دل یا شکم؟

میں علامہ شکم پرور لدھیانوی پر بہت سے کالم لکھ چکا ہوں جو آج پھر یاد آ رہے ہیں۔ علامہ صاحب مہمان نواز بھی بہت ہیں جب کبھی میری طرف تشریف لاتے ہیں بیٹھتے ہی پوچھتے ہیں، ’’چائے پیو گے‘‘اور اگر کھانے کا وقت ہو تو پوچھیں گے ’’کھانا کھائو گے‘‘ اور پھر میرے جواب کا انتظار کئے بغیر میرے خانساماں کو چائے یا کھانے کا آرڈر جاری کردیتے ہیں۔ اسی طرح جب کبھی میں ان کی طرف جاتا ہوں وہ مجھے دیکھتے ہی کہتے ہیں ’’چائے پیو گے؟ نہیں، اچھا‘‘ اور یوں سارے مرحلے ایک ہی سانس میں خود طے کرکے اطمینان سے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کسی دن زیادہ موڈ میں ہوں تو مجھے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے کافی ہائوس میں ملنے کی دعوت دیتے ہیں اور جب بل آتا ہے تو کہتے ہیں ’’ایک تو میں تمہاری اس عادت سے بہت تنگ ہوں کہ تم اپنی موجودگی میں کسی دوسرے کو بل ادا نہیں کرنے دیتے، خیرجیسے تمہاری مرضی‘‘۔

علامہ صاحب حالانکہ بہت مصروف شخصیت ہیں، انہیں دن میں دس بارہ گھنٹے تو صرف کھانے پینے اور اس کے انتظام پر صرف کرنا ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود اپنے معاشرتی فرائض کی طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتے، چنانچہ کسی بچی کی بارات ہو یا کسی نوجوان کا ولیمہ ہو اپنی ہزار مصروفیات کے باوجود وقت مقررہ پر وہاں پہنچتے ہیں۔ ایک موقع پر حکومت نے شادی بیاہ پر کھانے کی ممانعت کا قانون نافذ کیا تھا، اس قانون کا نفاذ صرف ہوٹلوں اور شادی گھروں تک محدود تھا لہٰذا کسی شادی میں شرکت سے پہلے پتہ کرلیتے کہ بارات یا ولیمہ خدانخواستہ کسی ہوٹل یا میرج ہال میں تو نہیں ہے، کیونکہ علامہ صاحب ایسا عاقل بالغ شخص محض ایک پیالے سوپ کی خاطر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرسکتا۔ علامہ شکم پرور لدھیانوی اپنے اس نوع کے معاشرتی فرائض کی ادائیگی کے دوران اَنا یا عزت نفس کو بھی درمیان میں حائل نہیں ہونے دیتے، چنانچہ وہ اس نوع کی تقریبات میں شرکت کے لئے دعوت نامے کا انتظار نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے تکلفات کے قائل نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیںگو متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ اس ضمن میں میزبان ان کا ہم خیال نہ نکلا مگر علامہ صاحب نے اس اختلاف رائے کا کبھی برا نہیں منایا بلکہ ایسے موقع پر وہ میزبان کے ہتھ چھٹ ملازموں سے الجھے بغیر نہایت خوشدلی سے تقریب سے اٹھ کر باہر آگئے۔

علامہ شکم پرور لدھیانوی رسم قل اور چہلم وغیرہ میں بھی باقاعدگی سے شرکت فرماتے ہیںاور اس حوالے سے انہوں نے کبھی اپنے پرائے کی تمیز نہیں کی، بلاناغہ اخبار کا مطالعہ ان کے معمولات میں شامل ہے اور اس میں بھی سب سے پہلے وہ قل او ر چہلم کے اعلانات پڑھتے ہیں ۔ یہاں انہیں کبھی کسی تنگ دل مہمان سے پالا نہیں پڑا بلکہ ایسی تقریبات میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ہمارے درمیان بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایسے مواقع پر میزبان کی طرف سے سجائے گئے دستر خوان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے، ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ لواحقین کے غم میں شرکت اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے یہاں آئے ہیں کھانا کھانے کے لئے نہیں آئے۔ لیکن علامہ صاحب کا نظریہ اس حوالے سے مختلف ہے ان کا خیال ہے کہ اس موقع پر مہمان جتنا زیادہ کھا لیں گے مرحوم کی روح اتنی زیادہ خوش ہوگی چنانچہ وہ اس وقت تک مرحوم کی روح کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں جب تک مرحوم کی بے چین روح ان کے گرد منڈلانے نہیں لگتی۔

علامہ صاحب پیشے کے لحاظ سے بزنس مین ہیں اور ان کا بزنس خطابت ہے وہ اعلیٰ درجے کے مقرر ہیں۔ اپنی خطابت کےآغاز میں سرکلر روڈ پر اپنی خطابت کے بل بوتے پرہی روزانہ ’’سینکڑوں‘‘ روپے کی مقوی ادویات فروخت کرتے تھے ، بعد میں وہمی قسم کے غیر مطمئن گاہکوں کی وجہ سے انہیں یہ سلسلہ ختم کرنا پڑا۔ ان دنوں وہ سیاسی اور مذہبی اجتماعات میں پرجوش خطابت کے جوہر دکھاتے ہیں۔ وہ ہنسانے والی تقریر بھی کرتے ہیں اور رلانے والی تقریر میں بھی یکتا ہیں۔ دونوں کی فیس الگ الگ ہے۔گزشتہ قومی انتخاب اور بلدیاتی انتخابات میں ان کی بہت مانگ تھی ،ان کے اپنے قول کے مطابق انہوں نے اس دوران ریکارڈ بزنس کیا ،وہ کسی بھی موضوع کی حمایت یا مخالفت میں یکساں جوش و خروش کے ساتھ بول سکتے ہیں صرف دو موضوعات ایسے ہیں جن پر ان کے موقف میں کبھی لچک ، تبدیلی یا کمزوری نظر نہیں آئی، اول الذکر ہماری وہ معاشرتی رسوم ہیں جن پر ہم لوگ صرف کھانے پینے پر بے شمار پیسہ خرچ کردیتے ہیں، عام لوگ اسے اسراف سمجھتے ہیں جبکہ علامہ شکم پرور لدھیانوی کے نزدیک جو لوگ یہ بات کہتے ہیں وہ قوم کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ علامہ صاحب کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کا کوئی موقع نہ بھی ہو تو بھی پیدا کرنا چاہیے کہ صرف اسی صورت میں ہم طاقتور قوم بن سکتے ہیں۔

علامہ صاحب کا دوسرا ’’ناقابل تبدیل‘‘ موقف علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقبالؒ ایک غیر حقیقت پسند شاعر تھے۔ انہوں نے :

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

ایسی باتیں کرکے قوم کو الجھانے کی کوشش کی کیونکہ دل یاشکم میں سے کسی کا ساتھ دینے کا معاملہ ہو تو ظاہر ہے شکم ہی کا ساتھ دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح وہ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کے بھی بہت بڑے ناقد ہیں مجھے ان کی یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتےہیں۔ چنانچہ ان کی پوری زندگی شکم پروری میں بسر ہوئی اور اس ضمن میں انہوں نے کبھی عزت نفس ، حلال، حرام، غیرت اور اَنا وغیرہ کے کلیشوں کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔

میں آپ کو علامہ شکم پرور کے بارے میں ابھی مزید بہت کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن باہر گھنٹی بجی ہے میرا خیال ہے علامہ صاحب آئے ہیں کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ان کا فون آیا تھا، وہ پوچھ رہے تھے ’’کھانا کھائو گے؟‘‘۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے