پریم داس کا تعلق ہندو برادری سے ہے اور وہ اس بات سےہروقت پریشان رہتا ہے کہ مندر نہ ہونے کی وجہ سے ہولی اور دیگر مذہبی تہوار وہ اپنے برادری کے ساتھ کیسے منائیں؟
کسی بھی مذہب یا برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ خوشی اور غم کے لمحات ایک ساتھ مناتےہوئے سکون محسوس کرتے ہیں۔ پسنی سے تعلق رکھنے والا پریم داس بھی ان بد قسمت لوگوں میں سے ایک ہے جو مندر نہ ہونے کی وجہ سے ہولی اور دیگر مذہبی تہوار گھر میں مناتا ہے، دھیمے لہجے میں بولتے ہوئے اس نے کہا کہ خاص کر ہولی اور دوسرے مذہبی تہوار اور شادی بیاہ کے لئے ہندو کمیونٹی مندر نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کر رہی ہے۔
پریم داس نے مجھےاپنے برادری کے دوسرے لوگوں سے ملانے کا وعدہ کیا اور تین ہفتے گزرنے کے باوجود وہ مجھے اپنے برادری کے دوسرے لوگوں سے ملا نہ سکے۔
رنجیت داس ہندو برادری سے تعلق رکھنے والا ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے ۔ ان کے آبا و اجداد پسنی میں پیدا ہوئے اور رنجیت داس کا بچپن سے جْوانی کا سفر پسنی میں گزرا ہے۔ میٹرک تک وہ یہاں زیر تعلیم رہااور آج کل وہ محکمہ تعلیم میں بطور استاد اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگر ہندو برادری کے لئے ایک کمیونٹی ہال تعمیر کیا جائے تو وہ مذہبی رسومات اور شادی بیاہ کی تقریبات میں اکھٹے ہوسکتے ہیں، خوشی اور غم کے لمحات ایک ساتھ گزارنے کے لئے ہندو برادری کے لئے وہ کمیونٹی ہال کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں انکے بقول اس وقت ایک کمیونٹی ہال تعمیر کرنے سے ہندو برادری کے لوگ اکھٹے مذہبی رسومات ادا کرسکتے ہیں۔
[pullquote]پسنی میں ہندو کب سے آباد ہیں؟[/pullquote]
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کے مطابق وہ قیام پاکستان سے پہلے سے یہاں آباد ہیں اور کچھ خاندانوں کی اب چوتھی نسل پسنی میں جوان ہورہی ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے یہاں مقیم ہونے کی وجہ سے یہاں کے کلچر اور زبان کو اپنا چکی ہے، اور ایک بھائی چارگی کے ماحول میں رہ رہی ہے۔ مختلف ذرائع سے اکھٹی کی گئی معلومات کے مطابق قیام پاکستان سے پہلے بلوچستان کے تاجروں میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اور وہ پسنی میں تجارت کرتے تھے، اور یہ ایک تجارتی روٹ تھا۔ جہاں مختلف اقسام کی اشیا کی درآمداور برآمد ہوتی تھی۔اور زیادہ تر تاجر ہندو تھے۔مکران اور لسبیلہ سمیت قلات ، خضدار اور کئی بلوچ علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں ہندو برادری کرتی تھی اور گوادر سمیت پسنی میں یہ کاروبار سے منسلک رہی ہے۔ آج بھی اُوتھل میں زیادہ تر دکاندار ہندو ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوؤں کی آبادی مختلف وجوہات کی بنا پر کم ضرور ہوگئی ہے مگر اب بھی بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہندو کمیونٹی کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو کہ علاقائی ثقافت کو اپنا کر علاقائی زبان بولتے آرہے ہیں۔
[pullquote]پسنی میں ہندو کمیونٹی کی موجودہ آبادی[/pullquote]
ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مطابق پسنی میں ہندو کمیونٹی دس کے قریب گھرانوں پر مشتمل ہے جو کہ پسنی شہر میں رہتے ہیں، اور یہاں کے مقامی ثقافت،زبان اور سماجی اقدار سے بخوبی واقف ہیں۔
[pullquote]استولہ جزیرہ میں مندر کے آثار اب بھی موجود ہیں.[/pullquote]
پسنی شہر سے 39 کلومیٹر جنوب مغرب میں ہفت تلار جزیرے میں ہندوؤں کے ایک مندر کے آثار موجود ہیں جو اب خستہ حال ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس علاقے میں کئی صدیوں سے ہندو مقیم ہیں۔ مگر پسنی شہر میں ہندوؤں کا کوئی مندر موجود نہیں اور نہ ہی ماضی بعید میں ایسے آثار ہیں کہ یہاں کوئی مندر تھا۔
[pullquote]شمشان گھاٹ بغیر چار دیواری کے[/pullquote]
پسنی شہر سے چھ کلومیٹر دور ہندو برادری کا شمشان گاٹ موجود ہے جہاں مردوں کو جلا کر دفن کیا جاتا ہے۔ شمشان گاٹ کوسٹل ہائی وے لنک روڑ پر سفر کرتے ہوئے راستے میں آتا ہے جہاں ایک کچی اور دشوار گزار سفر کے بعد شمشان گاٹ آتا ہے اور بارشوں کے بعد یہ راستہ عارضی طور پر بند ہوتا ہے ۔ پہاڑی کے دامن میں موجود شمشان گاٹ ایک اونچے پہاڑ پر موجود ہے اور جو شیڈ بنایا گیا تھا اسکا آدھا حصہ گرچکا ہے ۔ جبکہ شمشان گاٹ کے قریب ہندو برادری کے سات کے قبریں موجود ہیں۔ شمشان گاٹ کا علاقہ چونکہ چھوٹے پہاڑوں کے اوپر ہے اور کوئی چار دیواری نہیں جبکہ ایک چھوٹا واٹر ٹینکی ضرور موجود ہے مگر اس میں پانی موجود نہیں جبکہ اس علاقے کو مارک اپ کرکے کیا گیا ہے۔
ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا کہ وہ جمعہ کے دن اپنے قبرستان جاتے ہیں مگر دشوار گزار اور کچی روڑ ہونے کی وجہ سے وہ بارشوں کے سیزن میں نہیں جاسکتے ہیں جبکہ چار دیواری تعیمر کرنا انکا دیرنیہ مطالبہ ہے۔
[pullquote]کمیونٹی ہال اور مندر[/pullquote]
پسنی میں ہندوؤں کے مذہبی تہوار ادا کرنے کے لئے کوئی مندر موجود نہیں ہے اور ہندو کمیونٹی کے لوگ مذہبی تہوار اکثر اپنے گھروں میں مناتے ہیں اور بعض افراد قریبی شہر گْوادر کا رخ کرتے ہیں۔ رنجیت داس اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ہندو کمیونٹی کے لئے ایک کمیونٹی ہال بنا کر اس مسلئے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ انکے بقول کمیونٹی ہال تعمیر ہونے سے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اس ہال میں مزہبی تہوار اور شادی بیاہ کی رسومات ادا کرسکتے ہیں۔
[pullquote]پسنی کی ہندو برادری کی بی این پی (مینگل)میں شمولیت کے بعد کیا مندر بنے گا؟[/pullquote]
حالیہ بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے بعد پسنی سے تعلق رکھنے والی ہندو برادری نے ایک بلوچ قوم پرست پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پسنی کے سئینر صحافی ساجد نور نے اس پریس کانفرنس کو کور کیا تھا۔ ساجد نور نے بتایا کہ ہندو برادری نے شمولیت کے وقت جو شرائط رکھی تھی اُن میں ہندو برادری کے لئے مندر کی تعمیر،شمشان گھاٹ کے لئے چار دیواری کی تعمیر اور ضلع بھر کے مختلف اداروں میں اقلیتی برادری کے لئے مخصوص سرکاری نوکریوں کے لئے ہندو برادری کو ترجیحی بنیادوں ہر ملازمت کے مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔ جبکہ ہندو برادری اقلیتی نشست کے لئے بی این پی کو سپورٹ کرے گی۔ اب تک بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ بھی شروع نہ ہوسکا۔ البتہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے پر عزم ہیں کہ بلدیاتی سیٹ اپ مکمل ہونے کے بعد انکے کچھ دیرینہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
[pullquote]ظریف بلوچ[/pullquote]
ظریف بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی سے ہے، ماحولیات،آبی حیات اور سماجی و معاشی ایشو پر قلم آزمائی کرتے ہیں۔