’چھڑی سے گھڑی تک‘

کیا بدقسمتی ہے اس قوم کی کہ کیا سیلاب، کیا طوفان۔ تعلیم، صحت، بڑھتی ہوئی آبادی ،ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور آنے والے ’’سونامی‘ ‘کی آمد مگر یہ ہمارے مسائل ہی کہاں ہیں! ہمارا اولین مسئلہ ہے ’’گھڑی اور چھڑی‘‘۔

امید ہے یہ اہم ترین تقرری جس پر نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری سیاست گھومتی ہے وہ اس جمعہ تک حل ہو جائےگی اور موجودہ آرمی چیف چھ سال بعد جس میں تین سال ان کی توسیع کےبھی شامل ہیں وہ ’چھڑی‘ نئے آنے والے چیف کو ایک پروقار تقریب میں تھما دیں گے۔

پاکستان کے پانچ یا چھ بہترین -3اسٹار جنرلز میں سے یہ ’چھڑی‘ کسی ایک کو ملنی ہے اور پھر گاڑی کو آگے بڑھنا ہے۔ ہم نے کئی ہفتوں بلکہ پچھلے دو یا تین ماہ سے اس مسئلے کو نہ صرف موضوع بحث بنائے رکھا بلکہ دو اہم ناموں کو اس حد تک متنازع بنا دیا کہ اچھے کیریئر کے افسران پر حد سے زیادہ بات سوشل میڈیا پر چھڑ گئی اور اب تک جاری ہے۔

اس سب کی وجہ ہمارا ایک ماضی ہے جہاں ’چھڑی‘ کے ذریعہ کبھی براہ راست تو کبھی من پسند افراد کے ذریعے سیاست میں مداخلت رہی۔ اس کی تازہ مثال خود سابق وزیراعظم عمران ہیں وہ جس طرح حکومت میں لائے گئے اور جس طرح بٹھائے گئے دونوں میں کہیں نہ کہیں اس ’چھڑی‘ کا عمل دخل نظر آیا۔

ایسا ہی کچھ ہوتا نظر آیا ہے ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف اور درمیان میں حکومت بنانے اور گرانے میں۔ کبھی کوئی سوہنا منڈا تو کبھی کوئی لاڈلا۔ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو سیاست دانوں کو ذمہ داری لینا پڑے گی، طرز حکمرانی بہتر کرنا پڑے گا۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے تو بے جا مداخلت کے اصول ترک کرنے پڑیں گے۔ ورنہ یاد رکھیں گاڑی کہیں بھی اور کبھی بھی رک سکتی ہے۔ ملک نظریہ ضرورت سے نہیں آئین و قانون کی حکمرانی سے ترقی کرتے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان یہ ساری باتیں کرتے تو ہیں مثلاً مجھے اقتدار ملا اختیار نہیں، ساری اہم تقرریاں مثلاً چیئرمین نیب، چیئرمین الیکشن کمیشن ’ان‘ کے کہنے پر ہوئیں، اختلاف پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ISI کے سربراہ کے مسئلے پر ہوا۔ یہ ساری باتیں وہ کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ آئندہ میں اختیار کے بغیر اقتدار نہیں لوں گا۔

یہ وہ باتیں ہیں جو سب غلط نہیں مگر جب وہ یہ بات کرتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے، چلو مان لیں مجھے ہٹانے میں کردار نہیں ادا کیا تو انہیں روکا کیوں نہیں، تو وہ خود ہی اپنی بات کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ’سلو لانگ مارچ‘ کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی طرف کر دیا ہے جہاں وہ عین اس وقت داخل ہوں گے جب یا تو نئے آرمی چیف کا اعلان ہوگیا ہوگا یا کم از کم نام سامنے آجائے گا۔

یعنی 26 نومبر کو خان صاحب پنڈی میں ہوں گے اس انتظار میں کہ آنے والی اسٹیبلشمنٹ سے کس طرح اپنی بات منوائی جائے کہ موجودہ حکومت کو ’چھڑی‘ کے ذریعہ مجبور کیا جائے کہ فوری الیکشن کروائے اور اگر ’گرین سگنل‘ مل گیا اور نئی تقرری ان کی مرضی کی نہ ہوئی تو دوسرے کی مرضی والے کی بھی نہیں ہوئی تو اسے ہی وہ اپنی کامیابی سمجھ کر عین ممکن ہے اسلام آباد جانے کا ارادہ ہی ترک کر دیں۔

ہماری سیاسی تاریخ میں میاں نواز شریف نے سب سے زیادہ آرمی چیف لگائے۔ لہٰذا چیف لگانے کی حد تک ان کا گہرا تجربہ ہے ۔یہ الگ بات کہ کسی ایک کے ساتھ بھی ان کی بن نہ پائی جس میں کچھ قصور ان کا اور کچھ سابق چیف صاحبان کا بھی ہے۔ 70 کی سیاست کچھ اور تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ ان کا ایک متنازع فیصلہ جنرل ضیاالحق کو سات جرنیلوں پر ترجیح دے کر چیف آف آرمی اسٹاف لگانا تھا جس کا اصل پس منظر یہ ہے کہ یہ فیصلہ انہوں نے اس وقت اردن کے شاہ حسین کے کہنے پر کیا۔ یہ بات مجھے بھٹو صاحب کے ساتھی اور اس وقت سندھ کے وزیر جناب کمال اظفر نے بتائی کہ وہ خود اس وقت ان کے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ پھر کیا تھا ’چھڑی‘ نے اپنا کام دکھا دیا۔

اس سے پہلے انہوں نے ٹکا خان کو چیف لگا کر بھارت کو ایک پیغام دیا مگر اس تقرری کو سابقہ مشرقی پاکستان میں قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا گیا۔ اس سے پہلے ایوب خان نے تو وہ کھیل کھیلا کہ ’چھڑی‘ کو ’ڈنڈے‘ کے طورپر استعمال کیا وہ پہلے آرمی چیف بنے جو وزیر دفاع بھی تھے۔ اب ایسی تقرری پر کون نہ مرجائے اے خدا۔

اب آپ ’چھڑی‘ کی طاقت دیکھیں کہ مشرف کے ’جان نثار‘ جرنیلوں نے دوتہائی کی اکثریت والے وزیراعظم کو گھنٹوں میں فارغ کر دیا۔ کیسا آئین اور کہاں کا قانون۔؟ مگر اقتدار کی لذت ایسی ہوتی ہے کہ کوئی آسانی سے نہیں جاتا خاص طور پر اگر طاقت کا سرچشمہ قانون نہیں صرف ’ڈنڈے‘ کی طاقت ہو۔ آنے والے حالات میں مشرف نے 9 سال بعد اقتدار اس وقت چھوڑا جب ’چھڑی‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے پاس آئی ان کو بھی پورے تین سال کی توسیع ملی۔ جنرل راحیل وقت پر گئے کیونکہ میاں صاحب توسیع کے حق میں نہیں تھے اور یوں دور جنرل باجوہ کا شروع ہوا۔

اب تاریخ خود ان چھ سال پر اپنا فیصلہ دے گی، اگر ادارے نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کرنی تو خدا کیلئے عمران خان ان کو اس پر قائم رہنے دیں۔ یا تو 2023میں اکتوبر کے الیکشن میں جائیں اور بااختیار وزیراعظم بنیں یا اسمبلیوں میں جا کر اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں ’گھڑی‘ کا مسئلہ خود حل ہو جائے گا۔ رہ گئی بات ’چھڑی‘ کی تو ہمیں تو بھائی اپنے اسکول کے پرنسپل کی چھڑی یاد ہے۔ سردیوں میں خاص طور پر جب کسی شرارت پر پڑتی تو مت پوچھیں کیا کیفیت ہوتی تھی۔ شاید ہی اسکولوں کے ہیڈماسٹر کی چھڑی یا ڈنڈا کوئی بھول سکتا ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ کوئی شرارت نہ ہو ویسے بھی پنڈی اور اسلام آباد میں سردی ہے۔

ہمارے پرنسپل جب ریٹائر ہوگئے اور انہوں نے اپنی چھڑی کسی اور کو تھمادی تو ایک بار ہم اسکول کے دوستوں سے کہنے لگے کہ ’چھڑی‘ کا بھرم قائم رہےتو بہترہوتا ہے استعمال زیادہ ہو تو وہ اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے