درد کی دوا!

چند روز قبل امریکہ سے آئے ہوئے میرے دوست اور سینئرجرنلسٹ آفاق خیالی اور ایک دوسرے ممتاز صحافی احمد وقاص ریاض میرے دفتر میں تشریف فرما تھے ۔آفاق خیالی اپنے جلالی انداز میں بہت معقول باتیں کر رہے تھے اور میں اور وقاص ان کی جلی کٹی سچی باتیں سن رہے تھے کہ اللہ جانے وقاص کو کیا سوجھی کہ مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے کہ آپ نے بہت عرصے سے سیاسی کالم لکھنا کیوں ترک کر دیا ہے؟ میں نے عرض کی برادر’’ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی‘‘ ان دنوں سینکڑوں لوگ کالم لکھ رہے ہیں چلیں محتاط انداز میں کہیں تو یہ کالم چھپ رہے ہیں دوسری طرف کروڑوں لوگ فٹ پاتھوں پر بیٹھے سیاست سیاست کھیل رہے ہوتے ہیں میں یہ سب کچھ اپنے اندر ہضم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ،جب میرا ہاضمہ ٹھیک ہو جائےگا تو کالم لکھنا کون سا کوئی مشکل کام ہے ،میں بھی لکھنا شروع کر دوں گا ۔

سو اس روز کی گفتگو کے بعد آج کہیں جاکر میرا ہاضمہ درست ہوا ہے چنانچہ اب مجھے ہر طرف سیاست ہی سیاست نظر آ رہی ہے ۔2018ء یاد آ رہا ہے جب کچھ جنرلز نے پی ٹی آئی کو پاکستانی قوم پر مسلط کیا اور اس کے بعد 9مئی 2023ء کا سیاہ دن آیا، جب اس پارٹی نے فوجی تنصیبات کو نذر آتش کر دیا، شہدا کی یادگاروں کی تذلیل کی گئی ،پاکستانی پرچم اتار کر وہاں پی ٹی ا ٓئی کا پرچم لہرا دیا گیا۔ لاہور کے کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور بہت اہم دستاویزات بلوائی ساتھ لے گئے ۔لوٹ مار الگ کی گئی ریڈیو پاکستان پشاور کو جلا کر راکھ کر دیا گیا، تاریخی ویڈیوز اور آڈیوز بھی اس تباہی کی زد میں آئیں، سرکاری گاڑیاں نذرآتش کی گئیں عام لوگوں کی موٹر سائیکلیں اور کاریں تباہ برباد کر دی گئیں،ایسے مناظر کسی احتجاج کے نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی کسی بغاوت کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں ۔

میں نے غلطی کی ہے جو یہ سب دلدوز واقعات بیان کئے کہ ٹی وی چینلز روزانہ دن میں کئی دفعہ یہ مناظر دکھاتے ہیں میرے خیال میں اتنی کثرت سے یہ سب کچھ نہیں دکھانا چاہئے کہ اس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، اس کی بجائے سخت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت یا کوئی اور ادارہ سوسائٹی کے منتخب افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دے جس میں ماہرین ِنفسیات سوسائٹی کے ’’نارمز‘‘ پر نظر رکھنے والے پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار کے کھوجی، یونیورسٹی کے اساتذہ اور عوام کی اجتماعی نفسیات سے واقف سرکردہ افراد شامل ہوں، یہ ایک متعین وقت میں رپورٹ مرتب کریں، جس میں اس بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے کہ ایک شخص جوبرس ہا برس کےپی کے میں تمام تر اختیارات کے ساتھ حکمرانی کرتا رہا، ساڑھے تین سال پنجاب میں بھی ڈٹ کر حکمرانی کی اور اس تمام عرصے میں اپنا ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔

نہ پچاس لاکھ نوکریاں ملیں، نہ ایک کروڑ مکان بنائے، نہ گورنر ہائوسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کیا، نہ سائیکل پر دفتر گیا، صرف چور چور، ڈاکو ڈاکو کہتا رہا۔ کبھی فوج کے قصیدے پڑھتا رہا، کبھی فوج کو گالیاں دیتا رہا۔ ہر دوسرے دن یوٹرن لیتا رہا۔ نہایت مضحکہ خیزطریقے سے تاریخ اور جغرافیہ میں اپنی مرضی سے رد و بدل کرتا رہا۔ پوری قوم کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا، اہل خانہ کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیا۔ 2017ء میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو برسراقتدار آنے کے بعد عوام کی دسترس سے باہر کردیا۔ دوست ملکوں کو پاکستان سے دور کرنے کی کوشش کی،لوگوں کو یہ باور کرا دیا کہ وہ ایک روحانی شخصیت ہے چنانچہ اس کے بعض پیروکاروں نے اسے(معاذاللہ) پیغمبر ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔

ان سب منفی باتوں کے ہوتے ہوئے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد جن میں بہت پڑھے لکھے لوگ بھی شامل تھے آخر کیسے اس کے جال میں آگئے،اس کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی تھی کہ بھٹو کی پھانسی پر عوام نے پرامن احتجاج کی راہ اپنائی، کوڑے کھائے، پھانسی کی کوٹھڑی میں رہے مگر اس موقع پر لوگوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف زہر بھرنے کی بجائے آصف علی زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر صورت حال کو تباہی کی طرف جانے سے بچا لیا۔

بے نظیر بھٹو کے وحشیانہ قتل پر بھی ان کے چاہنے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے وہ راہ نہیں اپنائی جو عمران خان نے 9مئی کو منتخب کی۔اس کے علاوہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنمائوں اور ان کے کارکنوں کے ساتھ گزشتہ 75 برسوں میں جو بہیمانہ سلوک ہوتا رہا ان میںسے کسی نے پاکستان اور اس کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ جمہوریت کے پرامن راستے پر چلتے رہے، چنانچہ ضروری ہے۔ ماہرین معاشیات، ماہرین شماریات، ماہرین نفسیات اور ماہرین ابلاغیات پر مشتمل کمیشن اس حوالےسے اپنی رپورٹ جتنی جلدی ممکن ہو تیار کرکے متعلقہ محکمے کو پیش کرے۔

دوسری طرف یہ بھی دیکھ لیں کہ آندھی کے جھکڑ سے گملوں میںلگائے گئے نمائشی پودے ایک دم سے تتر بتر ہوگئے ،کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ ایک ناقص لیڈر اس کی جماعت کے ابن الوقت عہدیدار، اب کوئی اور پناہ گاہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اللّٰہ ان سب کو ہدایت دے جو میرے پیارے پاکستان کی تباہی میں دانستہ یانادانستہ شریک ہیں، لیکن شاید یہ کام دعائوں سے نہیں ’’دوائوں‘‘ سے ہوگا جس کے بارے میں مسلسل سننے میں توآ رہا ہے، مگر نہ آئی اور نہ شاید کبھی آئےگی…. یہ دوا تعلیمی اداروں میں پاکستان کی نصابی تاریخ نہیں، اصلی تاریخ پڑھانے ہی سے کارگر ہوگی۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے