اگر مسیحی نہ ہوتے تو کیا پاکستان بنتا ؟

23مارچ 1940 کو لاھور میں واقع منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی جلسہ منعقد ھوا جس میں قرارداد لاھور پیش کی گئی۔ اور اسی قرار داد کو ایک الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کے آغاز کا سنگ میل سمجھا جاتا ھے۔
اس جلسے میں مسلمانوں کیلئے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گے۔ اھم بات یہ تھی اس جلسے میں صرف مسلمان رہنما شامل نہیں تھے بلکہ غیرمسلم رہنما بھی شامل تھے جنہوں نے الگ وطن کے مطالبے کی حمایت کی۔
ان رہنماؤں میں دیوان بہادر ستیا پرکاش سنگھا، آر۔اے گومسنڈ، ایف۔ای چوہدری، راج کماری امرت، چندو لال، سی۔ای گبن، الفریڈ پرشد اور ایس۔ایس البرٹ جیسے اہم نام شامل تھے۔

تحریک پاکستان کے مسیحی رہنماؤں میں جسٹس کارنیلیئس کا شمار بھی قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ھوتے ھے۔ انہیں ایک بے باک مقرر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کی ہمیشہ کھل کر حمایت کی۔ جسٹس کارنیلیئس کا ماننا تھا کہ برطانوی راج اور کانگریس کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے چھٹکارے کا واحد حل ایک الگ مسلم ریاست کا قیام ہی ھے۔

انہوں نے قرارداد پاکستان کی تیاری میں محمد علی جناح کو قانون رہنمائی بھی فراہم کی۔ پنجاب حکومت میں قانونی عہدہ رکھنے کے باعث وہ تحریک کا اہم حصہ تھے اسی لئے قیام پاکستان کے وقت انہوں نے پاکستانی شہریت قبول کی اور نئے بننے والے ملک میں بھی انہوں نے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے ہمراہ وفاق میں قانونی ذمہ داریاں نبھائیں۔ سنہ 1960 میں انہیں چیف جسٹس آف پاکستان تعینات کیا گیا تھا۔

ایس۔پی سنگھا کا شمار بھی تحریک پاکستان کے اہم ترین مسیحی رہنماؤں میں ھوتا ھے، وہ سنہ 1893 کو ضلع سیالکوٹ کے شہر پسرور میں پیدا ھوئے۔

وہ مسیحی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے. پنجاب یونیورسٹی جیسے پنجاب کے مایہ ناز تعلیمی ادارے میں رجسٹرار کے عہدے پر فائز تھے ۔ 1945میں وہ متحدہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ھوئے۔ اور پنجاب اسمبلی کے پہلے سپیکر منتخب ھوئے۔ جب پنجاب کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو وہ اسمبلی کے سپیکر تھے ۔ مسلم لیگ کے ووٹ 88 تھے اور متحدہ ہندوستان کے حق میں سیاسی قوتوں کے ووٹ بھی 88 تھے ۔ اس صورت حال میں 3 مسیحی ممبران اسمبلی کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئے ۔ دیوان بہادر ایس۔پی سنگھا نے قائد اعظم محمد علی جناح سے مل کر انہیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔ بالآخر 23جون 1947 کو وہ فیصلہ کن مرحلہ آ پہنچا ۔

اسمبلی میں اس بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے کہ مغربی پنجاب کو پاکستان میں شامل ھونا چاہیے یا ہندوستان میں؟ جب ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت آیا تو تینوں مسیحی ممبران اسمبلی ، سپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا ، فضل الہی اور گبن صاحب پاکستان کے حق میں کھڑے ھوے ،نتیجہ 88 ووٹ ہندوستان کے حق میں اور 91 ووٹ پاکستان کے حق میں پڑے ۔ بعد میں دیوان بہادر ایس۔پی سنگھا کے اس احسان کا بدلہ یوں اتارا گیا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش ہوئی کہ سپیکر ایک غیر مسلم نہیں ھونا چاہیے۔ اس طرح قیام پاکستان کی ابتدا میں ہی قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ کھلواڑ کا سلسلہ شروع ہوا ۔ مزہبی انتہا پسندی و نفرت کے وہ بیج بوئے گیے جس پر آنے والی غیر جمہوری حکومتوں نے آبیاری کی اور ہم آج کی نسل اس خاردار فصل کو اپنے برہنہ ہاتھوں سے کاٹ رھے ہیں ۔

مجھے پوری امید ھے کہ آج کے پاکستان کی آبلہ پا نوجوان نسل قیام پاکستان کے اصل مقاصد سے آگاہ ھو کر اپنے ملک کو قائد اعظم کی امیدوں امنگوں اور خوابوں کے مطابق بنانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرے گئی ۔ مسلم اور غیر مسلم فرزندان پاکستان ایک دن اپنی منزل حاصل کر کے رہیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے