محسن لغاری کیلئے چند اچھے لفظ

قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی یا دوسرے رہنما سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ان کی شخصیت روشن خیالی، دستور پسندی اور حریت فکر و عمل کا یگانہ روزگار مظہر تھی۔ بابائے قوم اور لیاقت علی خان کی سیاست کے اجزائے ترکیبی مختلف تھے لیکن قائد اعظم کے بعد مسلم لیگ کی صفوں میں کوئی لیاقت علی خان بھی نہیں تھا۔ 1946 ءمیں عبوری حکومت قائم ہوئی تو ولبھ بھائی پٹیل کے ایما پر لیاقت علی خان کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔ پٹیل مذہبی تعصب کا ٹکسالی نمونہ تھے۔ اول تو وہ مسلمانوں کی معاشی سوجھ بوجھ کے بارے میں تحقیر کا رویہ رکھتے تھے، دوسرے انہیں معلوم تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم پانے والے لیاقت علی معاشیات پر گرفت نہیں رکھتے۔ پٹیل بیک وقت لیاقت علی کو ناکام بھی کرنا چاہتے تھے اور تیج بہادر سپرو کی سربراہی میں اس کانگریس کمیٹی کی رپورٹ کو بھی غلط ثابت کرنا چاہتے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی نئی مملکت ’مالی اعتبار سے قابلِ عمل اور توانا ریاست‘ ہو گی۔ اس موقع پر وزارتِ خزانہ کے کچھ مسلم اہلکار لیاقت علی کی مدد کو پہنچے۔ ان میں چوہدری محمد علی، غلام محمد، زاہد حسن اور عبدالقادر وغیرہ شامل تھے۔ ان لوگوں نے دفتری ہتھکنڈوں اور معاشی جوڑ توڑ سے ایسا جال بچھایا کہ سردار پٹیل بلبلا اٹھے۔ تاہم اس منفی حکمتِ عملی کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ اس دفتری ٹولے نے پاکستان میں فیصلہ سازی پر اجارہ قائم کر لیا۔ چوہدری محمد علی حکومت پاکستان کے سیکرٹری جنرل بن بیٹھے۔ 1947 میں آڈٹ اینڈ اکائونٹس کے ایڈیشنل سیکرٹری غلام محمد اکتوبر 1951میں پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے۔

نئی ریاست میں سرکاری اہلکاروں کا یہ عروج دراصل سیاسی قیادت کی کمزوری کا شاخسانہ تھا۔ دفتری فائلوں کے یہ شاہسوار جلد ہی بندوق بردار ریاستی اہلکاروں از قسم اسکندر مرزا اور ایوب خان کا بغل بچہ بن گئے۔ اگر سیاست دستور اور اقدار کے دائرے سے باہر نکل کر پہلوانی کا مقابلہ ٹھہرے تو ظاہر ہے کہ بندوق قلم پر غالب آئے گی۔ اڑچن اس میں یہ ہے کہ سیاست دان کو کھیل سے خارج کرنے میں فرانسیسی مدبر کلے مینشو کا قول آڑے آتا ہے، War is too important to be left to the generals۔ جنگ تو ایک ہنگامی تعطل ہے، معمول کا ریاستی بندوبست جنگ سے کہیں زیادہ پیچیدہ سرگرمی ہے۔ اس کارگہ شیشہ گری میں معیشت، قانون، پالیسی، تمدن، ضروریاتِ زندگی، عام انسانوں کی روز مرہ زندگی کی تفصیلات، تاریخ کا جبر، جغرافیائی حقائق، مقامی تحدیدات اور عالمی حقائق، سیاست میورل کی وسعت میں منی ایچر کی ہنرمندی کا تقاضا کرتی ہے۔ اسکندر مرزا کو پستول دکھا کر استعفیٰ لینا آسان ہے لیکن اس کھیل کے انجام پر وہی پستول غنیم کے سپرد کرنا پڑتا ہے۔ اور اس بیچ معیشت چلانے کیلئے کرائے کے ٹیکنوکریٹ درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ آپ فہرست گن جائیے، محمد شعیب، محبوب الحق، غلام اسحاق خان، معین قریشی، شوکت عزیز، حفیظ شیخ اور شوکت ترین وغیرہ۔ اس تمہید کا مقصد آپ کو ایک پرانا واقعہ یاد دلانا تھا۔ درویش چاہتا ہے کہ تاریخ سے پیچھا چھڑا کے تصوف کی حکایات لکھے، سرکار دربار کے معتوبین پر پھبتیاں کہے، مغرب دشمنی کا راگ الاپے، مجبوری مگر یہ ہے کہ اندر کی کسی خبر تک رسائی نہیں اور باہر کی دنیا ایسی بسیط ہے کہ ہم ایسوں کے حیطہ خیال سے ماورا ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے اسیر تو نہیں مگر یہ جانتے ہیں کہ قوموں کا سفر دریا کا تسلسل ہے، تالاب کی گرد و پیش سے کٹی ہوئی تنگ دامنی نہیں۔ نازک مزاج شاہاں چاہتے ہیں کہ افتادگانِ خاک ماضی کے جرائم کو فراموش کر کے کسی اگلے شعبدے پر تالیاں پیٹیں۔ لکھنے والے کا فرض ہے کہ تاریخ کو فراموش نہ ہونے دے۔ قوم کا حافظہ سلامت ہو گا تو آج کے فریب کو سمجھ سکے گی۔

تو آئیے پچاس کی دہائی میں چلتے ہیں جہاں گورنر جنرل غلام محمد نے اپریل 1953 میں خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا تھا۔ اور پھر اکتوبر 1954 میں محمد علی بوگرا کو باقاعدہ فوج کی تحویل میں اپنے حضور طلب کر کے دستور ساز اسمبلی بھی توڑ دی۔ نئی کابینہ میں باوردی ایوب خان کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی برس ہے جب کوریا کی جنگ میں گندم، کپاس اور پٹ سن کی برآمدات بڑھنے سے پاکستان کے جی ڈی پی میں ترقی کی شرح 3 فیصد سے چھلانگ لگا کر 9.2 فیصد تک جا پہنچی تھی۔ مئی 1955 ء میں کراچی کے نام نہاد زعما کے ایک وفد نے مفلوج گورنر جنرل غلام محمد کی خدمت میں حاضر ہو کر ’نا اہل، بدعنوان اور خود ساختہ دستور ساز اسمبلی‘ سے قوم کو بچانے جیسی اعلیٰ خدمت پر ’محافظ ملت‘ کا خطاب قبول کرنے کی درخواست کی جو غلام محمد نے مصنوعی انکسار سے منظور کر لی۔ صرف تین ماہ بعد اگست 1955 میں اسکندر مرزا نے ’محافظ ملت‘ کو ڈنڈا ڈولی کر کے گھر بھیج دیا اور خود گورنر جنرل بن گیا۔ ملت کے ایسے محافظوں ہی نے قوم کو موجودہ حال تک پہنچایا ہے۔ غلام محمد کے ’محافظِ ملت‘ بننے کا قصہ شوکت ترین اور پنجاب کے وزیر خزانہ محترم محسن لغاری کی مبینہ آڈیو ٹیپ سن کر یاد آیا۔ شوکت ترین کی طرف سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی تجویز سن کر محسن لغاری بے ساختہ پوچھتے ہیں کہ ’اس سے پاکستان کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا؟‘ فون پر ایک طرف مسیحا صفت شوکت ترین تھے جو پرویز مشرف اور عمران خان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ دوسری طرف جنوبی پنجاب کے قصبے راجن پور کا جاگیردار سیاست دان محسن لغاری تھا۔ مبارک ہے وہ زبان جو کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ملک کے مفاد کا سوال اٹھاتی ہے۔ شوکت ترین کا کیا ہے، کہیں بھی ملازمت مل جائے گی۔ درویش نے محسن لغاری کا سوال سن کر بے ساختہ کہا، ’محسن لغاری، تم محسنِ پاکستان ہو۔‘

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے