سائنسی امکانات اور سرمایہ داری کے جھوٹ

الیکٹرک کار ماحولیاتی آلودگی سے بچتے ہوئے موجودہ کاروں کا ایک بہترین متبادل تھی. ایندھن کی بچت اور سپئر پارٹس کی بچت سے یہ ایک سستا ترین متبادل تھی. مگر اِس کار کو مارکیٹ میں لائے جانے سے قبل ہی “قتل” کر دیا گیا. اِس کار کے قاتل بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں جو کہ آٹو موبائل اجارہ داریوں کے مالک ہیں. تیل کی عالمی اجارہ داریوں نے الیکٹرک کار کے قتل میں بھرپور حصہ لیا تھا. کیوں؟ کیونکہ الیکٹرک کار کا آئیڈیا آٹوموبائل انڈسٹری اور تیل کی عالمی اجارہ داروں کے مفادات کے خلاف تھا.

اِسی نوع کے ظلم کا مظاہرہ میڈیکل سائنسز کے میدان میں بھی دیکھا جاسکتا ہے. آج دواسازی کی سائنس ایسے سبھی مریضوں کو دوائی دینے کی نیت اور ارادے سے محروم ہے، جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے. مستقل طریق ہائے علاج پہ ریسرچ کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے. میڈیکل سائنس کی عالمی اجارہ داریوں کی قوتِ محرکہ “منافع کی ہوس” ہے نہ کہ “انسانیت”. ایک دواساز کمپنی کیلئے ایڈز کا شکار کوئی بھی انسان کسی طور ایک ’’مریض ‘‘نہیں ہوتا بلکہ ایک ’’گاہک‘‘ ہوتاہے۔

ادویات سازی کی عالمی صنعت کا یہ ہمیشہ سے مالیاتی مفاد رہا ہے کہ ان کا گاہک بار بار ان کی ادویات سے مستفید ہوتا رہے۔ ایسی ریسرچ پر توجہ ہے، نہ ارادہ، نہ کوشش کہ جس سے مریض کا شافی و کافی علاج ہو جائے دواساز تحقیقی ادارے ایسی نئی دوائیاں تخلیق و ایجاد کرنے پر زور صرف کر رہے ہیں کہ جن کے مریض انہیں ساری عمر استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں تاکہ دواساز سرمایہ داروں کی جیبیں مسلسل دولت سے بھرتی رہیں.

سائنس کے طالب علم جانتے ہیں کہ “نظرثانی” کسی بھی سائنسی طریق کار کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے. بڑی تحقیقات، سائنسدانوں کے انفرادی گروپ کی طرف سے سامنے نہیں آتیں بلکہ وہ ایسے کئی گروپوں کی طرف سے سامنے لائی جاتی ہیں۔ تحقیق کا ایک معمہ ایک گروپ سامنے لاتا ہے تو دوسرا گروپ اس کا کوئی اور حصہ سامنے لاتا ہے۔ اس کے بعد بھی سائنسدانوں کی ایک اور ٹیم اس سب کو باہم شیر و شکر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مگر……….. مگر سرمایہ دارانہ نظام بہترین انجینئروں اور سائنسدانوں کوباہم مقابل و متصادم کمپنیوں میں تقسیم کر کے کھپا دیتا ہے۔ تحقیق اور ترقی کے کام سے وابستہ ہونے والے ہر ایک ماہر سے ایک خفیہ دستاویز پر دستخط کرا لئے جاتے ہیں جو کہ ملازمت کے معاہدے کا لازمی حصہ ہوا کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو نہ صرف ایک ساتھ اکٹھے ہونے اور یکجا کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی تحریریں دکھانے پر بھی پابندی عائد ہوتی ہے کہ کہیں آپس میں یہ خیالات کا بھی تبادلہ نہ کرلیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے رستے میں رکاوٹ ہونے کا سب سے اہم اور حتمی ثبوت سرمایہ دارانہ نظام سے نہیں بلکہ اس کے مخالف اور متبادل سے ملتا ہے، یعنی سوشلزم. ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک منصوبہ بند معیشت اپنے اندر کتنی شاندار صلاحیت اور کتنے وسیع ممکنات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہوتی ہے۔ مثلاً انقلاب کے وقت روس کی 90 فیصد آبادی ناخواندہ تھی۔ اسی سوویت یونین میں چند دہائیوں کے اندر ہی اندر فی کس شرح کے تحت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ڈاکٹر، سائنسدان اور انجینئر موجود تھے. اِس حیران کر دینے والے سوال کا ایک ہی جواب ایک ہی وضاحت ہے اور وہ ہے منصوبہ بند معیشت کی برتر حیثیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے پاگل پن سے یکسر لاتعلقی۔ ہم سوشلسٹ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی اجتماعی اہمیت کے معنی خوب سمجھتے ہیں۔ سوشلسٹ سائنس کو ملک کی مجموعی ترقی سے وابستہ اور منسلک کردیتے ہیں۔ اس وسیع نکتہ نگاہ کی وجہ سے سوشلسٹ علم کے سبھی شعبوں میں سبھی وسائل صرف کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گے۔

ہم سوشلسٹ تعلیم کے شعبے میں لامحدود وسعت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہر قسم کے نجی سکولوں کا یکسر خاتمہ کرکے اور ہر سطح کی تعلیم ہر کسی کیلئے مفت فراہم کرنے سے یوں ہوگا کہ ہر ایک انسان کو اپنی صلاحیتوں سے واقف ہونے اور پھر ان سے کام لینے کے امکانات کی دنیائیں سامنے آتی جائیں گی۔ اِس کے برعکس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کئی ایک جدید مغربی ممالک ابھی تک اپنے ملکوں میں سے ناخواندگی کو مکمل طورپر ختم نہیں کر سکے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اہل اور قابل باشندوں کو یونیورسٹی کی ہی تعلیم سے ہی مستفید ہونے دیتے مگر ایسا نہیں ہے اور کہیں بھی نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت علم کے ہر طلبگار اور خواہشمند کے سامنے سرمائے کے پہاڑ رکاوٹ بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ جن کی وجہ سے انسانی سماج کی بڑی تعداد کو ان کی صلاحیتوں کے ادراک و استفادے سے مکمل محروم رکھا جاتا ہے اور رکھا جا رہا ہے۔ اس وقت دنیا کی نصف سے زائد آبادی دو ڈالر روزانہ سے بھی کم آمدنی پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، ہم بآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ انسانی صلاحیتوں کے بہت ہی بڑے خزانے کوضائع کیا جا رہا ہے اور وہ بھی سرمائے کی محرومی کی وجہ سے۔

سائنس کو آج نجی مفادات اور نجی صنعت کے ہاتھوں ماضی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ تعلیم اور تحقیق کیلئے جستجو اور جدوجہد کرنے والے ہر تازہ ذہن کو وسائل کی محرومی کے ذریعے اذیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ مذہبی پابندیاں اور تعصبات سائنس کو پنجرے میں بند کرنے اور رکھنے پر تل گئے ہیں۔ یہ سب مل کر علم کے کئی شعبوں کو سرے سے بند کرنے پر تل چکے ہیں۔

آج ساری نسلِ انسانی کو ایک ایسے مالیاتی نظام کے ہاتھوں محض چند نجی مالکوں کے مفادات کی غلامی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ نام نہاد اور خود ساختہ عظیم ’’آزاد منڈی‘‘ کی معیشت، انسانی ترقی کے ہر امکان کے راستے کی دیوار بن چکی ہے۔ کمپیوٹروں اور انٹرنیٹ سمیت نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانیت سائنسی ترقی اور سماجی خوشحالی کی ایک بالکل نئی دنیا میں قدم رکھ سکتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ ہمارے وجود کا ہر رنگ ڈھنگ اور ہر پہلو نت نئے امکانات کو ہمارے سامنے عیاں اور عریاں کر رہا ہے۔ کل جو ناممکن ہوتا تھا وہ ممکن ہوچکا ہے۔ماضی میں کبھی جو محض ایک واہمہ ہوا کرتا تھا وہ اب قابلِ ادراک ہوچکاہے۔کل جو گنجھلک تھا آج سادہ و صاف ہوکر سامنے آ چکا ہے۔ سائنسی علم میں ترقی وترویج آنے والے دنوں میں ساری کائنات کو ہماری انگلیوں پر ناچنے پر مائل کردے گی مگر اس کے رستے میں ایک رکاوٹ ہے جسے اکھاڑنا سب سے بڑا‘ سب سے پہلا اور سب سے اہم انسانی فریضہ ہے‘ اور یہ رکاوٹ ہے سرمایہ دارانہ نظام!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے