تجدیدِ عذر خواہی

تجدیدِ عذر خواہی

یہ نئے مِیل کا پتھر بھی

بس اک چشمِ زدن میں گزرا

روزنِ کوچۂ دل کی کئی درزوں سے

لپکتی ہوئی پسپائی کی شب

افُقِ چرخِ تمنا پہ

ابھرتے ہوئے تسخیر کے چاند

اسی پسپائی و تسخیر کی تکرار کے لمحوں سے

سلگتے ہوئے

یہ تیرہ برس

تم ٹرائے کی سی ہیلن سا غم افروز سراپا لئے
سرگرداں،
کہیں اپنے تصور میں
مِنیلوس کی تصویر کے گرد
(وہی چہرہ کہ جو اقلیمِ تمنا کے

فلک بوس مناروں کو فروزاں کر دے

وہ تبسم کہ جو رفتارِ زمانہ کو
فقط وعدۂ بوسہ سے گریزاں کر دے)
وہ گلوگیر سے شکوے
کہ ’’تقاضائے مسیحائی سے پہلے ہی
سلگتی سی جبیں پر مری
اک دستِ شفا
کیوں نہیں رکھ سکتے تم؟‘‘
وہ تراشیدہ سی آہیں کہ
’’کہیں کاش
کبھی مجھ پہ کوئی نظم بھی
لکھ سکتے تم!‘‘
کون جانے کہ ہماری یہ کتھا
کیسے،
کہاں،
کون سی منزل پہ نئی کروٹ لے؟
میں جو کردار بھی،
قاری بھی ہوں
اس کیف میں ڈوبی ہوئی اسطورہ کا
(میں کہ اک سوختہ جاں)
میں ہوں کہاں پیکرِ گم گشتہ
تری دیدِ تصور میں نہاں راہوں کا؟
آج اس تیرہَویں سنگِ مسافت کے
نگاہوں میں ابھرتے ہی
پھر اک بار
اُسی بھولے ہوئے
عذر کی تجدید
تری لوحِ تقاضا پہ رقم کرتا ہوں:
نہ مری جاں
میں مِنیلوس نہیں!
میں تو سِسی فس ہوں
(وہ معذوبِ گراں باریٔ امکاں
وہ زمینوں کے،
زمانوں کے خداؤں کا لعیں
اوجِ تماشائے طلب گاریٔ انساں)
ترا معتوبِ پریشاں
یہ سِسی فس
جو کئی جُگ سے
ترے صخرۂ اثقالِ محبت کو اٹھائے
(یونہی خوابیدہ و مسحور)
بس اک سیرِ مسلسل میں گرفتار،
بدن زار
کسی سلسلۂ کوہِ تمنا پہ
چڑھے جاتا ہے
اک قدم اور
پھر اک اور
پھر اک اور بڑھے جاتا ہے
_________________
(عاصؔم بخشی ۔ ۷ جنوری ۲۰۱۵)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے