ایران کے بارے میں محمد ہیکل نے ایک اہم بات لکھی ہے۔ مصر سے تعلق رکھنے والے وہ ایک ایسے صحافی ہیں جنہیں مشرق وسطیٰ کی سیاست و معاشرت پر سند کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی کتاب ‘آیت ﷲ کی واپسی‘ (The Return of the Ayatollah) اس باب میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ ایران دنیا کا پہلا خطہ ہے جہاں اسلام اور عربیت کی وحدت نفوذ نہ کر سکی۔ ایرانیوں نے اسلام تو قبول کیا لیکن عربیت کو نہیں۔ ایران نے اپنی تہذیبی شناخت اور قبل از اسلام کی تاریخ سے وابستگی پر ہمیشہ اصرار کیا۔ یوں وہ مسلمان ہونے کے باوجود عربوں سے مختلف اپنی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ ایران عجم سے منسوب ہوا اور آج سعودی عرب اور ایران کا تصادم ، عرب و عجم کا تصادم کہلاتا ہے۔
چند روز پہلے جب میں تہران کے ہوائی اڈے پر اترا تو یہ پس منظربھی میرے ہم رکاب تھا۔ انقلابِ ایران کا ایک رومانوی تصور کبھی میرے دل کے تار بھی چھیڑتا رہا جسے مختار مسعود کی ‘لوح ایام‘ جیسی کتابوں نے فروغ دیا۔ میرے کئی سال اسی رومان میں گزرے کہ اسلامی انقلاب کا خواب کبھی میں نے بھی دیکھا تھا۔ شعور کی سیڑھی پر جیسے جیسے قدم اٹھتا گیا، ہر رومان کی طرح یہ رومان بھی تلخ حقیقتوں میں کھوتا گیا۔ جب سعید ارجمند اور نکی کیڈی جیسے لوگوں کی کتابیں پڑھیں تو انقلاب کے پس منظر میں جھانکنے کا موقع ملا۔ ان دنوں آیت اﷲ خمینی صاحب کی کتب پڑھنے کا بھی شوق ہوا۔ ‘حکومت اسلامی‘ کا چرچا سنا تو تلاش کیا۔ راولپنڈی کے خانۂ فرہنگ سے اس کا انگریزی ترجمہ ملا۔ عبدا لعزیز سچا دینا جیسی محققین کی تحریریں بھی پڑھیں۔ ایک طرف ‘ولایت فقیہ‘ ، ‘نائبِ امام ‘ کے تصورات کو سمجھا اور دوسری طرف بطور سیاسی تحریک، اس انقلاب کے خد و خال کو جانا۔ انقلاب کے پینتیس سال بعد تہران جانے کا اتفاق ہوا تو آنکھیں اس کے در و دیوار پہ اسی انقلاب کے نقوش تلاش کرتی رہیں۔ میں نے دیکھا کہ ‘آزادی سکوائر‘ کے چاروں اطراف نئی تعمیر جاری ہے۔ یہ شاید اس بات کا اشارہ تھا کہ اب ایران میں بھی انقلاب کی تفہیم نو ہونے لگی ہے۔
1979ء کے انقلاب نے جس ایران کوجنم دیا، وہ دو حوالوں سے دنیا کے ساتھ وابستہ تھا۔ اس کی خارجہ پالیسی کے دو بنیادی ستون تھے۔۔۔۔’مرگ بر امریکہ‘ اور’انتقالِ انقلاب‘۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے ساتھیوں سے نفرت اور دشمنی کا رستہ اور دوسری طرف مسلم دنیا میں انقلاب کے نفوذ کی خواہش۔ اگرچہ خمینی صاحب نے یہ چاہا کہ یہ انقلاب فرقہ وارانہ شناخت سے ماورا رہے لیکن یہ کسی طور ممکن نہیں تھا۔ ایرانی انقلاب قیام پاکستان کی طرح کا کوئی واقعہ نہ تھا جس کو خواب سے تعبیر میں ڈھالنے کے لیے شیعہ سنی نے مل کر جدو جہدکی اور جس کا بیانیہ غیر مسلکی تھا۔ ایرانی انقلاب کے امام اور مقتدی، دونوں شیعہ تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایران غیر معمولی شیعہ اکثریت کا ملک ہے۔ ولایتِ فقیہ کا تمام تر استدلال شیعہ کلامی روایت میں پروان چڑھا۔ اس کا فطری نتیجہ تھا کہ سنی اکثریت میں یہ تصور شکوک و شبہات میں گھر جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ خمینی صاحب کی بعض پرانی تحریریں بھی سامنے آئیں اور یوں یہ انقلاب شیعہ سنی تقسیم سے بلند نہ ہو سکا۔ تاہم اہلِ تشیع میں اس انقلاب نے غیر معمولی جوش و خروش کو جنم دیا۔ مسلم ممالک میں ایرانی سفارت خانے متحرک ہو گئے۔
پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس انقلاب کا خیر مقدم کیا۔ جماعت اسلامی اپنی ساخت میں مسلکی اور فقہی گروہ بندی سے بالا تر ہے۔1960ء کی دہائی میں جب خمینی صاحب ریاستی عتاب کا نشانہ بنے تو مولانا مودودی کی ادارت میں شائع ہونے والے ‘ترجمان القرآن‘ نے اُن کے حق میں اداریہ لکھا۔ یہ بات ایرانی بادشاہ کے طبع نازک پر گراں گزری ۔ اس نے پاکستانی حکومت سے شکایت کی اور تاریخ میں پہلی اور آخری بار ‘ترجمان القرآن‘ پر تین ماہ کی پابندی عائد کر دی گئی۔ جو لوگ جماعت اسلامی کو امریکہ نواز کہتے ہیں، اگر سنجیدگی سے جماعت اسلامی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو شاید یہ الزام کبھی نہ دہرائیں۔ جماعت نے خمینی صاحب کی اس وقت حمایت کی جب پاکستان کے شیعہ بھی ان سے بے خبر تھے۔
انقلاب کے بعد خمینی صاحب نے ایک وفد جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر بھیجا اور انقلاب کی مبارک باد دی۔ جماعت اسلامی نے کچھ عرصہ اسی رومان میں گزارا۔ جماعت اسلامی کے راہنماؤں نے ایران کے دورے کیے اور اس انقلاب کی تائید میں لٹریچر سامنے آیا۔ اس میں سید اسعد گیلانی مرحوم کی تصنیف نمایاں ہے۔ انتقالِ انقلاب کے تصور نے ایرانی سفارت خانوں میں جس غیر معمولی جوش وخروش کو جنم دیا، اس سے سنی دنیا میں ایک اضطراب پیدا ہوا۔
عرب دنیا میں اہلِ تشیع کا اپنے تشخص پر اصرار سے، بادشاہت کو پریشانی لاحق ہوئی۔ امریکہ پہلے ہی ناراض تھا۔ تہران میں اس کے سفارت خانے پر قبضہ ہو چکا تھا۔ انقلابی طالب علموں نے اس کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ محمد ہیکل نے اس کی آنکھوں دیکھی روداد لکھی ہے۔ مرگ بر امریکہ اور انتقال انقلاب کے تصورات نے امریکہ اور عرب دنیا کو ایران کے خلاف یک جا کر دیا۔ صدام حسین کی پیٹھ ٹھونکی گئی اور اسے ایران کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔
عرب دنیا نے جس طرح صدام کی معاشی اور سیاسی پشت پناہی کی، وہ ایک کھلا راز ہے۔ امریکہ نے صدام کو جیسے تقویت پہنچائی، اس کی تفصیلات بعد میں سامنے آئیں اور انکشافات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ معروف امریکی جریدے ‘فارن پالیسی‘ میں اسی ماہ شین ہارس (Shane Haris) نے ایک انکشاف انگیز مضمون لکھا ہے۔ 1988ء میں عراق ایران جنگ کے دوران میں، ایک مرحلہ ایسا آیا جب ایران نے عراق کے دفاعی نظام میں موجود خلا تک رسائی حاصل کر لی اور وہ اس پر فیصلہ کن حملہ کرنے والا تھا۔ اس وقت امریکہ نے سیٹیلائٹ سے جو معلومات حاصل کیں، وہ صدام حسین تک پہنچا دی گئیں۔ ان معلومات میں ایرانی فوج اور اس کے جنگی ہتھیاروں کی نقل و حرکت کے بارے میں اہم تفصیلات شامل تھیں۔ ہارس کے مطابق، امر یکہ کو معلوم تھا کہ عراق ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرے گا۔ عملاً یہی ہوا۔ عراق نے ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جس میں ‘سیرین‘ (Sarin) بھی شامل تھا، جواعصابی نظام کو برباد کر دیتا ہے۔ اس جنگ نے ایر ان کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ ایرانی قوم نے بقا کی غیر معمولی جبلت کے ساتھ اس کا سامنا کیا اور ایران اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔ تاہم اس کی معیشت اور سماج دونوں ابھی تک اس کے اثرات سے نکل نہیں سکے۔
عربوں نے اس دوران میں یہ کوشش بھی کی کہ دنیا میں شیعہ بیداری کی اس تحریک کو مذہبی بنیادوں پر کمزور کیا جائے۔ یوں پاکستان سمیت پورے عالمِ اسلام میں قدیم سنی شیعہ مباحث ایک بار پھر زندہ ہوگئے۔ یہاں برِصغیر میں مولانا ابوالحسن علی ندوی اورمولانا منظور نعمانی جیسی جید علمی شخصیات کی کتب سامنے آئیں۔ فتاویٰ مرتب ہوئے اور انتقالِ انقلاب کا خواب شکوک و شبہات میں گھر گیا۔ مرگ بر امریکہ کے نتیجے میں ایران معاشی بحران میں مبتلا ہوگیا۔ انتقالِ انقلاب کے تصورکو مسلم دنیا میں شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا جو اکثریتی اعتبار سے سنی تھی۔ یوں ایران تنہا ہونے لگا۔ انقلاب کے بعد دنیا سے ایران کے تعلقات جن دو بنیادوں پر کھڑے تھے، ان کا قائم رہنا اب مشکل ہو گیا۔اس صورت ِحال نے ایران میں ایک دوسرے نقطہ نظر کو جنم دیا۔ اس نے ان دونوں بنیادوں کو چیلنج کیا۔ اس کشمکش نے ایک نئے ایران کی بنیاد رکھ دی۔ یہ کیسے ہوا، اس کا ذکر اگلی نشست میں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا