تاریک رات میں "دیا” جلانے والوں کی کہانی، کچھ ان کی کچھ میری زبانی

زندگی ایک فطری نظام ہے۔ اگر ایک بندہ یہ سوچے کہ چونکہ یہ زندگی کی روانی میری وجہ سے ہے تو یہ بہت بڑی بھول ہے کیونکہ اس جہاں میں بڑے بڑے ظالم گزرے۔ ہلاکو خان کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے انسانوں کی کھوپڑیوں سے ایک مینار بنایا تھا۔ مزید کہا جاتا ہے کہ آپ کے ظلم کی وجہ سے دریائے نیل کئی دنوں تک انسانوں کے خون کی وجہ سے سرخ بہہ رہا تھا لیکن پھر بھی انسانی نظام رکا نہیں بلکہ مزید آبادی بڑھتی گئی۔اسی لیے کہا گیا کہ یہ جہاں ایک فطری عمل ہے۔۔۔۔

اس فطری عمل میں کبھی بہت اچھے لوگ آئے اور اس دنیا کو جنت کا گہوارہ بنایا گیا۔ پھر کبھی ان اچھے لوگوں پر ظالم لوگ آئے، ان کی بھی باری آئی اور انہوں نے وہ ظلم کا نظام رائج کیا۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام سے یہ فطری نظام آ رہا ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ نظام تا قیامت ایسے ہی چلتا رہے گا۔۔۔۔

اس سارے نظام میں کچھ لوگ کامیاب و کامران لوٹے ہیں اور کچھ لوگ جو انسانیت کے لیے عذاب بنے ہوئے تھے۔ وہ ناکام اور رسوائی کے عالم میں لوٹے ، جن لوگوں نے انسانیت کی خدمت بلا تفریق نسل، مذہب، علاقے، زبان اور رنگ کے کی۔ ان کی خدمات آج بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ ہے اور تاریخ ان کے اعمال و افعال کو سراہتے رہے ۔

کہتے ہیں کہ آج کل معاشرہ بہت بدمزگی کا شکار ہے۔ ہر طرف لوٹ کسوٹ کا بازار گرم ہے۔ کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا، مکرو فریب، جھوٹ، چوری، بدتمیزی، نفرت و حقارت کا شور زور ہے۔ کوئی کسی کو صحیح راستہ نہیں دکھاتا۔۔۔۔

ایسے ماحول میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو انسانیت کی خدمت اور انسانوں کو انسان سمجھ کر جی رہے ہیں۔ وہ لوگ سوچتے رہتے ہیں کہ کیسے اس منافقت بھرے معاشرے کو سنواریں۔۔۔

اس سوچ کو لیے ہوئے ایک ادارے کا نام ” پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن "ہے۔ جس کا آفس اسلام آباد میں ہے۔ غلام مرتضی صاحب کی سربراہی میں ایک ٹیم کام کر رہی ہے۔‌وہ ٹیم اپنے آپ کو ٹیم نہیں، بلکہ ایک کنبہ اور خاندان کہتے ہیں۔ یہ خاندان حسیب اقبال، ارصہ حسیب، سبوخ سید، سمیر علی، محمد حسین، وہاج وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ اتنی حساس فیملی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مجموعی سوچ پر ایک پروگرام لانچ کیا۔‌ جس کا نام "میڈیا وائسز پار پیس” رکھا گیا۔

یہ خاندان سمجھ رہے ہیں کہ آج کل چونکہ دور میڈیا کا ہے اور معاشرے کو سنوارنے کا سب سے اچھا ادارہ شاید یہی سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا ہے کیونکہ میڈیا ایک حکومت کا چھوٹا ستون مانا جا رہا ہے۔، اسی لیے انہوں نے تمام پاکستان سے 118 میڈیا انفلوئنسرز کا انتخاب کیا اور ان کو ایک باقاعدہ ٹریننگ دی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس تاریک رات میں اپنا دیا جلائے ہوئے تھے اور شاید تھک بھی گئے تھے ۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہمارا "دیا” اس معاشرے کا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ ” پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن” نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا اور ایک کنبے کی طرح ایک مشورہ کیا کہ آپ لوگ پہلے سے معاشرے کو سنوارنے کا بہت بڑا کام کر رہے ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک خاندان بن کر ایک ساتھ مستقبل میں معاشرے میں امن لانے کے لیے کام کریں۔ چونکہ ان 118 روشنی کے جگنووؐں کو تبکی اور صحیح راستہ کی تلاش تھی۔ اس لیے ان سب نے غلام مرتضی کے خاندان کے ساتھ ایک منصوبے "صدائے امن” کے نام سے کام شروع کیا۔۔۔

جب 118 بندوں نے معاشرے میں امن کی بات کا مشورہ یعنی جرگہ کیا تو یہ سب لوگ ایک ہی مقصد پر متفق ہوئے اور وہ مقصد یہ تھا کہ معاشرے میں امن کیسے لایا جائے؟ چنانچہ لمبی بحث کے بعد ڈاکٹر سعدیہ نے ایک نام تجویز کیا "صدائے امن” کے نام سے۔

صدائے امن کی چھتری کے نیچے مختلف لوگوں کی خدمات کو اجاگر کیا جائے گا۔ پرنٹ میڈیا والے تمام پاکستان میں امن کے وہ ہیرے جنہوں نے امن کے لیے بہت کام کیا۔ ان کو مین سٹریم میڈیا تک لانے کی پوری کوشش کریں گے اور کم از کم یہی 118 میڈیا پرسن ان لوگوں کو اپنے اپنے پلیٹ فارم سے چلائیں گے۔‌اس کے علاوہ صوفی ازم کا کردار امن کے لیے ایک دوسرا گروپ اجاگر کریں گے۔ جس میں پوڈ کاسٹ وغیرہ ہوں گے۔ بڑے بڑے صوفیوں کے انٹرویوز ہوں گے کچھ گروپس کو ٹاک شوز تفویض کر دئیے گئے اور کچھ سیمینار اور ورکشاپ منعقد کریں گے۔ یہی 118 میڈیا انفلوینسرز چاہتے ہیں۔ کہ ہم غلام مرتضی کی سرکردگی میں امن کے اس پیغام کو تمام پاکستان اور بین الاقوامی پلیٹ فارم تک پہنچایں گے۔۔۔

اس لیے یہ کہا گیا کہ ” پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن ” جو کہ مثالی طور پر ایک خاندان ہے۔ امن کے اس دئیے کو اتنا روشن کر رہے ہیں اور کریں گے کہ انشاءاللہ ہر طرف روشنی اور خوشحالی ہوگی۔۔۔

دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی اس ادارے کی کاوش کو مزید ترقی دے اور اس ٹیم کی سوچ کو عملی جامہ پہنائے۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے