استعمال ہونے والے موبائل فون سمز،موبائل۔فونز سمیت دیگر الیکٹرونک آلات برآمد کیے گئے ۔۔۔مذکورہ ملزم کے قبضے سے برآمد ہونے والے موبائل فون وغیرہ سے بدترین گستاخانہ مواد بھی برآمد۔۔۔

ابتدائی تفتیش کے دوران مذکورہ ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا۔مذکورہ ملزم گزشتہ کئی سالوں سے بدترین گستاخانہ مواد کی سوشل میڈیا پر تشہیر کررہا تھا۔۔۔پریس ریلیز کے مطابق انتہائی تشویش کی بات ہے کہ ایک مسجد کا پیش امام،ایک معروف دینی ادارے کا مدرس بھی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث نکلا ہے۔۔۔

اس سے قبل جنوری 2021 میں انسداد دہشتگردی عدالت اسلام آباد بھی گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث کراچی کے معروف دینی ادارے کے ایک فاضل مفتی عبدالوحید المعروف ایاز نظامی کو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا چکی ہے۔۔۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کس حدتک ہمارے معاشرے کے لئے کینسر بن چکی ہے۔۔۔

پریس ریلیز کے مطابق یہ وقت ہے کہ تمام متعلقہ ادارے بالخصوص اور ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں بالعموم سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سدباب کے لئے اٹھ کھڑی ہوں۔۔۔اس سے قبل کہ ہماری نئی نسل اس فتنے کا شکار ہو،ابھی وقت ہے کہ ہم متحد ہوکر اس ناپاک فتنے کو کچل دیں۔۔۔

[pullquote]مولانا عبد الشکور صاحب پر سنگین الزامات: حقیقت حال[/pullquote]

عبد الودود، برادر کبیر مولانا عبد الشکور

کل بروز جمعرات بتاریخ 28 جولائی کو ظہر کے بعد کسی وقت برادر صغیر مولانا عبد الشکور صاحب کو گھر کے باہر کسی جگہ سے اٹھا لیا گیا، ہمیں اس بارے کوئی اطلاع نہیں تھی، مغرب کے بعد مجھے ایف آئی اے کے کسی ڈائریکٹر کا فون آیا کہ آپ کے بھائی عبد الشکور کو ہم نے گرفتار کیا ہے، میں نے ان کے جرم کے بارے میں استفسار کیا تو بتایا گیا کہ انہیں توہین رسالت کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے، یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور شدید تعجب ہوا کہ میرا عالم دین بھائی جس کی زندگی ناموس رسالت و ناموس صحابہ کے تحفظ میں گزری ہے اس پر اس قسم کا اتنا بڑا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے، بہرحال مجھے اسی وقت ایف آئی اے کے دفتر پہنچنے کا کہا گیا، میں مولانا عبد الرحمن صاحب امیر جمعیت علمائے اسلام علامہ اقبال ٹاؤن کو لے کر ایف آئی اے کے دفتر پہنچا، وہاں ایف آئی اے کے اہلکاروں نے مجھے مولانا عبد الشکور صاحب کے موبائل سے فیس بک میسنجر پر کسی گروپ میں موجود ایک گستاخانہ تصویر دکھائی اور دعویٰ کیا کہ یہ تصویر مولانا نے شئیر کی ہے، مجھے صرف تصویر کی ایک جھلک دکھائی گئی جس سے بس اتنا معلوم ہوا کہ یہ فیس بک میسنجر کا کوئی عجیب سے نام والا گروپ ہے، ہم نے ان سے کہا کہ مولانا پر جو ایف آئی آر کاٹی گئی ہے اس ایف آئی آر کی کاپی ہمیں دی جائے مگر ایف آئی آر کی کاپی نہیں دی گئی، ہم نے مولانا سے دو منٹ ملاقات کا مطالبہ کیا مگر ہمارا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا اور ہمارے ساتھ شدید بدتمیزی کا سلوک کیا گیا، سادہ کپڑوں میں موجود ایک صاحب سب سے زیادہ بدتمیزی کا مظاہرہ کر رہے تھے، ہمیں اندازہ ہوا کہ شاید یہ ایف آئی آر کے کوئی افسر وغیرہ ہوں گے۔ ہم وہاں سے واپس آگئے۔

رات دیر گئے ہمیں اطلاع ملی کہ کچھ لوگ حضرت استاد جی مفتی حسن صاحب مدظلہ العالی کے پاس گئے ہیں اور انہیں مولانا عبد الشکور صاحب سے تحریری برات کرنے کے لئے کہا ہے، اس خبر کے بعد رات ایک بجے ہم مولانا عبد الرحمن صاحب اور قاری معاویہ محمود مکی وغیرہ کے ساتھ حضرت استاد جی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو معلوم ہوا کہ حضرت استاد سے ملاقات کرنے کے لئے آنے والی شخصیت کوئی اور نہیں طاہر اشرفی کا چھوٹا بھائی حسن عرف طوطی تھا جس نے پورے وفد کے ہمراہ استاد جی کے پاس جاکر ان پر مولانا عبد الشکور صاحب سے تحریری برات کرنے کا دباؤ ڈالا مگر حضرت استاد جی نے تحقیق کے بغیر اس قسم کا کوئی برأت نامہ تحریر کرنے سے انکار کردیا۔

صبح سات بجے ہم پھر ایف آئی اے کے دفتر پہنچے تو وہاں پھر وہی بدتمیزی، بیہودگی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں، رات کو جو صاحب بڑھ چڑھ کر بدتمیزی کررہے تھے وہی صبح بھی بدتمیزی میں پیش پیش تھے، میں نے وہاں موجود ایف آئی اے کے ایک اہلکار سے ان کے رویے کی شکایت کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ ہمارے کوئی اہلکار یا افسر نہیں ہیں بلکہ یہ آپ کے کیس میں مدعی ہیں، اس کے بعد ان صاحب سے بحث کا سلسلہ بڑھا تو مجھے شک ہوا کہ کہیں یہ طاہر اشرفی صاحب کے وہی بھائی تو نہیں ہیں جو رات کو استاد جی مفتی حسن صاحب مدظلہ کے پاس اسی معاملے میں اپنی مرضی کی تحریر لکھوانے گئے تھے اور ناکام لوٹے تھے، معلوم کرنے پر یہ خیال درست نکلا۔ یہ وہی صاحب تھے۔ وہاں موجود اہلکاروں سے مزید بات چیت کی تو ایک اہلکار سے معلوم ہوا کہ یہ صاحب پچھلے دو سال سے مختلف کیسوں میں مدعی کی حیثیت سے یہاں آتے ہیں اور کوئی کیس نہ ہو تو بھی دن میں ایک دو بار یہاں ضرور آتے ہیں۔

صبح پھر ہم نے ایف آئی اے کے دفتر سے ایف آئی آر کی کاپی کے حصول کی پوری کوشش کی مگر ہمیں کاپی نہیں دی گئی، وہاں سے ہم عدالت گئے اور بہت شدید احتجاج کیا تو بہت مشکل سے ہمیں ایف آئی آر کی کاپی فراہم کی گئی، ایف آئی آر کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں مولانا عبد الشکور پر واٹس ایپ گروپ اور فیس بک پر اللہ تعالیٰ، قرآن پاک، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور امہات المؤمنین کی توہین کے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں، ایف آئی آر میں جس واٹس ایپ گروپ اور فیس بک آئی ڈی کا حوالہ دیا گیا ہے مولانا کے سینکڑوں متعلقین میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسے کسی گروپ یا کسی فیس بک آئی ڈی کو نہیں پہچانتا، ایف آئی آر میں اس واٹس ایپ گروپ اور فیس بک آئی پر گستاخی کرنے والے شخص کے جو نمبر دئیے گئے ہیں ان نمبروں کو مولانا کے متعلقین میں سے کوئی ایک شخص نہیں پہچانتا، جبکہ مولانا کا اپنا زیر استعمال نمبر جو ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے اس نمبر سے کسی گستاخی کا دعوی ایف آئی آر میں نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے