نیند کیوں رات بھر نہیں آتی!

میں نے ایک دوست سے کہا یار مجھے نیند کا پرابلم ہے،بستر پر لیٹتا ہوں تو لگتا ہے کہ آئی کہ آئی، مگر عملی طور پر دور دور تک اس کا نام و نشان نہیں ہوتا، چنانچہ کروٹ در کروٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے حتیٰ کہ ’’وکھیاں‘‘ دکھنے لگتی ہیں، چنانچہ میں اٹھ کر صوفے پر آ بیٹھتا ہوں کہ شاید نیند کی بستر کے ساتھ ’’لگدی پھبدی‘‘ ہو، مگر صوفے پر بھی صورت حال جوں کی توں رہتی ہے۔ میرے دوست نے میری بپتا پوری توجہ سے سنی اور پھر بولا ’’تم نیند نہ آنے کی اصل وجہ بتائو تو میں اس کا علاج بھی بتائے دیتا ہوں‘‘ میں نے کہا یار جس دن نیند نے مجھے وہ وجہ بتائی میں دیر کئے بغیر تمہیں بتا دوں گا۔یہ سن کر دوست بولا چلو میں اندازے سے کچھ وجوہ بیان کرتا ہوں، تم ان کی تائید یا تردید کردینا۔ اس کا پہلا سوال وہی گھسا پٹا تھا ، اور مجھے اس سے اسی سوال کی امید تھی، یعنی کسی کے عشق میں مبتلا تو نہیں ہوگئے؟ میں نے کہا عشق انسان کا دشمن تو نہیں ہوتا کہ جو اس میں مبتلا ہو اس کی نیندیں اڑ جائیں، دوست نے یہ سن کر کہا بونگیاں نہ مارو، ہم بچپن سے سنتے اور شاعری میں پڑھتے آئے ہیں کہ عشق عاشق کی نیندیں اڑا دیتا ہے، میں نے کہا چلو مان لیا جو تم کہتے ہو مگر تم نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ میں کسی کے عشق میں مبتلا ہوں، تم نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ مجھ پر بھی تو کوئی عاشق ہو سکتا ہے ، یہ سن کر میرا بدبخت دوست ہنسنا شروع ہوا تو ہنستا ہی چلا گیا، جیسے میں نے کوئی لطیفہ سنایاہو۔ جب اس کی بے ہودہ ہنسی بمشکل اپنے اختتام کو پہنچی تو بولا مجھے سمجھ آگئی ہے کہ تمہاری نیندیں کیوں اڑ ی ہوئی ہیں، تم آئینے میں اپنی ’’تھوتھنی‘‘ دیکھتے ہو اور پھر ساری رات سوچتے رہتے ہو کہ اللّٰہ اگر کسی کی مت مار دے تو اسے کسی سے بھی عشق ہو سکتا ہے!

اس کے یہ بکواس مفروضے اللّٰہ جانے کب تک جاری رہتے، میں نے اسے اپنی پرانی دوستی کا واسطہ دیتے ہوئے کہا ’’یار یہ مذاق پھر کبھی سہی، فی الحال میری مشکل کا حل بتائو‘‘ یہ سن کر دوست سنجیدہ ہوگیا اور بولا ’’تم ٹھیک کہتے ہو مگر یہ بتائو کہ انسان جب مسلسل سونے کی کوشش میں ناکام ہو رہا ہو تو اس کا ذہن بہت کچھ سوچتا ہے کہ ذہن کا کام ہی مصروف رہنا ہے، فراغت ہو، انسان سو رہا ہو، جاگ رہا ہو، وہ اپنا کام کرتا رہتا ہے، تم نیند نہ آنے کے دوران کیا سوچتے رہتے ہو؟ میں نے جواب دیا، دنیا جہان کی بے ربط باتیں، کبھی کچھ کبھی کچھ ، مثلاً یہ کہ زندگی کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، دوست بولا ’’ادھر ادھر کی نہ ہانکو، سنجیدگی سے بتائو کہ نیند نہ آنے کے دوران تم کن خیالوں میں گھرے رہتے ہو، میں نے کہا زندگی کے اتار چڑھائو کے بارے میں بھی سوچتا ہوں، لیکن یہ بھی کہ مہنگائی بہت ہوگئی ہے اور اس کا سلسلہ رکنے میںنہیں آ رہا، غریبوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ چالیس چالیس ہزار والے ایک ہزار بانڈ محض اس نیت سے خرید کر رکھے ہوئے ہیں کہ اگر سات کروڑ کا ایک بانڈ بھی نکل آیا تو غریبوں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکوں گا۔ اس کے علاوہ تمہیں تو علم ہے میں درویش ٹائپ انسان ہوں مال و دولت دنیا سے مجھے غرض نہیں، شہر میں دس بارہ پلازے ہیں ان دنوں میری دو ہائوسنگ اسکیمیں بھی زیر تعمیر ہیں، تو ظاہر ہے ہائوسنگ اسکیموں پر اربوں روپے خرچ آتے ہیں جن میں سے بھاری امائونٹ بینکوں سے قرض لینا پڑتی ہے اور یوں مقروض ہوں، تم تو جانتے ہو، مقروض پر تو زکوٰۃ بھی فرض نہیں ہوتی، پلازےبھی اسی طرح بنے ہیں مگر غریبوں کی حالت کا سوچ سوچ کر راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔

یہ سن کر ایک بار پھر اس دوست نما دشمن پر ہنسی کا دورہ پڑا، مجھے اس کی اس سنگدلی پر سخت غصہ آیا، اسے اپنے دوست کی پریشانیوں کی کوئی پروا ہی نہیں، چنانچہ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ اس کا نام اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کردوں، اس نے شاید محسوس کرلیا کہ میں اس کی باتوں سے سخت رنجیدہ ہوں، چنانچہ وہ سنجیدہ ہوگیا بلکہ بڑی پکی سی شکل بنا کر کہنے لگا یار تم نے آج تک مجھے اپنے ان مسائل کے بارے میں بتایا ہی نہیں، میں تو سمجھتا تھا تم ماشا اللہ بہت کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتے ہو، مگر تم تو افلاس کی آخری حدوں کو چھو رہے ہو،ان حالات میں تمہیں بھلا نیند کیسے آ سکتی ہے، میں تمہارے لئے اور تو کچھ نہیں کرسکتا ایک ماہ پہلے تم سے پانچ سو روپے ادھار لئے تھے فی الحال میرے پاس تین سو روپے ہیں یہ لو، باقی دوسو روپے اگلے ماہ واپس کر دونگا اور اس نے تین سو روپے میری پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھ دیئے جو میں نے فوراً جیب میں ڈال لئے۔ اس کی اس فراخی پر میں نے خود کو دل میں بہت کوسا کہ اتنے ہمدرد دوست کے بارے میں میرے دل میں ایسے واہیات خیالات کیوں آئے؟

اب شام کے سائے ڈھل رہے تھے میں نے واپس گھر جانے کیلئے راستے میں کھیرے، دھنیا اور بیسن بھی خریدنا تھا،میری اہلیہ نے صبح گھر سے نکلتے ہوئے اس سودا سلف کیلئے مجھے سو روپے دیئے تھے، جس میں سے میں نے ستر روپے والا سگریٹ کا پیکٹ خریدا تھا، تین سو روپے دوست نے دیئے تھے مگر مجھے خوف تھا کہ اس ڈرامے کے اختتام پر وہ مجھ سے مانگ نہ لے۔ میں نے اس سے اجازت مانگی تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا، اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا ’’ڈرامے باز میرے پیسے واپس کرو، ہم روزانہ ٹائم پاس کرنے کیلئے ’’یوٹیوبیوں‘‘ ایسی بے پر کی اڑاتے ہیں، ہم نے آج کا کوٹہ پورا کرلیا،اب جائو ………‘‘ میرا یہ بے تکلف دوست دوستوں کی تکلیفوں کے حوالے سے بہت حساس واقع ہوا ہے۔ میں اٹھ کر جانے لگاتو بولا ’’ میں نے تمہاری شیخ چلی والی داستان سن لی، ڈیڑھ لاکھ روپے ماہوار پنشن پر گزارا کرنے والے، اب جاتی دفعہ سچ سچ بتائو تمہیں رات کو نیند کیوں نہیں آتی، کوئی پریشانی ہے تو بتائو۔ اس بار میرا قہقہہ اس کے قہقہوں سے زیادہ بلند تھا جو وہ میری بے پر کی اڑاتے وقت مسلسل لگا رہا تھا، چنانچہ میں نے اسے مخاطب کیا ’’سچ سچ بتائوں مجھے رات کو نیند کیوں نہیں آتی‘‘ بولا ’’بتائو‘‘ میں نے کہا ’’اس لئے کہ میں دن بھر سویا رہتا ہوں، رات کو پھر سونے کے لئے بستر پر جا لیٹتا ہوں ’’نیند‘‘ کہاں سے آنی ہے؟‘‘ اس آخری جملے پر یہ کلمات میرے کانوں کو سنائی دیئے۔ لاحول والا قوۃ۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے