دو عورتوں کی کہانی

دو عورتوں کی کہانی ..
یہ میری دو مریض خواتین کی کہانی ہے جو تقریبا ایک ہی وقت میں دوران حمل چیک اپ کے لیے میرے پاس آتی رہیں .. پھر حالات کے الٹ پھیر کا شکار ہوئیں. . دنیا نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا. .کبھی ان کے اپنے الفاظ میں اور کبھی دنیا کی زبان سے مجھ تک پہنچتا رہا. .آج آپ بھی پڑھ لیں ..

– شاید آپ میں سے کچھ ایسا کچھ اپنے اردگرد بھی دیکھ سکے ..
– شاید کوئی خاتون کسی بہتر فیصلے پر پہنچ سکے .
– شاید کوئی مرد اپنے خاندان اور اپنے بیوی بچوں کو مناسب اور متوازن رکھ سکے.
– (.. کرداروں کے نام بدل دیے گئے ہیں) .

[pullquote]پہلی عورت کہانی ..[/pullquote]

مسز پروین ذوالفقار. …اپنے دوسرے بچے کے حمل اور پیدائش کے لئے میرے پاس ریگولر چیک اپ کرواتی رہی.. فیملی ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے میں اس کے گھر کے حالات سے واقف تھی .. اکثر وہ اپنی ساس کے ساتھ آیا کرتی تھی جس سے پروین کا بہت اچھا تعلق تھا .. پروین کے سسر وفات پا چکے تھے . شوہر ذوالفقار لوکل روٹ پر ویگن چلاتا تھا ..
منجھلا دیور قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور منگنی شدہ تھا .. اس سے چھوٹا دیور مڈل کے بعد پڑھائی کو خیرباد کہہ کر چھوٹا سا زمیندارہ سنبھال رہا تھا.. نند کوئی تھی نہیں..
پروین اپنی بڑی بچی جس کی عمر دو سال تھی اور دوسرے حمل کے ساتھ شفیق ساس اور محبت کرنے والے شوہر کے ساتھ ایک بہت پرسکون زندگی گزار رہی تھی .. سسرال میں خدمت اور حسن سلوک سے سب کے دلوں پر حکومت کر رہی تھی. ..

زچگی کا وقت ہوا اور وہ میرے پاس آئی .. اللہ تعالٰی نے اسے ایک صحتمند بیٹے سے نوازا. . وقت رخصت میں نے اسے سات روز بعد دوبارہ معائنے کے لیے آنے کی ہدایت کی..
لیکن وہ دوبارہ نہیں آئی. ..بہت سے خاندان بچہ پیدا ہو جانے کو ایک عام چیز سمجھتے ہیں اور اس کے بعد کے معائنے کو غیر ضروری مانتے ہیں ..اور اگلے حمل تک کے لیے غائب ہو جاتے ہیں .. سو پروین کا نہ آنا بھی ایک ایسا ہی واقعہ سمجھا گیا .. کچھ عرصے بعد اس کے کسی پڑوسی نے مجھے اس کے شوہر کے قتل ہونے کی اطلاع دی ..سواری بٹھانے اور کرایہ طے کرنے کے تنازعے پر فوری اشتعال میں گولی چل جانے کے باعث ذوالفقار کے سر میں گولی لگی اور وہ جائے وقوعہ پر ہی جان کی بازی ہار گیا.. . دکھ بھی ہوا اور پروین کی بیوگی اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی یتیمی کا خیال بھی ذہن میں آیا .. اس سب کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی دامنگیر ہوا کہ اب در در کی ٹھوکریں پروین اور اس کے یتیم بچوں کا مقدر بن جائیں گی. .

کچھ عرصہ تک پروین میرے ذہن پر سوار رہی لیکن وقت کی گرد نے اس یاد کو دھندلا دیا ..
تقریبا دو سال بعد ایک دن اچانک پروین اپنی ساس کے ساتھ میرے پاس آئی .. وہ امید سے تھی اور پرسکون لگ رہی تھی .. مجھے خیال گزرا کہ ذوالفقار کے قتل کی خبر شاید کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو .. اب یہ سوال پوچھتے الجھن ہو رہی تھی ..آخر کسی حاملہ عورت سے اس کے شوہر کے دو سال پہلے قتل ہو جانے کے بارے میں کیسے پوچھا جا سکتا ہے. .
دوا کی پرچی لکھنے لگی تو مسز پروین ذوالفقار کی بجائے اس کا نام مسز پروین افتخار لکھوایا گیا. . اب مجھے اپنی یادداشت پر شک ہونے لگا اور میں نے پوچھا کہ مجھے تو ذوالفقار نام یاد ہے. ایک دم پروین اور اس کی ساس خاموش ہو گئے اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں. .. ساس روتی ہوئی اٹھ کر آفس سے باہر چلی گئی ..

تب پروین نے بتایا کہ میرا شوہر زوالفقار قتل ہو گیا تھا .. تب میرا بچہ سات دن کا تھا. . میرے میکے والے مجھے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن میرے بچوں کو جتنی عزت اور محبت اپنے ددھیال میں مل سکتی تھی وہ ننھیال میں نہ ملتی .. میں تو تنہا ہو چکی تھی اب بچوں کے لیے زندگی بسر کرنا تھی. سو میں نے سسرال میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ..
عدت گزرنے کے بعد میری ساس نے مجھے اور میرے دیور وں کو بلایا اور ان کے سامنے مجھے کہا کہ تم میری بڑی بہو ہو اور ہمیشہ بڑی بیٹی ہی کی طرح تمہیں سمجھا ہے .. میرے یہ دونوں بیٹے حاضر ہیں تم جس کا نام لو گی میں اس سے تمہارا نکاح کروا دیتی ہوں. .. . میں نے اپنی ساس سے کہا کہ میرا بچہ چھوٹا ہے میں اسے دودھ پلاتی ہوں. . ابھی میرا غم بھی تازہ ہے مجھ سے ابھی ایسی کوئی بات نہ کریں .. وہ سب چپ ہو گے

زوالفقار کی پہلی برسی کے بعد یہی سوال دوبارہ پروین کے سامنے رکھا گیا .
منجھلے دیور کی دوران تعلیم ہی اس کی پسند سے منگنی کی جا چکی تھی اس پسندیدگی سے پروین واقف تھی. . ان نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں نے تو بچوں کے لیے قربانی دینی تھی. . بڑا دیور کیا اور چھوٹا کیا .. میں نے کسی کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور چھوٹے دیور کے لیے ہاں کر دی.. میرا بیٹا اسے ویسے بھی پاپا کہہ کر پکارتا تھا .. میں نے اسے بھی خدائی اشارہ جانا ..میرے نکاح کے بعد اور منجھلے دیور کی شادی کے بعد میری ساس نے سب پر واضح کر دیا تھا کہ نسرین میری بڑی بہو ہے اور بڑی ہی رہے گی .. کوئی یہ نہ سمجھے کہ اب چھوٹے سے بیاہی گئی ہے تو اس کا درجہ گھٹ گیا ہے .. .آج اللہ کے فضل سے میں اپنے گھر میں خوش ہوں ..

ساس جو کمرے میں واپس آ چکی تھی اس نے کہا ..ڈاکٹر صاحب میں جانتی ہوں کہ پروین کے دل میں آج بھی زوالفقار بستا ہے. . میں اس کے غم اور قربانی سے واقف ہوں اور اس سے راضی ہوں..
ہاں میں اور پروین اکیلے بیٹھ کر کبھی کبھی زوالفقار کو یاد کر کے رو لیتے ہیں..
.. میں نے تیس سال بیوگی کاٹی ہے میں جانتی ہوں کہ بیوگی کا دکھ کیا ہے بھلا میں اپنے پوتوں کو یتیم کیسے رہنے دیتی. . پروین جوان ہے اس کی کہیں اور شادی ہو جاتی تو میرے پوتے رل جاتے. . میرے بیٹوں سے زیادہ کوئی ان بچوں کو اپنا نہیں بنا سکتا تھا. .چچا ہی سہی ..لیکن خون تو ایک ہے نا

[pullquote]دوسری عورت کہانی. . .[/pullquote]

مسز سکینہ اشفاق( فرضی نام ) اپنے تیسرے بچے کی پیدائش کے لئے میرے پاس آتی تھی .. اس کے بڑے بیٹے طلحہ کا علاج بھی میری زیرنگرانی ہوا تھا جب ایک سال کے طلحہ کو نمونیا بگڑ جانے کی وجہ سے چائلڈ اسپیشلسٹ نے لاعلاج قرار دیا تھا. .. تب طلحہ کو اس کی دادی اور پریشان حال باپ میرے پاس لائے تھے. . میں نے انتہائی بیمار صورتحال واضح کر کے اللہ کا نام لے کر بچے کا علاج کیا .. اور الحمدللە طلحہ کو رب کریم نے شفا عطا کی .. . بس اس واقعے نے اس فیملی کو میرا معتقد کر دیا تھا اور میں ان کے گھرانے کے بیشتر افراد سے نا صرف واقف ہو گئی تھی بلکہ ان کے چھوٹے موٹے خانگی مسائل میں ثالث اور منصف بھی ٹھہرائی جانے لگی تھی. .

سکینہ کا شوہر اشفاق سات بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے بڑا تھا .. بچپن میں ہی یتیم ہو جانے والے اشفاق نے اپنی ماں کا سہارا بن کر دکھایا تھا اور محنت و مشقت کے طویل دور سے گزر کر ایک گھر اور چند دکانیں بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا .. اس تمام وقت میں وہ اپنے بہن بھائیوں کے شادی بیاہ سے بھی فارغ ہو چکا تھا . اس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے بعد اپنی شادی کے لیے ہاں کی. .بیوی بھی اچھی شکل و صورت کی اور کم عمر ملی. . اشفاق خوش تھا .. دیر سے شادی ہونے کے باعث اس کے بچے اپنے چچا زاد بہن بھائیوں سے کم عمر تھے. . واضح رہے کہ یہ تمام بھائی اشفاق کے بنائے گے گھر میں ہی رہائش پذیر تھے اور اس ہی کی دکانوں پر کام کرتے تھے. . جس کا انہیں معاوضہ ادا کیا جاتا تھا .. گھر کا بڑا ہونے کی وجہ سے گھر کا سودا سلف بھی اشفاق ڈلوایا کرتا تھا ..

اشفاق نے بہن بھائیوں سے شدید محبت کی اور کبھی اس نے اپنے بچوں اور ان میں کوئی فرق روا نہ رکھا .. اس لیے اس کے بچوں کو اس کے بھائی اپنی اولاد سے زیادہ پیارا رکھتے اور سکینہ کو کم عمر ہونے کے باوجود رشتے کی مناسبت سے بھابی ماں کہتے..
ساس کی دعاوں کا بیشتر حصہ اشفاق اور اس کی اولاد کے گرد گھومتا رہتا
سکینہ بھی خوش تھی .. عزت محبت مان مرتبہ اولاد .محبوب شوہر .. سب کچھ تھا اس کے پاس ..
کبھی کبھی دبے دبے الفاظ میں شوہر کو سمجھاتی کہ بچوں کے مستقبل کے لیے کچھ پس انداز کر لیا کریں تو وہ کبھی تو ہنس کر ٹال جاتا… اور کبھی کبھی کچھ کاغذات وہ سکینہ کے حوالے کرتا اور سنبھال کر رکھنے کو کہتا

چوری چکاری کے خطرے کے پیش نظر تمام زیور سکینہ کی ساس اپنے پاس سنبھال کر رکھتی اور موقع محل کی مناسبت سے سکینہ کو جو زیور چاہیے ہوتا وہ ساس سے مانگ لیتی .. .زندگی کا دھارا پرسکون تھا .. طلحہ بیمار ہوا تو میں ان کی زندگیوں میں داخل ہوئی اور ان کی فیملی ڈاکٹر کم اور فیملی ممبر زیادہ بن گئی. .
جس مرد کو طلحہ کے لیے شدید پریشان دیکھ کر میں طلحہ کا باپ سمجھی تھی وہ بعد میں اس کا چچا ثابت ہوا. .
میں دل ہی دل میں ان بھائیوں کی بےمثال محبت اور اتفاق کی معترف تھی ..
ان کی ماں تیز تیز لہجے میں بولنے والی گیلی گیلی آنکھوں اور کھچڑی بالوں والی سادی سی خاتون لگتی تھیں. . جو ہر وقت اپنی اولاد کے لیے دعاگو رہتی ہیں..

پھر وقت نے کروٹ لی اور اشفاق 45 سال کی عمر میں دکان پر کام کرتے کرتے پہلے ہارٹ اٹیک سے جانبر نہ ہو سکا .. صبح سکینہ سے جلد واپس آنے کا وعدہ کر کے جانے والا کبھی واپس نہ آ سکا. .
میکے والوں نے رسم کے مطابق سکینہ کو واپس چلنے کا کہا تو سکینہ کا دل نہ مانا کہ اتنے محبت کرنے والے اپنے بچوں جیسے دیور دیورانیوں کو چھوڑ کر جائے. . آخر ان میں اور اشفاق کے بچوں میں فرق ہی کیا تھا .. میکے والے دعائیں دیتے واپس لوٹ گے.

چند روز غم میں گزرے .. غم سے نڈھال سکینہ کمرے میں پڑی رہتی اور روتی رہتی. . ایک روز اس کے بچے نے آ کر ماں کا بازو ہلایا .. امی مجھے چاچی نے مارا ہے اور وہ روٹی نہیں دیتی مجھے بھوک لگی ہے. .

سکینہ اور اشفاق کا شہزادہ طلحہ بھوک اور مار کے درد سے بلک رہا تھا..
سکینہ اٹھی کہ بچے کو کچھ کھانے کو دے
کچن میں گئی تو دیورانی سالن کا ڈونگہ اٹھائے اپنے کمرے میں جا رہی تھی ..ہنڈیا خالی پڑی تھی .. سکینہ نے پکارا کہ بچے کو کھانا دو تو دیورانی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے بچوں کے لیے پکاوں یا تمہارے بچوں کا پیٹ بھروں. .
وقت کچھ اور سرکا ..تو پیسوں کی ضرورت پڑی .. ساس سے کہا تو ساس نے بڑے دیور کی طرف اشارہ کیا. . اور بڑے دیور اور اس کے بچوں کو دعائیں دینے میں مصروف ہو گئی. .. بڑے دیور سے پیسے بینک سے نکلوا کر دینے کو کہا تو اس نے جواب دیا. . بھابی روٹی پانی تمہیں ملتی رہے گی . بچوں کو پڑھاتے بھی رہیں گے. باقی روپیہ پیسا جائداد بچوں کی امانت ہے .. ان کو بڑا ہونے پر دے دیں گے .. تم چپ کر کے اپنا وقت گزارو .. جو چاہیے ہو ہم میں سے کسی کو کہہ دیا کرو .ہم تمہیں لا دیں گے. . کم عمر کم تعلیم یافتہ دکھ سے چور سکینہ کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی اور جیسے تیسے وقت گزارنے لگی. . زیور ساس کے پاس اور جائداد اور پیسا دیوروں کے پاس تھا .. سودا سلف کے لیے کسی دیور کو پکارتی تو اس دیور کی بیوی کا موڈ خراب ہو جاتا اور اس دن گھر میں لڑائی ہو جاتی…
دیورانیاں اپنے شوہروں کو بیوہ کم عمر خوبصورت جٹھانی سے بچانے لگیں .. بیوہ سکینہ اپنی راجدھانی میں قید تنہائی کا شکار ہو گئی .
سکینہ کے بچوں کو تربیت کے نام پر کبھی چچازاد بہن بھائیوں اور کبھی کسی چچی کی شکایت پر چچا سے مار پڑنے لگی. .

… ایک روز حد ہو گئی جب طلحہ کے ہاتھوں اور کپڑوں پر گریس کے دھبے دیکھے تو پتا چلا طلحہ کا اسکول چھڑوا کر ورکشاپ میں کام سیکھنے پر لگا دیا گیا ہے. . کیونکہ اسکول کی فیس دینے کے پیسے چچا کے پاس ختم ہو گے ہیں …
سکینہ نے ایک پڑوسن کی مدد سے اپنے بھائی سے رابطہ کیا .. کیونکہ مشترکہ خاندان میں وہ سب کے سامنے اپنے میکے والوں کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے کی پابند تھی. .
اپنے بھائی کے مشورے سے سکینہ نے کچھ فیصلے کیے .. اپنی ساس سے سگے بھانجے کی شادی میں جانے کی اجازت طلب کی اور اپنا زیور مانگا. . جو واپسی کی ہزار یقین دہانیوں کے بعد اسے دیا گیا. . کیونکہ بہرحال بھانجے کی شادی میں شرکت سے روکنا یا زیور کے بغیر سکینہ کا شادی میں شریک ہونا سکینہ کے میکے والوں کو مشکوک کر سکتا تھا. .
سکینہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنا زیور اور جائداد کے جو کاغذات اس کے پاس تھے وہ تمام لے کر بھائیوں کی امان میں چلی گئی .. زندگی وہاں بھی آسان نہ تھی .. بھابیاں اس ذمے داری سے بےزار تھیں لیکن بھائی سکینہ کا حوصلہ تھے ..
کورٹ میں جائداد کے حصول کے لیے کیس کیا گیا. . فیصلہ سکینہ کے حق میں ہوا .. اب سکینہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زاتی گھر میں پرسکون ہے .. اس کا گھر بھائی کے گھر کے ساتھ ہی ہے اور سکینہ کے بچے اسی اسکول میں پڑھ رہے ہیں جس میں اس کے بھانجے پڑھتے ہیں. .

دنیا اس سے بھی برا سلوک کر سکتی ہے. . والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم اور کارآمد ہنر دے کر رخصت کیا کریں ..
دین اور دنیا کی سمجھ بیٹی کو والدین دیتے ہیں. .اس لیے بیٹی کو بوجھ سمجھ کر کم عمری میں بیاہ دینے کی بجائے اپنے بیٹوں کی طرح تعلیم اور شعور دے کر رخصت کیا کریں. .
لڑکیاں بالکل نوکری مت کریں اگر شوہر بہترین طریقے سے آپ کی ضروریات پوری کر رہا ہے. . غور کریں میں نے ضروریات کہا یے خواہشات نہیں کیونکہ خواہشات کی کوئی حد نہیں. . لیکن ہر لڑکی کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ضرورت پڑنے پر اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے ..

اس لیے تعلیم اور شعور پہلے. .شادی بعد میں. .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے