پاڑہ چنار: فرقہ واریت، فسادات اور ریاستی ذمہ داریاں

پاڑہ چنار: فرقہ واریت، فسادات اور ریاستی ذمہ داریاں

پاکستان کے قبائلی علاقے پاڑہ چنار، ضلع کرم، میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور خونریز جھڑپوں کی تاریخ ایک بار پھر اپنے افسوسناک تسلسل کو ظاہر کر رہی ہے۔ یہ واقعات نہ صرف مقامی باشندوں کے لیے دکھ اور نقصان کا سبب بن رہے ہیں بلکہ پوری قوم کو غمزدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال ریاستی اداروں کے کردار اور ان کی ذمہ داریوں پر کئی سوالات اٹھاتی ہے۔

فرقہ وارانہ فسادات کا پس منظر

پاڑہ چنار میں فرقہ وارانہ تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ ان کی جڑیں قیام پاکستان سے قبل تک جاتی ہیں۔ سب سے پہلا تصادم 1938ء میں ہوا جب لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات کے دوران پاڑہ چنار کے شیعہ افراد اپنی برادری کی حمایت میں جا رہے تھے اور راستے میں تصادم کا شکار ہو گئے۔

قیام پاکستان کے بعد بھی یہ جھگڑے جاری رہے۔ 1966ء میں ماتمی جلوس کے صدہ بازار سے گزرنے کے دوران تنازع نے جنم لیا۔ 1971ء میں ایک اور تصادم اس وقت ہوا جب اہلسنت کی مرکزی جامع مسجد کے مینار کی تعمیر تنازعے کا سبب بنی۔ اس کے بعد 1977ء میں مسجد کے امام پر قاتلانہ حملے نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا دیا۔

یہ سلسلہ 1987ء، 1996ء، 2003ء اور 2006ء میں مختلف واقعات کے ذریعے شدت اختیار کرتا رہا، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور بے شمار خاندان متاثر ہوئے۔

حالیہ کشیدگی

حالیہ فسادات کا آغاز 21 اکتوبر 2024ء کو اس وقت ہوا جب گاؤں کونج علی زئی سے گزرنے والے سنی کمیونٹی کے قافلے پر حملہ کیا گیا، جس میں خواتین اور بچوں سمیت بیس افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے جواب میں 21 نومبر کو بگن گاؤں میں شیعہ کمیونٹی کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، جس سے حالات مزید بگڑ گئے۔

ریاستی اداروں کی ذمہ داری

پاڑہ چنار میں فرقہ وارانہ نفرت کی یہ آگ ایک طویل عرصے سے سلگ رہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں کو فوری اور موثر انداز میں ادا کرے۔

1. عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی: ریاست کو ان تمام گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے جو علاقے میں جنگ و جدل کو ہوا دے رہے ہیں۔

2. نفرت انگیز مواد کا خاتمہ: نفرت کی تبلیغ کرنے والے مراکز اور ان کے ذرائع کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔

3. مذاکرات اور مصالحت: دونوں فرقوں کے رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے تاکہ دیرپا امن قائم ہو۔

4. سیکیورٹی کی مضبوطی: علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے امن و امان برقرار رکھا جائے۔

نتیجہ

پاڑہ چنار کے سانحات ہمیں بار بار یہ باور کراتے ہیں کہ فرقہ واریت کا ناسور پورے ملک کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر ریاست فوری اقدامات نہ کرے تو یہ نفرت کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کو پوری دیانت داری کے ساتھ نبھائیں اور اس دیرینہ مسئلے کا مستقل حل تلاش کریں۔

یہ مضمون ملک میں امن و امان کی بحالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کے لیے سنجیدہ اقدامات پر زور دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے