کوچہ سیاست کے بدلتے رنگ دیکھتے نصف صدی ہونے کو آئی۔ چھتیس برس اخبار کے صفحات پر بدلتے لب و لہجے میں حسن طلب کی باس سے آشنائی ہو چکی۔ ہمیں خبر کے واقعاتی حقائق دیکھنا ہوتے ہیں۔ کسی درجہ دوم کے اہلکارسے ’اندر کی خبر‘ جاننے کی خواہش یا ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ ’نام نہاد ذرائع‘ جن بتان خاک و سنگ کے ’ارادے‘ بیان کرتے ہیں ہم پتوں سے گزرتی ہوا کی سرسراہٹ سے ان کا انجام تک جان لیتے ہیں۔ آج کا پاکستان دو دھاروں میں بٹ چکا۔ اس دریا میں ایک گدلا نالہ 25جولائی 2018ء کو شامل ہوا اور ایک آلودگی 8 فروری 2024ء کو دریا کا حصہ بنی۔ دستور کی سپید چوٹیوں سے نکلنے والی شفاف لہریں میلی ہو چکی ہیں۔ اپریل 2022ء کے بعد تین اہم واقعات رونما ہوئے۔ 9مئی 2023ء کو فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ 12اگست 2024ء کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید گرفتارہوئے۔ 25نومبر 2024ء کو رینجرز کے چار اور پولیس کے تین جوان شہید کئے گئے۔ تحریک انصاف کو لاشوں کی تلاش تھی۔ اس خود تراشیدہ سیاسی راون کی بدقسمتی ہے کہ اسلام آباد میں گرنے والی لاشیں سیاسی کارکنوں کی نہیں، ریاستی اہلکاروں کی ہیں۔ اس بحران میں عمران خان کا کردار تو روز اول سے معلوم ہے۔ اب بشریٰ بی بی بھی چاک دامانی کی اس حکایت میں شامل ہو گئی ہیں۔ یہ طوفان کا رخ بدلنے کی گھڑی ہے۔ سازش، حادثے اور جرم کا تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ تاریخ کے اوراق سے دو واقعات پیش ہیں۔ نتیجہ آپ خود نکال لیں۔
گوالیار کا شہر اور 18جون 1858 کا دن تھا۔ اس روز کیپٹن روڈرک برگز نے جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو اپنی آنکھوں سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے دیکھا۔ لکشمی بائی گھوڑے کی لگام اپنے دانتوں سے دبائے دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا رہی تھیں۔ کیپٹن روڈرک برگز نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر رانی جھانسی پر وار کرنا چاہا لیکن رانی کے گھڑسوار چاروں طرف سے ڈھال بنے ہوئے تھے۔ عین اسی وقت انگریزی کمک آن پہنچی۔ رانی نے فورا ًصورت حال بھانپی اور پندرہ بیس گھڑسواروں کی نفری لے کر میدان جنگ سے اتنی تیزی سے نکلیں کہ انگریز فوجیوں کو معاملہ سمجھنے میں کچھ لمحوں کی تاخیر ہوئی۔ روڈرک اپنے ساتھیوں سمیت تعاقب پر نکلا اور کوئی میل بھر کے فاصلے پر رانی اور اس کے ساتھیوں کو آ لیا۔ کوٹا سرائے کے مقام پر لڑائی پھر شروع ہوئی۔ انگریز سپاہ کی تعداد رانی کے سپاہیوں سے دوگنا تھی۔ اچانک ایک انگریز سپاہی نے رانی کے بائیں سینے میں سنگین اتار دی۔ وہ مڑ کر حملہ آور پر اپنی تلوار سے ٹوٹ پڑیں۔ اس دوران ان کی کمر میں رائفل کی گولی لگی اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی۔ ادھر ان کے سر پر تلوار کا ایسا کاری وار پڑا کہ لہو کی دھار ان کی آنکھوں میں گھس گئی۔ اسی حال میں رانی مسلسل تلوار چلاتی رہی اور بالآخر گھوڑے سے گر پڑی۔ ان کا ایک جانثار انہیں اٹھا کر قریبی مندر میں لے گیا۔ زخمی رانی نے دردمندوں سے صرف یہ کہا کہ’انگریزوں کو میرا جسم نہیں ملنا چاہیے‘ اور آنکھیں موند لیں۔ جب انگریز مندر میں داخل ہوئے تو رانی کی چتا تقریباً راکھ ہو چکی تھی۔
آپ نے فرحت اللہ بیگ کا لکھا مولوی نذیر احمد کا خاکہ تو ضرور پڑھا ہو گا۔ اس شاہکار تحریر کے کچھ حصے نصاب سے خارج کر دیے جاتے ہیں۔ ان منسوخ حصوں سے ڈپٹی نذیر احمد کا بیان پیش کرتا ہوں۔ ’ایک روز میں دریبے میں سے جا رہا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ تلنگوں کی فوج آ رہی ہے۔ میں بھی دبک کر گلاب گندھی کی دکان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ آگے آگے بینڈ والے اندھا دھند ڈھول پیٹ رہے تھے۔ پیچھے کوئی پچاس ساٹھ سوار تھے۔
گھوڑے کیا تھے، دھوبی کے گدھے معلوم ہوتے تھے۔ گٹھڑیوں کی کثرت سے سوار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ یہ گٹھڑیاں دہلی کے امرا کا لوٹا ہوا سامان تھا۔ خدائی فوج داروں کا یہ لشکر غل مچاتا، دین دین کے نعرے مارتا میرے سامنے سے گزرا۔ اس جم غفیر کے بیچوں بیچ دولہا میاں تھے۔ عالی جناب بہادر خاں صاحب سپہ سالار۔ لباس سے بجائے سپہ سالار کے دولہا معلوم ہوئے تھے، جڑائو زیور میں لدے ہوئے تھے۔ پہنتے وقت شاید یہ بھی معلوم کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کی گئی تھی کہ کون سا مردانہ زیور ہے اور کون سا زنانہ۔ ان کا گھوڑا بھی زیور سے لدا ہوا تھا۔ ماش کے آٹے کی طرح اینٹھے جاتے تھے۔
گلاب گندھی نے ان لٹیروں کو آتے دیکھا تو چپکے سے دکان بند کر دی۔ اتفاق سے بہادر خاں کا گھوڑا عین اس کی دکان کے سامنے آکر رکا۔ بہادر خاں نے پوچھا۔ یہ کس کی دکان ہے؟ ان کے ایڈی کانگ نے عرض کی کہ گلاب گندھی کی۔ فرمایا۔ اس بدقماش کو خبر نہیں تھی کہ مابدولت ادھر سے گزر رہے ہیں؟ ابھی دکان کھلوائو۔ ایک سپاہی نے تلوار کا دستہ کواڑ پر مار کر کہا کہ دروازہ کھولو اور گلاب گندھی کی دکان کھل گئی، دروازے کے بیچوں بیچ لالا جی کانپتے، ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ بہادر خاں کہنے لگے۔ تمہاری ہی دکان سے بادشاہ کے ہاں عطر جاتا ہے؟ لالاجی نے بڑے زور سے گردن کو ٹوٹی ہوئی گڑیا کی طرح جھٹکا دیا۔ حکم ہوا کہ جو عطر بہتر سے بہتر ہو، وہ حاضر کرو۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے اندر گئے اور دو کنڑ عطر سے بھرے ہوئے حاضر کیے۔ معلوم نہیں بیس روپے تولے کا عطر تھا یا تیس روپے تولے کا۔ بہادر خان نے دونوں کنڑ لیے، کاگ نکالنے کی تکلیف کون گوارا کرتا، ایک کی گردن دوسرے سے ٹکرا دی، دونوں گردنیں کھٹ سے ٹوٹ گئیں۔ عطر سونگھا، کچھ پسند آیا، ایک کنڑ گھوڑے کی ایال پر الٹ دیا اور دوسرا دم پر۔ کنڑ پھینک حکم دیا گیا۔ فارورڈ۔ بچارے گلاب گندھی کا سینکڑوں روپے کا نقصان کر کے یہ ہندوستان کو آزادی دلانے والے چل دیئے‘‘۔
بخت خان کے توشہ خانے کی کہانی آپ کو سنا دی۔ کیا بشریٰ بی بی جھانسی کی رانی ہیں یا حضرت محل، اس کا فیصلہ تو اسلام آباد میں جاری ہنگامے کے اختتام پر معلوم ہو گا۔ یہ فیصلہ لکشمی بائی یا بخت خاں نے نہیں کرنا۔ اس فیصلہ ساز کا کردار منظر عام پر آنے میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔
بشکریہ جنگ