میں بیمار ہوں!

بیماریوں کو چھپانا ہمارا سماجی رویہ ہے مگر اس روایت کو توڑتے ہوئے میں سرعام اعتراف کرتا ہوں کہ میں بیمار ہوں۔نہ صرف یہ کہ مجھے جسمانی عوارض لاحق ہیں بلکہ میں نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہوں۔ ہر پروفیشن کی مخصوص جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں، ٹیکسٹائل مل کے مزدور کپاس کے ذرات سے ٹی بی کے مریض بنا کرتے تھے ،آرٹسٹوں اور کاتبوں کی بینائی کمزور ہوجاتی تھی، صحافیوں میں ناقدانہ نظر سے معاملات کو دیکھ دیکھ کر چڑچڑا پن آجاتا ہے، وزیروں اور اہل اقتدار کی گردن میں سریا آنے سے وہ متکبر ہو جاتے ہیں اور باقی انسان انہیں بیوقوف لگتے ہیں حالانکہ وہ خود عقل اور توازن سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، زیادہ تر اینکر شہرت کے اس قدر بھوکے ہو جاتے ہیں کہ وہ خالی سڑک پر بھی اپنے مداح ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ عہدے ان کا حق ہیں ان عہدوں سے اُتر کر انہیں بھی یہ بیماری لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہی کہلائیں اور باقی زندگی میں انکی یہ خواہش بیماری بن جاتی ہے کہ دوبارہ کیسے ان عہدوں پر پہنچیں۔ میں نے ذاتی طور پر یہاں ہر سابق وزیر اعظم اور سابق وزیراعلیٰ کے سٹاف کو اپنے باس کو خوش کرنے کیلئے ہمیشہ انہیں یس وزیراعظم اور یس چیف منسٹر کہتے ہی سنا ہے حالانکہ انہیں اس عہدے سے ہٹے برسوں گزر چکے ہوتے ہیں یہ بیماری نہیں تو اور کیا ہے؟ بیشتر لوگ اپنے گھر والوں سے احترام کروانے اور انکے عہدے یا اثر کے مطابق عزت کروانے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اپنی افسری یا اپنا اقتدار دفتر چھوڑ کر نہیں آتے وہ گھر میں بھی افسر اور صاحب بن کر اکڑے پھرتے ہیں۔ مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ انہی مریض افراد میں سے ایک میں بھی ہوں ،میں شہرت کا بھوکا ہوں، میں ہر ایک سے توقع کرتا ہوں کہ نہ صرف مجھے پہچانے بلکہ اس کا اعتراف بھی کرے، میرا اپنے جھوٹے اثرورسوخ پر ناز بیماری بن چکا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میرے ارد گرد سب کچھ میری مرضی سے ہو۔ میری جھوٹی انا میرے جسمانی قد سے بڑھ کر جن بن چکی ہے، اس لئے ہر حرف اختلاف میری طبعِ نازک پر گراں گزرتا ہے، کوئی میری اصلاح کیلئے بھی مجھے مشورہ دینے کی کوشش کرے تو مجھے اپنا دشمن لگتا ہے مجھے یوں لگتا ہے کہ بس میں ہی ٹھیک ہوں باقی سب غلط۔

میں گاڑی میں بیٹھا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ صرف میری گاڑی کا ہی سڑک پر حق ہے ،راستے میں آنے والی ہر موٹر بائیک یا گاڑی مجھے غلط ڈرائیونگ کا شکار اور راستے کی رکاوٹ لگتی ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ ’’گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔ ‘‘گاڑی بڑی ہو ، مہنگی ہو تو سڑک پر چلنے والے اور بائیکر کیڑے مکوڑے لگتے ہیں’’ واہ میں واہ‘‘ ہی میری بیماری ہے ۔

میں بولوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ مکمل سچ صرف میرے پاس ہے باقی سب جھوٹے، لفافےیا کسی کے ایجنٹ ہیں۔ ملک کے مسائل کا جو حل میرے پاس ہے وہ نہ تو آج تک کسی کو سوجھا ہے اور نہ میرے سوا ملک کو کوئی اور ٹھیک کرسکتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ میری مخالفت کرنے والے سب ملک کے غدار، کرپٹ اور بے حس ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان غداروں کا قلع قمع کرکے ہی ملک کو بچایا جا سکتا ہے ۔میری بیماری نے مجھے یقین دلایا ہوا ہے کہ اگر میرے نقادوں سے یہ سرزمین پاک ہو جائے تو یہاں خوشحالی اور ترقی آ جائے گی ،مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے وہ احمق ہیں جو دنیا کےجدید علوم اور تازہ حالات سے بے خبر ہیں، اس ملک کی سیکورٹی کا خیال صرف مجھے ہے ۔سب سے بڑا محب وطن بھی میں ہی ہوںجو لوگ میری طرح نہیں سوچتے وہ سب ناقابل معافی ہیں، میں ہی پاکستان ہوں ،میں ہی سب سے عقلمند ہوں ،سب سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں، ارد گرد مجھے صرف چھان بورہ ہی نظر آتا ہے۔ میں بیمار ضرور ہوں مگر اس کے باوجود سکہ میرا ہی چلنا چاہئے، ماہر نفسیات نے مجھے سمجھایا کہ باقی دنیا بالکل نارمل ہے صرف آپ ابنارمل ہیں مگر مجھے تو وہ ماہر نفسیات بھی مکمل طور پر ابنارمل لگا۔

میں اپنے تئیں افسر بھی ہوں، افسر شاہی کا نمائندہ ہوں، میں ہی حکومت اور اختیار کا مالک اور منبع ہوں ۔اس ریاست ،اس حکومت، اوراس رعایا کو میں ہی چلاتا ہوں ،میں اپنے ملاقاتی سے آدھا ہاتھ ملاتا ہوں سیٹ سے اٹھتا بھی ہوںتو علامتی طور پر جسمانی طور پر نہیں دراصل یہ میرے معیار کے لوگ ہی نہیں ہیں ،انہیں مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کا کیا علم ! یہ صرف ہم ہیں جو اس ہارڈسٹیٹ کو محنت اور تدبر سے چلا رہے ہیں یہ ملک سیاست دانوں کے ذمے ہوتا تو یہاں انتشار اور افراتفری ہوتی ۔

میرے اندر میرا ایک بھائی عسکری خان بھی بیٹھا ہوا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ارض وطن کیلئے خون میں بہاتا ہوں اور ہیرو دوسرے بنتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ اہل سیاست بے تدبیر، اہل صحافت بے عقل ، عوام بھیڑ چال کے پابند ہیں اس لئے ریاست کو اگر میں نے اپنی نگرانی میں نہ رکھا تو یہ غداروں کی آماجگاہ بن جائے گی اور دشمن دراندازی کرکے ریاست پر قبضہ کر لیں گے یا ملک ہی توڑ دیں گے۔

میں دل ہی دل میں خود کو انصاف پسند جج بھی سمجھتا ہوں ،میں جس نظریے یا سوچ پر یقین رکھتا ہوں اسی کی نظر سے فیصلے لکھتا ہوں، سالہا سال میں زورآور طاقتوں کے ساتھ مل کر اسمبلیاں توڑنے کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کرتا رہا پھر آٹھویں ترمیم ختم ہونے کے بعد وزیر اعظموں کوگھر بھیجنے کا اختیار خود لے لیا اور سمجھنے لگا کہ میں طاقتوروں سے بھی طاقتور ہو گیا ہوں پھر میں نے ریاست، سیاست اور حکومت اپنی مرضی کے مطابق چلانی شروع کی ،طاقتوروں سے لڑائی مہنگی پڑی اب میں لرزتے ہاتھوں سے اپنی طاقت و اختیار کی آخری جنگ لڑ رہا ہوں۔

میں جو کوئی بھی ہوں، میں صحافی ہوں یا عسکری ، میں حکمران سیاست دان ہوں یا عام آدمی، میں جج ہوں یا مدعی ، میں بیوروکریٹ ہوں یا سرخ فیتے کا شکار متاثرہ آدمی، میری سوچ سب جیسی ہے۔

صرف میں ہی بیمار نہیں ہم سب بیمار ہیں، ہم سب ابنارمل ہیں، حالات و واقعات ہمیں بیمار کر دیتے ہیں۔ ابنارمل حالات ابنارمل لوگ پیدا کرتے ہیں۔ خودکش بمباروں کے دیس میں زندگی کی دعا کرنے و الے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟جہاں سب بیمار ہوں آپ صحت مند کیسے رہ سکتے ہیں ؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کو نارملائز کیا جائے دشمنیاں ،گالیاں، دشنام، طعنے، احتجاج، مارکٹائی ، تشدد اور انتقام دونوں اطراف کو ابنارمل کر رہے ہیں ،ہمیں احساس نہیں کہ ہم سب اس صورتحال کے آسان ترین شکار ہیں ۔نارمل لوگ حالات کا شکار کرتے ہیں اور ابنارمل لوگ حالات کے شکار بنتے ہیں ہم شکار بن چکے بلکہ ہو چکے ہیں ۔آئیے اب نارملائزیشن کی طرف چلیں …..

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے