امریکی اسکولوں میں بچے اساتذہ کو گالیاں دیتے ہیں تو ۔۔۔۔

تعلیم و تربیت کی درس گاہیں دو ہوتی ہیں۔ خاندان اور اسکول۔
ہم پر مذہب کا سایہ ہے (سچ یہ کہ مذہب کا بھوت سوار ہے) اس لیے ہمارے خاندانوں اور تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ زور ڈسپلن پر دیا جاتا ہے۔
میں امریکا میں اسکول میں کام کرچکا ہوں اور یونیورسٹی میں پڑھ چکا ہوں۔
جن لوگوں نے صرف پاکستانی تعلیمی ادارے دیکھے ہوں، جیسا کہ میں تھا، تو امریکی اسکول کے شروع کے دن بہت پریشان کن ہوتے ہیں۔

بظاہر امریکی اسکولوں کے بچے ڈسپلن کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ہوم ورک تو خیر ہوتا نہیں، جی چاہے تو کلاس ورک سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ بہانے بناکر راہداریوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اسکول سے ملا ہوا لیپ ٹاپ پٹخ کر توڑ دیتے ہیں۔ پیٹھ پیچھے نہیں، استاد کے منہ پر بھی گالیاں دیتے ہیں۔ صرف کلاس فیلوز کو نہیں، استاد کو بھی۔
ظاہر ہے کہ سب بچے ایسے نہیں ہوتے۔ لیکن جو ہوتے ہیں، کیا ان کی پٹائی کی جاتی ہے؟ ایسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

میں نے اسکول کی جاب کی تو کوئی بیس کورس کرنے پڑے۔ بچوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے، کن حالات میں کیا برتاؤ کرنا ہے، کیسے پڑھانا ہے اور کیسے تربیت کرنی ہے، کیسے سمجھانا ہے اور کب نظرانداز کرنا ہے۔
آٹھویں جماعت کی ایک بچی بہت گالیاں دیتی تھی۔ ایک دو بار ٹیچر کو بھی دیں۔ میں نے ٹیچر سے پوچھا، آپ کیسے برداشت کرتی ہیں؟ انھوں نے کہا، یہ بہت غریب گھر کی بچی ہے۔ ماں باپ سے گھر میں گالیاں کھاتی ہے تو وہی سیکھتی ہے۔ یہ ہمارا کام ہے کہ اس کی اچھی تربیت کریں۔ جب سمجھ دار ہوجائے گی تو اپنے ماں باپ کے بجائے ہماری شکرگزار ہوگی۔

یہاں اسکول میں سب بچوں کو لنچ ملتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی اسکول کے آفس میں اسنیکس ہر وقت ہوتے ہیں۔ ٹیچرز بھی اپنی الماریوں میں کھانے پینے کا سامان رکھتے ہیں۔ کئی بار بچے کہتے ہیں کہ انھیں بھوک لگی ہے۔ ناشتہ نہیں ملا یا نہیں کیا۔ ٹیچرز پڑھائی چھوڑ کے پہلے انھیں کھانے کو دیتے ہیں۔
سچ بتاؤں، میری تنخواہ بہت کم تھی۔ لیکن روزانہ پندرہ بیس ڈالر کے اسنیکس اپنے طلبہ کو بن مانگے دیتا تھا۔

ایک دن کسی بچے نے پوچھا، آپ یہ چیزیں کہاں سے لاتے ہیں؟ میں نے کہا، کوسٹکو سے۔ اس نے کہا، میری ماں کوسٹکو میں کام کرتی ہیں۔ وہ وہاں جینیٹر ہیں، یعنی صفائی کرنے والی۔ ہمارے ہاں جنھیں ماسی کہا جاتا ہے۔ کیا ہمارے ہاں ماسیوں کے بچے بیکن ہاؤس اور سٹی اسکول میں پڑھ سکتے ہیں؟
یہاں ٹیچرز کو اس وقت تک کلاس نہیں دی جاتی جب تک وہ پندرہ سترہ کورس نہ کرلیں۔ یہ کورسز گریجویشن ماسٹرز کے علاوہ ہوتے ہیں۔ ڈسلکسیا ٹریننگ، کلچر کومپیٹنسی، چائلڈ ابیوز اینڈ نیگلیکٹ، اور فرسٹ ایڈ بھی۔
ممکن ہے کہ بچہ بھوکا رہتا ہو، گھر کا ماحول اچھا نہ ہو، ذہنی مسائل ہوں۔ ٹیچرز بچوں کے والدین سے رابطے میں رہتے ہیں۔ میں جن ٹیچرز
کے ساتھ رہا، ان سب کو اپنے طلبہ کے گھریلو حالات کا علم تھا۔ معذوری یا خراب رویے والے ہر بچے کے لیے خاص تربیت کا کورس تشکیل دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ یہاں اسکول فیس نہیں لیتے، الٹا ہر کچھ عرصے بعد ضرورت مند گھرانوں کو بلاکر راشن دیتے ہیں۔ ٹیچرز کو بچوں کے لیے اسنیکس لانے یا ان کے والدین سے رابطہ رکھنے کا معاوضہ نہیں ملتا۔ وہ اسے اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ ٹیچرز پر بچوں کو پاس کرنے کا دباؤ نہیں ہوتا، کیونکہ بچہ سارا سال نہ پڑھے تو بھی اگلی کلاس میں بھیج دیتے ہیں۔ ٹیچرز بچوں کو امتحان کے بجائے عملی زندگی کے لیے تیار کرتے ہیں۔

امریکی تعلیمی اداروں میں ڈسپلن کے بجائے میں نے جن دو الفاظ کی سب سے زیادہ اہمیت پائی، وہ کگنیشن اور کریٹیکل تھنکنگ ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کا ایک قول اس بارے میں کوٹ کیا جاتا ہے لیکن دراصل یہ سقراط کا انداز ہے۔ یعنی سوالوں کے جواب دینے کے بجائے جواب ڈھونڈنے کا طریقہ بتانا، سوچنے پر مجبور کرنا۔ میں نے پروفیشنل جرنلزم میں سیکھا کہ غیر جانبدارانہ انداز میں خبر کیسے لکھنی ہے۔ یہاں اسکول کے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ کوئی ٹیکسٹ دیکھیں تو اندازہ لگائیں کہ اس میں جانبداری تو نہیں برتی گئی؟ لکھنے بیٹھیں تو خود کو تعصبات سے پاک کرکے قلم اٹھائیں۔

آپ کے بڑے سے بڑا عالم دین، سیاست دان اور صحافی امریکی بچوں کو قائل کرنا دور کی بات، ان کے سامنے پانچ منٹ کھڑا نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہاں ڈسپلن کی نہیں، کریٹیکل تھنکنگ کی اہمیت ہے۔ اسی لیے امریکی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے سوالات سے ان کے پاکستانی والدین گھبراتے ہیں۔

ہمارے ہاں ڈسپلن کا مطلب ہے کہ آپ کچھ نہ سوچیں، کوئی سوال نہ اٹھائیں، کچھ سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔ اسکول میں ہوں تو رٹے لگائیں،
اسکول پاس کرلیں تو نعرے لگائیں۔ مذہب بھی یہی سکھاتا ہے۔ کچھ سمجھ میں آئے نہ آئے، رٹے لگائیں، نعرے لگائیں، ثواب کمائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے