ایک تھا بزرگ، ایک تھا بچہ

اس کی عمر کچھ ایسی کم بھی نہیں تھی یعنی یہی کوئی ستر بہتر سال مگر اس کے سینے میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کا دل دھڑکتا تھا ،وہ بہت زندہ دل مگر بہت دردمند بھی تھا۔ وہ دوستوں کی محفلوں میں ایسے قہقہے لگاتا جیسے الٰہ دین کے چراغ کا روایتی جن دھوئیں میں سے نمودار ہوتے ہوئے لگاتا ہے۔ اسے اپنا کوئی ذاتی غم نہیں تھا جس پروہ اپنے اللہ تعالیٰ کا شکر دن میں بیسیوں مرتبہ ادا کرتا لیکن وہ اپنے اردگرد سسک سسک کر جینے والوں کے ہجوم اور ارباب اقتدار کی بے حسی دیکھ کر خدا سے شکوہ کناں بھی ہوتا اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے کوشاں رہتا۔ ستر بہتر برس کی عمر میں بھی اسے کوئی بڑا جسمانی عارضہ لاحق نہیں تھا۔ چنانچہ اس کے دل کی دھڑکن نارمل تھی، وہ شوگر، بلڈ پریشر، کلیسٹرول اور یورک ایسڈ ایسی بلائوں سے بھی محفوظ تھا وہ چونکہ ابھی تک ’’اٹھارہ سالہ نوجوان‘‘ کی جذباتی زندگی گزار رہا تھا چنانچہ اپنی اصلی عمر بھول کر وہ اپنے گھر کی سیڑھیوں کے دو دو تین تین اسٹیپ بیک وقت پھلانگنے کی خواہش تو کرتا لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش اس لئے کبھی نہیں کی کیونکہ اپنی ’’بھرپور جوانی‘‘ کے باوجود ایک حقیقت پسندشخص تھا وہ ایک معزز شخص تصور کیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب وہ کسی تہوار کے موقع پر فلم دیکھنے جاتا تو اسے بادل نخواستہ ایک لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا حالانکہ اس کا دل چاہتا کہ وہ بھی اپنے ’’ہم عمر‘‘ دوسرے نوجوانوں کی طرح قمیض اتار کر قطار میں کھڑے لوگوں کے سروں پر چھلانگ لگائے اور ان پر تیرتا ہوا کھڑکی تک پہنچے اور پھر ٹکٹ مٹھی میں دبائے اوپر سے چھلانگ لگا دے اور اس کے بعد فاتحانہ انداز میں چلتا ہوا سنیما میں داخل ہو مگر یہاں بھی اس کی حقیقت پسندی اس کے آڑے آجاتی، کیونکہ ایسا کرنے کی کوشش میں اس کی ایک آدھ ٹانگ ضرور ٹوٹ جاتی اور پھر وہ اپنی میٹرک کی انگریزی کی کتاب میں پڑھی ہوئی کہانی کے کردار لانگ جان سلور کی طرح ساری عمر بیساکھی پر ٹک ٹک کرتے ہوئے چلتا۔

البتہ فلم شروع ہونے پر مختلف مناظر کے دوران اسے اپنے جذبات پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتا مثلاً کسی جذباتی منظر پر اگلی صفوں میں بیٹھے ہوئے تماشائی ایک ہاتھ منہ کے قریب لے جا کر بڑھک لگاتے تو اس کا دل خوشی کےمارے سینے سے اچھل کر باہر آ جاتا اور وہ بھی ان کی آواز میں اپنی آواز ملانے کی خواہش کرتا مگر اس کا معزز ہونا اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ تھا چنانچہ ایسے موقع پر وہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتا ۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ ارد گرد کا ماحول ’’ساز گار ‘‘دیکھ کر وہ بھی ایک آدھ زور دار بڑھک لگا دیتا مگر پھر اس پر تھوڑی سی شرمندگی بھی طاری ہو جاتی، دو ایک موقع پر ایسا بھی ہوا کہ اس کی برابر والی سیٹوں میں غلطی سے دو چار شیدے ’’معزز‘‘ بننے کی خواہش میں گیلری کے ٹکٹ خرید کر آ بیٹھتے تو وہ حسرت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتا اور خواہش کرتا کہ کم از کم یہی ’’احباب‘‘ انسان کے بے ساختہ جذبوں کا اظہار کرکے گیلری کی طرف سے یہ ’’فرض کفایہ‘‘ ادا کر دیں مگر ایسا بہت کم ہوتا کیونکہ اس سے ان کا ’’معزز‘‘ بننے کا سارا پلان غارت ہو جاتا۔ اسی طرح ہیروئن کے ہنگامہ پرور رقص پر جب اگلی صفوں کے تماشائی اسے ’’ہدیہ تبریک‘‘ پیش کرنے کے لئے سکرین پر پیسوں کے ’’چھٹے ‘‘ مارتے تو اس کا دل بھی مچل مچل جاتا مگر افسوس کہ یہ اٹھارہ سالہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی معاشرے کا ایک معزز فرد تھا چنانچہ اسے اپنے جذبات کے اس عوامی اظہار کی اجازت نہیں تھی ۔

یہ نوجوان میلوں ٹھیلوں کا بھی شوقین تھا، درباروں پر بھی حاضری دیتا، قوالی کی محفلوں میں کئی مرتبہ اس پر وجد طاری ہوا ان لمحوں میں وہ رقص کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کرتا مگر اس کے پائوں من من کے ہو جاتے اس کا معزز ہمزاد اس کا دامن کھینچ کر اسے واپس اپنی جگہ پر بٹھا دیتا تھا، ایسے مواقع پر وہ خود سے پوچھتا کیا میں عبداللطیف بھٹائی سے بھی زیادہ معزز ہوں اور پھر خود ہی جواب دیتا ’’وہ صوفی تھے تم دنیا دار ہو‘‘۔وہ کہتا اگر میں دنیا دار ہوں تو چلو مجھے دنیا داری ہی کرنے دو جس کے جواب میں اس کا معزز ہمزاد اسے صرف اتنا کہتا ’’شٹ اپ‘‘ اور وہ سہم کر ’’شٹ اپ ‘‘ ہو جاتا ؟

اسے جلسے جلوسوں سے بھی گہری دلچسپی تھی، وہ ان میں شرکت کرتا لیکن فلک شگاف نعرے لگانے کی حسرت دل میں لئے واپس گھر آ جاتا، وہ جب دیکھتا کہ کسی مقرر کی شعلہ بیانی کے دوران جلسے میں سے ایک نوجوان کی شیو بڑھی ہوئی ہے اور جو بغیر استری کے کپڑوں میں ملبوس ہے اتنے جوش کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھتا جیسے اسے کرنٹ لگا ہو اور نعرہ تکبیر بلند کرتا، اس نعرے کو جس طرح وہ لمبا کرتا نعرہ اے اے اے تکبیر، وہ اس کے دل کو بہت بھاتا تھا وہ اس کی تقلید کرنا چاہتا لیکن پھر اسے خیال آتا کہ معزز لوگ نعرہ لگانا تو کجا اس کا جواب بھی اگر دیں تو زیادہ سے زیادہ دل میں ہی دیا کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی خواہش کو تھپکیاں دے دے کر سلا دیتا۔ جلوسوں میں بھی دوسرے مظاہرین کی طرح وہ اندھا دھند لاٹھیاں برساتی پولیس پر پتھرائو کرنا چاہتا تھا مگر پتھرائو تو اس نے کیا کرنا تھا یہ معزز شخص پولیس کو آتا دیکھ کر جائے واردات ہی سے کھسک جاتا تھا تاہم وہ اس روز بہت بے چین تھا جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا وہ بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا ،اسے راستے میں جو پتھر نظر آتا وہ اسے پوری قوت سے ٹھوکر مار کر اپنا کتھارسز کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس کا دکھ اس ٹھوکر سے کہیں بڑا تھا۔

اس کی بیوی بتاتی ہے کہ اس رات اس معزز شخص کو نجانے کیا ہوا کہ وہ خواب میں بہت زور دار نعرے لگاتا رہا پھر اس نے دیکھا کہ اس کے منہ سے جھاگ بھی بہہ رہا ہے تب اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کی ساکن پتلیاں بند کیں اور ایک دلدوز چیخ مار کر اپنے بچوں کو اطلاع دی تمہارا باپ مر گیا ہے!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے