انویسٹی گیشن کرلینے میں حرج ہی کیاہے!!!

بے شک آپ اسے سازشی نظریہ کہہ دیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن جب کوئی واردات ہوتی ہے تو تفتیش کاروں‌ کو مختلف زاویوں سے تفتیش کرنا ہوتی ہے۔ شکوک وشبہات یا سازشی نظریات ان زاویوں کی بنیادیں ہوتے ہیں۔ چارسدہ کی دہشت گردی پر ہمارے ہاں ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ طالبان ہی کی کارروائی ہے۔ اس طبقہ کے لوگ ساتھ یہ کہنابھی ضروری سمجھتے ہیں کہ بھارت کی طرف انگلی نہ اٹھائی جائے۔ ایک محفل میں ایک صاحب باربار آگ بگولہ ہورہے تھے کہ بھارت کا نام کیوں‌لیتے ہو۔۔۔۔۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی طبقہ بھارت میں‌ہونے والی ہر’’دہشت گردی‘‘ پر فوراّ پاکستان میں رہ کر پاکستان پر الزام دھر دیتا ہے۔ ممبئی سے پٹھان کوٹ تک ہر موقع پر ایسا ہی ہوا۔
’’ارے بھائی! کیوں نام نہ لیں بھارت کا؟‘

پٹھان کوٹ ڈرامہ کے بعد بھارتی وزیردفاع منوہر پارکر نے کہاتھا’’ ہم پاکستان میں حملے کریں گے، کب کریں گے، کہاں‌کریں‌گے، کیسے کریں‌گے، اس کا فیصلہ ہم خود کریں‌گے۔ دنیا ایک سال کے اندر اس حملے کے نتائج دیکھے گی۔‘‘
بھائی صاحب ! ہم کیا مطلب لیں‌اس بیان کا؟

بے شک آپ اسے سازشی نظریہ کہہ لیں لیکن آپ سن تو لیں، آپ نے سنا ہوگا کہ ’’بغل میں چھری منہ پہ رام رام‘‘۔ اچانک نریندر مودی سرکار اور اس کے وزرا کی آگ اگلتی زبانیں امن اور محبت کے گیت گانے لگیں، بھلا کیوں؟ ان کی وزیرخارجہ سشما سوراج شیرینی لے کر پاکستان آگئیں، بھلا کیوں؟ پھر نریندرمودی بھی اچانک لاہور میں آن اترے، بھلا کیوں؟

اس لئے کہ وہ محبت اور صلح جوئی کا تاثردے کر پاکستان کے پیٹھ میں چھری گھونپنا چاہتے تھے۔ اورپھر انھوں نے تین چھرے گھونپے۔ بھارتی وزیردفاع کی دھمکی کے بعد بھارت پاکستان میں تین حملے کرچکا ہے،چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ تیسرا تھا۔

سوال ہے کہ آخر کیوں‌نہ اس سوال کا جواب تلاش کیاجائے کہ چارسدہ یونیورسٹی کے واقعے پر کہیں بھارت تو ملوث نہیں؟
شک کرنے میں‌حرج کیاہے!!

اور اس سمت بھی انویسٹی گیشن کرلینے میں حرج ہی کیاہے!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے