ضرورت ہے ایک نظریے کی

بہت سال پہلے کی بات ہے، ایک معاصر روزنامہ کے صفحہ اوّل پر ایک چھوٹی سی تصویر شائع ہوئی، تصویر میں ایک شخص غالباً کسی مندِر میں مورتی کے سامنے کھڑا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ یہ شخص خود کو مسلمان کہتا ہے مگر دیکھیے ہندوستان کے ایک مندر میں موتی کے آگے کھڑا ہے۔ جس شخص کا ذکر ہو رہا ہے اُس کا نام غلام علی ہے اور وہ پاکستان کا مایہ ناز غزل گائیک ہے۔ میں اُس وقت بہت چھوٹا تھا، مطالعہ پاکستان ہماری رگوں میں دوڑتا تھا، یہ تصویر اور اُس کی تشریح دیکھ کر خون کھول اٹھا، اُس وقت اگر غلام علی صاحب کہیں میری دسترس میں ہوتے تو شاید میں کوئی چیز اٹھا کر اُن کے سر پر دے مارتا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ میری پہنچ سے دور ہندوستان میں تھے۔ خیر، وقت گزر گیا اور یہ تصویر میرے ذہن کے کسی کونے میں رہ گئی۔ مگر یہ بات صرف ایک تصویر کی نہیں، نصف صدی کا قصّہ ہے اور وہ قصہ کچھ یوں ہے۔

ہم میں سے وہ لوگ جو ستّر کی دہائی میں پیدا ہوئے اور اسّی میں اُن کا لڑکپن گزرا، وہ نظریہ پاکستان کے ایک خاص نسخے کی پیداوار ہیں، یوں تو وہ نظریہ گزشتہ75 برس سے آج تک پڑھایا بلکہ رٹایا جا رہا ہے مگر ستّر، اسّی اور نوّے کی دہائی میں یہ نظریہ اپنے عروج پر تھا اور نوائے وقت اُس کا علمبردار تھا۔ اس اخبار کے مدیراِس نظریے پر پہرا دیتے تھے اور کم از کم پنجاب کی حد تک ہر دانشور، سیاست دان، صحافی، لکھاری، شاعر حتیّٰ کہ گلوکار پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے، جہاں کہیں کوئی شخص انہیں اِس نظریے کے خلاف معمولی سی حرکت بھی کرتا نظر آتا وہ فوراً اُس کا محاسبہ کرتے اور ”مجرم“ کو کیفرکردار تک پہنچاتے۔ غلام علی کے ساتھ انہوں نے یہی کیا تھا۔ پنجاب شروع سے ہی پاکستان کی نظریاتی اساس کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، نظامی صاحب نے اِس گڑھ میں گویا اپنا قلعہ بنا لیا۔ میکلوڈ روڈ سے پینٹر منگوا کر وہ اِس قلعے کی دیواروں پر کئی برس تک ’’افغان باقی کہسارباقی‘‘ کے نعرے لکھواتے رہے۔

ان کا طوطی کم و بیش چالیس برس تک بولتا رہا، اِس تمام عرصے میں انہوں نے ایسا طلسم قائم کیے رکھا کہ پنجاب میں کسی کی جرات نہ ہوئی کہ اُن کے بیان کردہ نظریہ پاکستان سے اختلاف کر سکے۔ اگر کسی کو اِس بات میں شک ہے تو وہ پاکستان اور خاص طور سے پنجاب میں تعمیر کردہ شاہراہوں، اسکولوں، کالجوں، باغوں اور ہر چھوٹے بڑے سرکاری منصوبے کے ناموں کی فہرست نکال کر دیکھ لے، نوّے فیصد ناموں میں اقبال اور جناح شامل ہوگا۔یہاں سوال پیدا ہوگا کہ اِس میں کیا برائی ہے؟

کیا بانیانِ پاکستان کا اتنا بھی حق نہیں؟ کیا امریکہ اور دیگر ممالک میں یوں نام نہیں رکھے جاتے؟ بالکل رکھے جاتے ہیں، امریکہ میں بے شمار سڑکیں، جامعات اور گلیاں تھامس جیفرسن اور جارج واشنگٹن وغیرہ کے نام سے منسوب ہیں مگر باریک سا فرق یہ ہے کہ وہاں کسی مخصوص نظریے کو پروان چڑھانے کی خاطر یہ کام نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہاں ایسا ماحول بنایا گیا جس میں اِس غیر تحریری قانون کی خلاف ورزی ممکن نہیں تھی۔ اِس بات کو سمجھنا ہو تو آج کے ہندوستان کو دیکھ لیں جہاں مغلیہ دور سے منسوب ہر سڑک اور عمارت کا نام احمقانہ انتہا پسندی کے جذبےکے تحت محض اِس لیے تبدیل کیا جا رہا ہے کہ اُس کا تعلق مسلمانوں سے نکلتا ہے۔ مودی سرکار نے بھارت کی تاریخ بھی تبدیل کرنا شروع کردی ہے اور وہ دن دور نہیں جب انڈیا کے اسکولوں میں پڑھایا جائے گا کہ پانی پَت کی پہلی لڑائی میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست نہیں دی تھی بلکہ بال ٹھاکرے کی نسل کے کسی بزرگ نے یہ کارنامہ انجام دے کر جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی تھی۔ اِس سے پہلے کہ بات لال قلعے تک جا پہنچے، ہم لاہور کے شاہی قلعے واپس آتے ہیں۔

بابائے صحافت کی وفات 2014ء میں ہوئی مگر اِس سے پہلے ہی اُن کا سحر ختم ہونا شروع ہو گیا تھا کیونکہ ان کے اخبار میں وہ جان نہیں رہی تھی جو کبھی اُس کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔ رہی سہی کسر نت نئے ٹی وی چینلز نے پوری کر دی، الیکٹرانک میڈیا پر نوائے وقت مارکہ نظریہ پاکستان کے حوالے سے مباحث نشر ہونا شروع ہوئے جس میں لوگوں نے تیکھے سوال پوچھنے شروع کیے مگر انہیں تسلی بخش جواب نہ ملے۔ اُس کے بعد آیا سوشل میڈیا کا طوفان جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ آج اِس سوشل میڈیا پر پاکستان کے بلاگرز اور یوٹیوبرز کی بھرمار ہے جن کے چینلز پر ہر قسم کا مواد دستیاب ہے، نتیجہ اِس کا یہ نکلا ہے کہ اب وہ بیانیہ نہیں بِک رہا جو کسی زمانے میں وہ دائیں بازو کا اخبار فروخت کیا کرتا تھا اور نظریاتی شیئرمارکیٹ میں جس کی مانگ تھی۔ اِن سب باتوں نے مل کر ملک میں ایک نظریاتی خلا پیدا کر دیا۔ یہ نظریاتی خلا پُر کرنا اِس لیے ضروری ہے کہ آج کے جدید ذہن کو آپ نظریہ پاکستان کامخصوص ورژن نہیں بیچ سکتے، آج کی دنیا میں Pluralism اور Inclusivity کا فیشن ہے، اِس دنیا میں کسی کو رنگ، نسل، مذہب کی بنیاد پرکمتر سمجھنے کاتصور نہیں اِلّا یہ کہ ریاستی سطح پر باقاعدہ نظریہ بنا کر اِس کی تشہیر کی جائے۔

جس طرح ہر انسان اپنی زندگی میں تجربات سے سیکھتا اور آگے بڑھتا ہے اُسی طرح ریاستیں بھی ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرکے آگے بڑھنے کا راستہ نکالتی ہیں۔ برطانیہ سمیت وہ تمام یورپی طاقتیں جنہوں نے ماضی میں نوآبادیاتی نظام قائم کیے، آج کی تاریخ میں یہ اعلان نہیں کرتی پھرتیں کہ ہم نے محکوم علاقوں میں جو کچھ کیا وہ درست تھا اور موقع ملا تو دوبارہ کریں گے۔ یہی نسخہ ہمیں بھی سیکھ لینا چاہیے اور اپنی نسل کو بتانا چاہیے کہ پاکستان کی اساس جناح صاحب کی23مارچ 1940ء کی تقریر نہیں بلکہ قائد اعظم کی11اگست 1947ء کی تقریر ہے۔

اِس بات سے نہ کوئی قیامت آئے گی اور نہ ہی ہماری نظریاتی اساس پر کوئی سوال اٹھے گا۔ قائد کے اِس نظریے کو بنیاد بنا کر ہی نظریاتی خلا کو پُر کیا جا سکتا ہے اور ایک نئے روشن خیال پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جو ایک فلاحی ریاست ہو گی اور جہاں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ محض زبانی نہیں بلکہ عملاً ہو گا۔ گو کہ یہ باتیں سیاسی جماعتوں کے منشور میں پہلے سے موجود ہیں مگر کاغذوں کی حد تک، حقیقت میں اِن جماعتوں کا بیانیہ مذہبی ہے۔ ہمیں پاکستان کو ایک نئی بنیاد، ایک نئی شناخت اور ایک نیا تصور دینا ہوگا، اور اگر یہ تصور نہ دیا گیا تو خدشہ ہے کہ انتہا پسند قوتیں اپنا بیانیہ بنانے میں کامیاب ہو جائینگی جو ملک کیلئے نہایت خطرناک بات ہوگی۔ یہ موقع موجود ہے مگر جو بڑھ کر خود اٹھا لے گا ہاتھ، مینا اسی کا ہوگا۔
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے