اکابر اور اصاغر

کچھ اہل علم کی تحریریں پڑھیں تو معلوم ھوتا ھے علم ،عقل اور تقوی سے مسلمان بلکہ کل نوع انسان ابتدائی چند صدیوں کے بعد محروم کر دئے گئے ۔ اللہ نے اس کے بعد تقلید کرنے والے روبوٹ پیدا کئے جن کا کام اگلوں کے سافٹ وئیر کے مطابق چلنا ھے ۔ ان کے پاس ان چیزوں کو ناپنے کا ایسا پیمانہ ھے جس پر کوئی پورا نہیں اترتا۔ حالانکہ انسانی ارتقا کا مطالعہ کریں تو انسان علم اورعقل کے لحاظ سے اپنی تاریخ کے بلند ترین مقام پر کھڑا ھے ۔ ہر شعبے میں ھم اپنے اکابرین سے بہت آگے بڑھ چکے ھیں ۔ دور جدید میں علم کئی مراحل طے کرتا ھوا مرتب ھو کر اعلی ترین چوٹی پر فائز ھو چکا ۔ مذھب ھو یا سائنس، فلسفہ ھو یا معاشیات، سماجیات ھو یا طب بڑے بڑے نام آج کل کے طالب علم کے سامنے چھوٹے ھیں کیوں کہ ان سب کے علم تک رسائی اس کے پاس موجود ھے ۔ وہ تجزیہ کرنے میں ( اگراس میں صلاحیت ھے ) ان سے بہتر مقام پر کھڑا ھے ۔ مذھبیات میں وہ اگر تفسیرکے ماہر تھے تو حدیث سے نابلد

روایات کا سمندر تھے تو فقہ سے لاعلم، تصوف کے رموز آشنا تھے تو فلسفہ دین سے عاری ۔ اس کی وجہ ان کی عدم اہلیت نہیں بلکہ حالات کا جبر تھا ۔ علم کی ایک شاخ میں مہارت کے حصول کے لئے بہت فاصلہ اور وقت درکار تھا کیوں کہ ارتقا کے مراحل میں تھا اور پھیلا ھوا تھا۔ آجکل جتنا علم ایک دن میں دنیا میں مواصلاتی انقلاب کے بعد پیدا ھوتا ھے اتنا ھمارے اکابر سالوں میں نہیں جان سکتے تھے ۔ ایک ایک روایت کو تلاش کرنے میں وہ بے چارے مہینوں سفر کرتے تھے جب کہ یہاں انگلی کی ایک حرکت کے فاصلے پر ہزاروں روایات ھیں اپنی اسناد پر جرح کے ساتھ ۔ علم کے اتنے شعبے وجود میں آچکے ھیں کہ سب میں کمال ناممکن بن چکا ۔ فلسفہ میں دنیا جدیدت سے آگے بڑھ کر پوسٹ جدیدیت تک پہنچ چکی ۔ افلاطون اور ارسطو کی بعض بحثیں دیکھیں تو احمقانہ لگتی ھیں۔ نفسیات میں دماغ کا براہ راست مشاہدہ شروع ھو چکا۔ حیاتیات میں سٹیم سیل پر تحقیق ھو رھی ھے ۔ معاشیات میں دنیا اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کی انتہاوں سے آگے کا سوچنے لگی ۔ فلکیات میں انسان مریخ پر قدم جمانے لگا ۔ قانون میں تدوین قانون سے لیکر پارلیمانی نظام اور انتخابات کے جدید الیکٹرانک ذرائع تک آپہنچے ھیں ۔ سماجیات میں منظم اصولوں پر پورا ڈھانچہ کھڑا کیا جا چکا ۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت بل گیٹس اعلان کرتا ھے کہ دنیا سے غربت 2030 تک ختم ھو جائے گی ۔

یہی وجہ ھے کہ آج اگر کوئی اوریا مقبول جان جیسا متکلم موجودہ دور کے مسلمان عالم کی احساس محرومی کے لئے یہ دلیل دیتا ھے کہ اس وقت کے مسلمان عالم مذھب، سائنس ، فلسفہ، طب اور حیاتیات میں یکساں طور پر مہارت رکھتے تھے تواس کے تجزیہ کرنے کی صلاحیت پر رشک آتا ھے ۔ کہتے ھیں کہ پچھلے دس سال میں دنیا نے اتنی ترقی کی ھے جتنی پوری انسانی تاریخ میں نہیں کی تھی ۔ اب تو ایسا معلوم ھوتا ھے بچہ پیدا نہیں ھوتا ڈاون لوڈ ھوتا ھے ۔ جہاں تک تقوی کی بات ھے تو اس کو معلوم کرنے کا پیمانہ فیس بک پر ابھی ایجاد نہیں ھوا۔

آخر میں اس طرز عمل کی ایک مثال بھی سنتے جائیں ۔ میری ایک دفعہ اپنے حدیث کے استاذ سے بحث ھوگئی ۔ انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا جس میں ان کے استاد نے ایک روایت کو سنتے ھی مسترد کر دیا عقلی بنیاد پر ۔ میں نے کہا سر ایسا اگر میں کروں تو آپ منکر حدیث قرار دے دیتے ھیں جب کہ آپ کے استاد نے بھی وھی عمل کیا ھے ۔ سند کو دیکھے بغیر مسترد کر دیا ۔ انھوں نے جواب دیا کہ وہ ایسا کر سکتے ھیں کیوں کہ علم حدیث سے واقف ھیں ۔ میں نے جواب دیا سر عقل استعمال کرنے میں وہ کیسے مجھ سے برتر ھو گئے چاھے علم حدیث میں کتنے ھی اعلی مقام پر ھوں ۔ یاد رھے انھوں نے عقلی بنیادوں پر مسترد کیا تھا. امام امین احسن اصلاحی سے ایک مرتبہ کہا گیا مولانا آپ کی رائے متقدمین سے مختلف ھے ۔ انھوں نے مسکراتے ھوئے جواب دیا فکر نہ کریں کچھ عرصے بعد ھم بھی متقدمین میں شامل ھو جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے