تولیدی صلاحیت کے بارے میں ہم نے جو کچھ سُنا یا سمجھا ہے اس میں بہت سی باتیں صحیح نہیں ہیں
انسان میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کے بارے میں بہت سی باتوں پر ہم اُسی طرح یقین کرتے آئے ہیں جیسے ہم نے اپنے بزرگوں سے سُنا ہے۔
ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ حمل ٹھہرنے کے لیے خواتین کے جسم میں انڈا یعنی بیضہ مرد کے نطفے یعنی سپرم کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ مرد اور عورت میں جنسی تعلق قائم ہونے کے بعد لاکھوں سپرم بیضہ کی طرف دوڑ لگا دیتے ہیں اور انہی سپرمز میں سے ایک جا کر بلآخر بیضہ سے مل جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دوڑ میں جو سپرم سب سے تیز رفتاری سے بیضہ کی طرف بڑھتا ہے اسی کی جیت ہوتی ہے۔ بیضے میں نطفے کے داخل ہو جانے کے بعد جنین بنتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب حمل ٹھہر جاتا ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِس کہانی میں مکمل سچائی نہیں ہے۔
اندازے کے مطابق جنسی تعلق کے دوران وجائنا یا اندام نہانی میں مرد کے جسم سے نکلنے والے لاکھوں سپرمز (اندازے کے مطابق ایک جنسی تعلق کے دوران مرد کے جسم سے تقریباً 25 کروڑ تک سپرمز) کا اخراج ہوتا ہے۔
امریکی سائنسدان کرسٹین ہک کے مطابق وجائنا میں داخل ہونے کے بعد سپرمز کو پہلے دہانے سے اندر کی جانب جانے والے راستے یعنی ’سروکس‘ کو پار کر کے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
کرسٹین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تولیدی عمل کے راستے میں سپرم کو متعدد چیک پوائنٹس کو پار کرنا ہوتا ہے۔ داخل ہونے سے بیضے سے ملنے تک کا راستہ سپرم کے لیے کافی طویل ہوتا ہے۔‘
اگر سپرم بہت اچھی صحت میں نہ ہوں تو یہ سفر طے کرنا اُن کے لیے مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
مانچسٹر یونیورسٹی میں شعبہ ری پروڈکٹیو میڈیسن کے ڈائریکٹر ڈینیئل برائسن کے مطابق ’یہ اچھے سپرم کے انتخاب کا ایک اہم پڑاؤ ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’وجائنا تک پہنچنے والے کروڑوں سپرمز میں سے کچھ ہی بیضہ تک پہنچ پاتے ہیں۔‘
اندازے کے مطابق جنسی تعلق کے دوران وجائنا یا اندام نہانی میں مرد کے جسم سے نکلنے والے لاکھوں سپرمز (اندازے کے مطابق تقریباً 25 کروڑ تک) کا اخراج ہوتا ہے
فیلوپیئن ٹیوب کے آخر تک خود اپنے آپ پہنچنا نطفے یا سپرم کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بیضہ نطفے سے ملتا ہے۔
برائسن بتاتے ہیں کہ ’سپرم خود نہیں تیرتے ہیں بلکہ بچے دانی کے اندر ہونے والے کانٹریکشنز یعنی بچے دانی کے سکڑنے اور پھیلنے سے ہونے والی حرکت سے سپرمز کو آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ سپرم کے تیرنے کی صلاحیت صرف تب کام آتی ہے جب سپرم انڈے تک پہنچ جاتا ہے۔
سیکس کے عمل کے اختتام کے نزدیک خواتین کو ہونے والا ’آرگیزم‘ یہ کانٹریکشنز پیدا کرتا ہے اور یہی آرگیزم سپرم کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس دوران بیضہ دانی کے اندر چھوٹنے والا مواد بھی سپرم کے آگے بڑھنے کے لیے ماحول تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔
امریکہ کے سمتھ کالج کی پروفیسر ورجینیا ہیزن کا کہنا ہے کہ ’کُل ملا کر بیضہ دانی کے اندر کا ماحول اور سیکس کے دوران اور سیکس کے بعد بیضہ دانی کے اندر بہت کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے جو سپرم کے آگے بڑھنے اور اس کے مستقبل کے کے بارے میں فیصلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘
سپین کے یوجین گروپ کے تحقیق دان فیلیپو زامبیلی کے مطابق ’وجائنا کے اندر پی ایچ یعنی تیزابیت کی سطح بھی اس بارے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ زیادہ تیزابیت سپرم کے لیے اچھی نہیں لیکن کچھ تیزابیت ضروری بھی ہوتی ہے۔ اسی تیزابیت کی مدد سے وہ انڈے کی پروٹین کی پرت کو پار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔‘
’بیضہ اور نطفے کے ملن کو جس طرح تصور کیا جاتا ہے حقیقت میں یہ عمل اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے‘
کچھ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین میں سیکس کے اختتام کے دوران ہونے والا آرگیزم سپرم کو اوپر کی جانب بڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ تاہم متعدد کا خیال ہے کہ اس بارے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس دوران بیضہ خاموشی سے سپرم کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔
حالانکہ بیضے میں خود سے آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ لیکن فیلوپیئن ٹیوب کے اندر، بال جیسے ریشے جنھیں سیلیا کہتے ہیں، بیضہ کو آہستہ آہستہ نیچے کی جانب بڑھنے میں مدد کرتے ہیں۔
زامبیلی نے بتایا کہ ’بیضہ یا انڈا فیلوپیئن ٹیوب کے راستے یوٹرس یا بیضہ دانی کی جانب بڑھتا ہے اور اس دوران ایک خاص قسم کے کیمیکل کا رساؤ ہوتا جاتا ہے۔ یہی کیمیکل سپرم کو انڈے کی جانب کھینچتا ہے۔‘
یعنی طولیدی صلاحیت کے بارے میں ہم نے جو کچھ سُنا یا سمجھا ہے اس میں بہت سی باتیں صحیح نہیں ہیں۔
بیضہ اور نطفے کے ملن کو جس طرح تصور کیا جاتا ہے حقیقت میں یہ عمل اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ بہت سارا انحصار بیضہ پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ وہ بھی اس کیمیکل کے ذریعے سپرم کو اپنی جانب کھینچ رہا ہوتا ہے۔ اور عام طور پر کوئی ایک سپرم ہی بیضہ سے مل کر اس میں داخل ہو پاتا ہے۔
تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ عورت کے جسم میں داخل ہونے کے بعد نطفے کو مخالف ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
’کُل ملا کر جسم کے اندر کا ماحول اور اس میں ہونے والی متعدد تبدیلیاں ہی یہ یقینی بناتی ہیں کہ آپ بچہ پیدا کر سکیں‘
ہیزن کا خیال ہے کہ یہ بھی کہنا ٹھیک نہیں ہو گا کیوں ایسا لگ رہا ہے ہم جان بوجھ کر مردوں کی طرف داری والی بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ’اگر آپ اسے مقابلے کی طرح دیکھیں گے تو ایسا لگ سکتا ہے۔ لیکن اگر اسے مل جل کر انجام دیے جانے والے عمل کی طرح تصور کریں گے تو ایسا نہیں لگے گا۔‘
انھوں نے کہا ’کُل ملا کر جسم کے اندر کا ماحول اور اس میں ہونے والی متعدد تبدیلیاں ہی یہ یقینی بناتی ہیں کہ آپ بچہ پیدا کر سکیں، اس لیے اس ماحول کو دشمن نہیں سمجھنا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا ’اگر آپ اسے خواتین کے نظریے سے دیکھیں گے تو لگے گا کہ بیضہ دانی میں وہ سب کچھ صحیح صحیح ہو رہا ہے جو کسی عورت کو ماں بننے میں مدد کرتا ہے۔
حمل کے بارے میں کافی معلومات پہلے سے ہونے کے باوجود بہت کچھ ایسا ہے جو گذشتہ چند دہائیوں میں ٹیکنالوجی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہم پتا لگا پائے ہیں۔ مثال کے طور پر سپرم کی موٹیلٹی یعنی اس میں حرکت کی صلاحیت۔
امریکی سماجی اُمور کی سائنسدان ایمیلی مارٹن کی تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کس طرح تولیدی صلاحیت سے متعلق تحقیقات میں ایسی زبان کا استعمال ہوتا رہا ہے جو سماج میں جنس کی بنیاد پر تفریق کو فروغ دیتی ہے۔
سنہ 1990 میں شائع ہونے والی اُن کی ریسرچ میں بتایا گیا تھا کہ سائنسی رپورٹس میں بھی کس طرح کچھ باتوں کو جنس سے جوڑ کر بتایا جاتا ہے۔ ان کی اس ریسرچ کا ذکر اکثر فیمینزم کی لڑائی میں بھی کیا جاتا ہے۔
کرسٹین ہک کا خیال ہے کہ ’سائنس کے شعبے میں اگر خواتین اور مردوں کی نمائندگی برابری سے نہیں ہو گی تو اس کا اثر اس بات پر بھی پڑے گا کہ ہم اپنی تحقیق میں کون سے سوال پوچھ رہے ہیں اور کن کے جواب ڈھونڈ ہی نہیں رہے۔‘
ہیزن کا خیال ہے کہ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم کن الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس معاملے میں زرخیزی یا تولیدی صلاحیت کے بجائے حمل جیسے الفاظ استعمال کیے جانے چاہییں۔