کچھ دن پہلے میں ایک کالم لکھ بیٹھا ”گڈ مارننگ بھیجنے والو خدا کا واسطہ باز آ جاو” یہ ایک فکاحیہ کالم تھا۔ غرض و غایت تفنن طبع تھی۔مجھے تو کوئی سیریس لیتا نہیں، اب مجھے کیا پتا تھا کہ میرے اس کالم کو چند خواتین و حضرات اتنا سیریس لے لیں گے۔
کچھ قارئین نے اسے یوں لیا جیسے میں نے ان کے جذباتی میسیجز پر پرسنل حملہ کر دیا ہو اور ان کے موبائل میں موجود تمام گلابوں پر پابندی لگوانے کی کوشش کی ہو۔
کچھ نے کہا: "آپ نے تو ہمارے دل کی بات کی ہے۔ ھم بھی بے حد تنگ ہیں !”
کچھ بچپن کے کلاس فیلوز کو میرا کالم پڑھ کر نیا شغل ھاتھ آ گیا ، پہلے جو نھیں بھیجتے تھے انہوں نے بھی ھر روز صبح دوپہر شام تصویری گلاب، جگنو، قوس قزح، دعائیں، شیر (تصویری بھی اور ادبی بھی) جمعہ مبارک یہاں تک کہ گزشتہ اور آنے والی عید مبارک بھی بھیجنا شروع کردی۔
کچھ ایسے بھی نکلے جو خاموشی سے میرا نمبر لیے بیٹھے تھے، نہ کبھی کوئی بات، نہ سلام۔ مگر وہ صبح بخیر کے اتنے دیوانے نکلے کہ میرے کالم کو اپنی توہین سمجھ بیٹھے اور جواب میں ایسے ایسے پیغامات بھیجے جنہیں پڑھ کر موبائل نے از خود خود ہینگ ہونے کی کوشش کی۔
ایک صاحب نے تنبیہ کی: "آج کے جدید دور میں یہ ایک خوبصورت روایت ہے، رابطے کا ذریعہ ہے، آپ کو شکر گزار ہونا چاہیے!”
میں نے کہا، "بھائی، شکر گزار تو ہوں، مگر صبح سات بجے جب موبائل پر بارود پھولوں کی شکل میں پھٹتا ہے تو شکرگزاری ذرا مؤخر ہو جاتی ہے۔”
اب حالات یہ ہیں کہ جو پہلے کبھی کبھار خیر خیریت پوچھتے تھے، وہ بھی گڈ مارننگ بریگیڈ میں شامل ہو گئے ہیں۔
ایک محترم روزانہ نیا جانور لے آتے ہیں—کبھی بلی ہنستی ہوئی، کبھی خرگوش دعا مانگتا ہوا، کبھی چمگادڑ قلابازیاں کھاتی ہوئی۔
پوچھا تو کہنے لگے، "جانوروں میں سچائی ہوتی ہے، انسانوں سے بہتر!”
ایک صاحب جو واصف علی واصف کے مرید ھیں اور خود کو بھی ان سے کم نھیں سمجھتے، میسیج کیا کہ آپ کا کالم سوا ایک شر انگیزی کے کچھ نھیں اور یہ حقوق العباد کے منافی ھے جو کہ ناقابل معافی ھے۔
ایسا بھی نہیں کہ سب خفا ہوئے، کچھ نے دل سے سراہا، اور اسی کالم کو اتنے رنگوں اور تصویری اثرات کے ساتھ آگے فارورڈ کیا کہ میرا سادہ سا طنز ڈیجیٹل جشن میں بدل گیا۔
جس شے کی اصلاح چاہی، وہی نشانِ فخر بن گئی۔
اب سنجیدگی سے سوچیے، اگر کسی کے پاس کہنے کو کچھ خاص نہیں ہے تو خاموشی بھی ایک بڑا خوبصورت تحفہ ہو سکتا ہے۔
فون رکھا ہے اپنی سہولت کے لیے، نہ کہ روزانہ اخلاقی، روحانی اور تصویری بمباری برداشت کرنے کے لیے۔
کبھی تو لگتا ہے کہ میرا موبائل نہیں، کوئی دیوار ہے جس پر ہر صبح کسی نے "خوش رہو، مسکراؤ، چمکو دمکو” کا پوسٹر چسپاں کرنا ہوتا ہے۔
دل تو کرتا ہے ایک صبح اٹھ کر خود ایک عدد جوابی "گڈ مارننگ” سب کو ارسال کر دوں۔
ثابت یہ ہوا کہ آپ کسی کو شعور ٹھونس نہیں سکتے اور کسی کو فی زمانہ سمجھا نھیں سکتے۔
اپنے تئیں ہر دوسرا آدمی بقراط ہے نانا فرنویس ہے اور حکیم جالینوس ���ہے.
تو کرتے رہئیے صاحب
آپ بھیجتے رہئیے ہم بلاکرتے جائیں گے�.