گندھارا کے تاریخی ورثے اور خانپور کے سٹرس کا حسین امتزاج

ایک سوال عموماً ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے کہ وہ کیا شے ہے؟ جو پاکستان سے ختم ہو جائے تو پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہو سکتے ہیں. میری رائے میں، وہ شے ایک رویہ ہے اور وہ رویہ استحصال کا رویہ ہے.
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ملت کے مقدر کا ستارہ، چمک نہیں سکتا، جب تک عام آدمی کے مقدر کا ستارہ نہ چمکے. جب تک عام آدمی کا معیار زندگی بہتر نہیں ہوتا، ملک و قوم کی ترقی، ناممکن بھی ہے اور نامکمل بھی ہے.بدقسمتی سے پاکستان میں محنت کا بڑے برے طریقے سے استحصال ہو رہا ہے. کسان ہوں یا باغبان، مزدور ہوں یا کاریگر، فنکار ہوں یا ادیب، انہیں اُن کی محنت کا وہ صلہ نہیں مل رہا جس کے وہ حقدار ہیں.

اگر کسانوں اور باغبانوں کی بات کریں تو کسان صبح سے شام تک سخت محنت کر کے، اپنے محدود سرمائے میں سے سرمایہ خرچ کر کے ایک فصل تیار کرتا ہے. اُسے لے کر جب وہ منڈیوں میں جاتا ہے تو وہاں اُس کا سارا مال لے لیا جاتا ہے اور انتہائی کم قیمت ادا کی جاتی ہے. اُس کے بعد باقی قیمت کی ادائیگی کے حوالے سے، تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ کے لاروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے. یوں بعض اوقات کسانوں اور باغبانوں کی محنت کا صلہ، پورے سال تک، منڈیوں میں واجب الادا رہتا ہے. نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فصل کی تیاری اور منڈی میں پہنچانے کے بعد بھی کسانوں یا باغبانوں کے پاس بمشکل اتنا سرمایہ آتا ہے کہ وہ گھر کا چولہا جلا سکتے ہیں یا اگلی فصل کاشت کرنا شروع کر سکتے ہیں. پھر وہ مختلف زرائع سے قرض حاصل کرتے ہیں یوں محنت کش کسان مقروض بھی ہو جاتا ہے اور اس کا معیار زندگی بھی پست ہو جاتا ہے.

کسانوں اور باغبانوں کی محنت کے اسی استحصال کو ختم کرنے کے لیے ایگری ٹوورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے. جس کے تحت ملک بھر میں، میلے اور سیمینار منعقد کروائے جاتے ہیں اور کسانوں اور باغبانوں کو یہ آگاہی فراہم کی جاتی ہے کہ کس طرح وہ اپنی مین پراڈکٹ سے دیگر پراڈکٹس تیار کر کے براہ راست خریداروں تک پہنچا سکتے ہیں؟ باغات اور فارمز کے مالکان ایگری ٹورزم کے زریعے بہتر معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں.

گندھارا سٹرس فیسٹیول اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. اُس روز ہماری منزل تھی، ٹیکسلا. وہی ٹیکسلا، جس کے زمین و آسمان صدیوں پرانی، کئی عظیم الشان انسانی تہذیبوں اور ثقافتوں کے چشم دید گواہ ہیں.الفت حسین صاحب ہمارے ہمسفر تھے. مرکزی انجمن تاجران واہ ماڈل ٹاؤن کے صدر ہیں. ٹیکسلا میں، تیسرے سالانہ گندھارا سٹرس فیسٹیول میں ہمیں شریک ہونا تھا. تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے.

دروازے پر ہی ٹیکسلا واہ کے صحافی دوستوں سے ملاقات ہوئی. پنڈال میں پہنچے. بارونق سٹیج سجا تھا. پنڈال میں گندھارا ریسورس سنٹر آف پاکستان، ٹیکسلا کی ٹیم سے فرداً فرداً ملاقات ہوئی جن میں افتخار الدین صدیقی صاحب، ریاض احمد صاحب، مالک اشتر صاحب اور آصف فرید صاحب شامل ہیں.

گندھارا ریسورس سنٹر آف پاکستان کی ٹیم گندھارا کے عظیم الشان تاریخی ورثے کے فروغ میں کوشاں ہے.کچھ دیر پنڈال میں بیٹھنے کے بعد، سٹالز کا دورہ کیا. دستکاریوں، زرعی مصنوعات، کھانے پینے اور دیگر اشیاء کے سٹالز سجے تھے. ایک طرف آرٹ گیلری تھی، جہاں مختلف فنکاروں اور ان کے فن، سے ملاقات ہوئی جن میں اعجاز مغل، ٹرک آرٹسٹ، پرویز اعوان، مصور اور الیاس خٹک، سنگ تراش و مجسمہ ساز شامل ہیں.

راجہ نور محمد نظامی صاحب سے بھی وہیں ملاقات ہوئی. راجہ صاحب نے اپنے گھر پر ایک کتب خانہ اور عجائب گھر سجا رکھا ہے جہاں تاریخی اور قیمتی کتب، قلمی نسخے، مخطوطات اور نوادرات موجود ہیں.ان سب سے ملاقات کے بعد، آخر میں ہم مالٹوں کے سٹال پر گئے اور خانپور کے مالٹوں کے منفرد زائقے سے لطف اندوز ہوئے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے