بزرگو کیا حال ہے؟

اللہ جانے کون لوگ ہیں جو بڑھاپے سے شرماتے ہیں لگتا ہے انہیں وہ ’’عزت‘‘ درکار ہی نہیں جو ہمارے معاشرے میں بوڑھوں کو ملتی ہے۔ ان نادانوں کو کوئی بابا جی کہہ دے تو یہ حفیظ جالندھری کا گیت ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ لہک لہک کر گانے لگتے ہیں ،اس دوران بعض اوقات ان کی بتیسی باہر آجاتی ہے جس پر بچے بڑے خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں جس کا یہ برا مان جاتے ہیں، بس میں سوار ہوتے وقت جب انہیں کوئی سہارا دیتا ہے تو انہیں برا لگتا ہے کہ ابھی تو وہ جوان ہیں ۔ایک دفعہ میں نے ایک شدید قسم کے بوڑھے کو بابا جی کہہ دیا تو اس نے مجھے بے نقط سنائیں۔ اس پر میں نے انہیں بابا جی کی بجائے کاکا جی کہہ دیا تو وہ اس پر بھی مرنے مارنے پر تیار ہو گئے پھر میں نے ان کے لئے ایک درمیانہ لفظ تلاش کیا اور کہا، ’’واہ اوئے جواناں دل خوش کر دتا ای ‘‘ مگر انہیں اس میں طنز کی آنچ محسوس ہوئی تب میں نے اپنے سارے الفاظ واپس لئے اور معافی مانگی جس پر انہوں نے خوش ہو کر مجھے دعائیں دیں مگر برا ہو میرے حافظے کا کہ اس پر بھی میرے منہ سے ’’شکریہ بابا جی ‘‘ کے الفاظ ہی برآمد ہوئے ۔

تاہم سب لوگ ایسے نہیں ہیں آپ مجھ کو دیکھ لیں میں بھی عمر کے اس حصے میں ہوں جب لوگ اسی کی عزت کرتے ہیں جس کی عزت زندگی بھر کسی نے نہیں کی ہوتی۔ مجھے تو جب کوئی بابا جی کہتا ہے تو میں اس کے سر پر کچھ اس طرح ہاتھ پھیرتا ہوں کہ صبح بال سنوارنے پر اس نے جتنا وقت صرف کیا ہوتا ہے وہ یہی چشم زون میں زیرو زبر ہو جاتا ہے اور وہ آئندہ کے لئے اس ادب وآداب سے تو بہ تائب ہو جاتا ہے تاہم اگر کسی کے دل میں بزرگوں کے لئے بہت زیادہ عزت ہے تو وہ نتائج سے بے پروا ہو کر مجھے ’’بابا جی ‘‘ کہہ دیتے ہیں جس پر میں ان نوجوانوں کا کاندھا تھپتھپاتا ہوں جس کے نتیجے میں وہ وہیں بیٹھ جاتا ہے اور میں اسے اٹھا کر اس کا دوسرا کاندھا تھپتھپانے لگتا ہوں تو وہ وہاں سے ’’دڑکی ‘‘ لگا دیتا ہے ایسے بزرگ دنیا میں کتنے ہوں گے جو بابا جی کا لفظ سن کر بد مزا نہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں صرف خوش نہیں ہوتے بلکہ اتنے خوش ہوتے ہیں کہ اپنی خوشی کی تاب نہیں لا پاتے۔ اللہ اللہ مجھ ایسے صاحب ظرف اور خود شناس لوگ اب دنیا میں کتنے رہ گئے ہیں ۔

صرف یہی نہیں بلکہ اگر کوئی اجنبی بھی مجھے ملنے آیا ہو تو میں اپنی عمر کے تقاضے اس سے نہیں چھپاتا میں اسے بٹھاتا ہوں اور اس کے لئے چائے کا آرڈر دیتا ہوں، اس دوران اپنے بیٹے کو بلاتا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ وہ میرے لئے صبح کا ناشتہ لے کر آئے چنانچہ وہ باری باری مختلف چیزیں میرے سامنے لاکر رکھ دیتا ہے پہلے وہ کھانسی کی ادویات لاتا ہے اور اس کے بعد سانس پھولنے کی پھر میں اسے گھٹنوں کے درد کی ٹیبلٹس لانے کے لئے کہتا ہوں اور اس کے بعد ڈپریشن کی دوا بھی آ جاتی ہے بعدازاں بلڈپریشر اور ہارٹ کی میڈیسن لیتا ہوں اور ملٹی وٹامن بھی، یہ سب کچھ دیکھ کر وہ اجنبی پریشان ہو جاتا ہے اور کہتا ہے بابا جی آپ روزانہ اتنی ساری ادویات لیتے ہیں جس پر میں شفقت سے اس کی کمر تھپتھپاتا ہوں اور وہ کبڑوں کی طرح چلتا ہوا نکل جاتا ہے حالانکہ اس کے کپ میں ابھی آدھی چائے باقی ہوتی ہے ۔

مگر میری عظمت کی کہانی یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس پر صفحات کے صفحات لکھے جا سکتے ہیں۔ میںجب بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر بیٹھا ہوتا ہوں تو بس آنے سے پہلے کسی نوجوان سے گپ شپ شروع کر دیتا ہوں اور اس سے اتنی دوستی گانٹھ لیتا ہوں کہ جب بس آتی ہے تو میں دوستانہ انداز میں اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر بلکہ سارا وزن اس کے کاندھوں پر ڈالتے ہوئے بآسانی بس میں سوار ہو جاتا ہوں اور یوں کسی کو میری ’’بزرگی‘‘ کا شائبہ تک نہیں گزرتا اگر اس نوجوان کا اسٹاپ میری منزل سے پہلے آ جاتا ہے اور میں اس ’’بھری دنیا‘‘ میں تنہا رہ جاتا ہوں تو کوئی ایک دو ’’بھاڑو‘‘ تلاش کرنے لگتا ہوں اگر سابقہ دوست کی سیٹ پر آنے والے کی منزل بھی وہی ہے جو میری ہے تو میں اس سے دوستی گانٹھ لیتا ہوں اور اسے اپنی طاقت کے من گھڑت واقعات سناتا ہوں جس سے وہ بہت مرغوب ہوتا ہے اگر اس مسافر نے بھی مجھ سے پہلے یا بعد میں اترنا ہو تو میں اگلی سیٹ پر بیٹھے یا کھڑے مسافروں کو ٹٹولتے ٹٹولتے بالاخر مستقبل قریب کے اس ’’دوست‘‘ کو تلاش کر لیتا ہوں اور اپنا اسٹاپ آنے پر اپنے عزیز دوست کا ہاتھ فرط جذبات سے پوری مضبوطی کے ساتھ تھام لیتا ہوں اور بآسانی بس سے اترنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں تاہم اللہ کا شکر ہے کہ میں نے کبھی اپنی ان خداداد صلاحیتوں پر غرور نہیں کیا۔

اس کے باوجود اگر کوئی کمزور بینائی کا نوجوان مجھے بوڑھا سمجھ کر ’’بزرگو‘‘کہنے کی غلطی کرتا ہے تو میں اس کا شکریہ اسی طرح ادا کرتا ہوں جس طرح ادا کرنے کا حق ہے میں نے یہ کالم بھی اس لئے لکھا ہے کہ جو نہیں جانتے وہ جان جائیں کہ زبان سے غیر محتاط لفظ ادا کرنے سے پہلے سوچنا کتنا ضروری ہے۔اور آخر میں ایک انگریزی محاورہ کہ ’’بڑھاپے میں پریشان نہ ہوں ،پریشانی بوڑھی سوچوں پر ہونی چاہئے ‘‘وماعلینا الالبلاغ

آخر میں خالد نعیم شاہانی کی ایک غزل کے چند اشعار اور ان میں سے ہر شعر حساس دلوں کو تڑپا دینے والا ہے ،ملاحظہ فرمائیں،

خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے

غم زیادہ ہیں لفافے میں… نہیں آئیں گے

مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی

درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے

صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے