کتابیں ہی کتابیں

میں اللّٰہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے معاصرین میں مجھ سے زیادہ صاحبِ مطالعہ کوئی ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب تین چار کتابیں اور میگزین میرے زیر مطالعہ نہ آتے ہوں، میں جب اپنے دفتر آتا ہوں تو ڈاک سے دو ایک کتابیں مجھے موصول ہوتی ہیں اور واپس گھر پہنچتا ہوں تو گھر کے ایڈریس پر بھی کچھ کتابیں میرے اہل علم دوستوں نے میرے مطالعہ کے لئے مجھے ارسال کی ہوتی ہیں کہ جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں کا حق دار کون ہے ۔ آپ اندازہ لگائیں گزشتہ چند دنوں میں مجھے جو کتابیں موصول ہوئی ہیں ان میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو کہ ایک نظر میں میں اسےگھوٹ کر نہ پی گیا ہوں،ابھی گزشتہ روز مجھے برادرم محمد اظہار الحق کی کتاب ’’عاشق مست جلالی‘‘ کے منفرد نام سے موصول ہوئی، نام تو منفرد ہونا ہی تھا کہ اظہار الحق نثر نگار ہی نہیں شاعر بھی منفرد ہے بلکہ شاعری میں تو اسے بآسانی رجحان ساز قرار دیا جاسکتا ہے۔ میں پہلے سمجھا شاید یہ اظہار کا نیا شعری مجموعہ ہے، نہیں صاحب یہ اس کے مختلف انداز میں لکھے ہوئے کالم تھے۔ کالم نگار تو ان دنوں ’’اِٹ پٹو‘‘ نیچے سے دس کالم نگار نکل آتے ہیں مگر اظہار کا اظہار آج کے تمام لکھنے والوں سے مختلف ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں اس کتاب کو کالموں کی کتاب قرار دوں کہ نہیں، کہ اس میں تو آپ بیتی کی جھلکیاں بھی ہیں۔اس میں اظہار کے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کا کیا انوکھا ذکر ہے کہ یہ سب ’’کردار‘‘ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اظہار کی شاعری کی طرح اس کی یہ نثر بھی صرف نظر کرنے والی نہیں۔

میں ابھی ’’عاشق مست جلالی‘‘ کے سحر میں گم تھا کہ ڈرامہ نگار افسانہ نگار یونس جاوید کی موٹی تگڑی کتاب ’’پل صراط کے بعد‘‘ ڈاکیا لے کر آگیا۔ اس کا پہلا صفحہ کھولا تو دل باغ باغ ہوگیا، اکتساب اشفاق احمد، عطاء الحق قاسمی اور آغا گل کے نام تھا، آٹھ سو صفحات پر مشتمل افسانوں کی کلیات قاری کو اس دنیا اوران گہرے درد مندانہ جذبات کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے جو یونس کی ذات اور اس کی تحریر میں یکساں طور پر نظر آتے ہیں۔ قمر رضا شہزاد کا شعری مجموعہ ’’در گزر‘‘ بھی انہی دنوں میں شائع ہوا ہے۔ میں قمر کی شاعری کا فین ہوں اور اس مجموعے نے مجھے ’’مزید فین‘‘ بنا دیا ہے۔ میں پنجاب کے ایک قصبہ کے مکین حسن رضا گوندل کو بھرپور خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ شکیل عادل زادہ کے اس پاگل عاشق نے ’’سب رنگ‘‘ کی لاجواب کہانیاں کئی جلدوں میں انتہائی مہنگے کاغذوں پر شائع کی ہیں۔ عاشق ہو تو ایسا ہو، برادرم جبار مرزا نے بھی از راہ محبت ’’پاکستان: پچھتر برس‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب خاکسار کو ارسال کی ہے جس میں پاکستان کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ بریگیڈئر بشیر آرائیں نے بھی اپنی آپ بیتی ’’خاک سا خاکی‘‘ سے مجھ خاکسار کو نوازا ہے جوانتہائی دلچسپ کتاب ہے۔

میرے دیرینہ دوست سلیم منصور خالد جو اپنے نظریات میں پہلے دن سے آج تک پختہ سے پختہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ’’کشمیر۔15اگست 2019 کے بعد‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب ارسال کی ہے۔ کتاب کا عنوان ہی بتاتا ہے کہ کشمیر کو انڈیا میں ضم کرنے کی مذموم کوشش اور اس پر ہماری خامشی کس قدر خوفناک بے حسی ہے۔ یہ کتاب سیاسیات کے طالب علموں کو خصوصی طور پر پڑھنا چاہیے۔ایک نوجوان شاعر عامر سہیل چوہدری دارالحکومت لاہور سے بہت دور رہتا ہے مگر جس شہر میں وہ رہتا ہے اس کی اعلیٰ کتابوں کی بدولت اب وہی شہر دارالحکومت ہے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس کے حامل عامر سہیل کا نیا شعری مجموعہ ’’وہ کونج سرمئی ہوئی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہےاور مجھے چند روز قبل ڈاک سے ملا ہے۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ عامر نے اپنا یہ خوبصورت شعری مجموعہ میرے نام معنون کیا ہے۔ ایک کتاب ’’ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ‘‘ کے عنوان سے موصول ہوئی ہے اور طنزو مزاح سے بھرپور یہ کتاب کرنل ضیا شہزاد کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ رضی الدین رضی کے نام سے ہم سب واقف ہیں۔ انتہائی بھلے مانس اور خاموش طبع اس ادیب کی کتاب ’’کالم کہانیاں خاکے‘‘ اسی مہینے شائع ہوئی ہے اور کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ رضی الدین رضی شکل سے جتنے بے ضرر لگتے ہیں تحریر میں اتنے ہی شرارتی ہیں۔ کیا خوبصورت طنز و مزاح دیا ہے اس شخص نے اپنی اس کتاب میں۔ موقع ملے تو ضرور پڑھیے۔

آپ سب کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جماعت اسلامی کے رہنما حافظ محمد ادریس میرے بے تکلف دوستو ںمیں سے ہیں۔ خوش مزاج، خوش اخلاق حافظ ادریس کی کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ بھی حال ہی میں شائع ہو کر مجھ تک پہنچی ہے۔ یہ ان نظریاتی دوستوں کی کہانی ہے جن کی ساری زندگی تحریک اسلامی کے فروغ کیلئے محنت کرتے گزری، خود حافظ صاحب کا شمار بھی انہیں لوگوں میں ہوتا ہے۔ پنجابی کے خوبصورت شاعر صغیر تبسم کا شعری مجموعہ ’’اک خیال سمندروں ڈونگا‘‘ کے عنوان سے مجھ تک پہنچا ہے۔ یہ کتاب پنجابی زبان کی مٹھاس اور اس کے تخلیقی اظہار کی منہ بولتی مثال ہے۔ بہت عمدہ شاعر زاہدر اجہ کی شاعری کی کتاب ’’عشق رنگوں کی برکھا‘‘ بھی حال ہی میں نظروں سے گزری ہے، ایک کتاب کا احوال تو میں بھول ہی چلا تھا،یہ ہمارے کراچی کے محقق، شاعر اور اعلیٰ انسان عقیل عباس جعفری کی کتاب ’’اپنی یاد میں‘‘ ہے۔ جو گزشتہ ماہ شائع ہوئی ہے ۔

یہ ان تحریروں پر مشتمل ہے جو مختلف ادیبوں کی اپنی مفروضہ وفات کے حوالے سے ہیں ان میں اس خاکسار کے علاوہ رشید احمد صدیقی، علامہ رشید ترابی، انتظار حسین، سعادت حسن منٹو، جوش ملیح آبادی، خوش ونت سنگھ، کنہیا لال کپور، مجتبیٰ حسین، اشفاق احمد، محمد طفیل، حمید اختر، فکر تونسوی، احمد فراز، نظیر صدیقی، جوگندر پال، شورش کاشمیری، سلیم احمد ، شکیل عادل زادہ، حمایت علی شاعر، امجد حسین، رتنا سنگھ، اقبال مجید، محمد اظہار الحق، مظفر گیلانی، شامل ہیں اور آخر میں ہمدم دیرینہ اور بہت پیارے دوست طارق محمود کی خود نوشت دام خیال کا ذکر۔ طارق محمود زبردست افسانہ نگار ہیں اور ان کا زور قلم انکی اس آپ بیتی میں بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے۔

امید ہے قارئین کو اتنی ڈھیر ساری کتابوں کے مطالعہ کے ذکر کے بعد میرے اس دعوے پر یقین آگیا ہوگاجو میں نے اس تحریر کے آغاز میں کیا تھا کہ میں بہت عالم فاضل آدمی ہوں۔ بے حد پڑھا لکھا ہوں مگر الحمد للہ کبھی غرور نہیں کیا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے