مولانا محمد عمار خان ناصر مدظلہ کا ایک لیکچر سننے کو ملا، جو چارلس ٹیلر نامی ایک کینیڈین مفکر کی کتاب A Secular Age کے تعارف و تجزیہ پر مشتمل تھا۔ یہ گفتگو ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے زیر اہتمام ایک سیشن میں کی گئی، کتاب کا موضوع یہ تھا کہ مغربی معاشروں کے فکری ارتقاء کی تفصیل و تاریخ کیا ہے؟ کیسے یہ معاشرے مذہب پرستی سے مذہب بیزاری تک پہنچے؟ اس کے اسباب و عوامل تفصیل اور فلسفیانہ مباحث کے ساتھ A Secular Age میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ البتہ اس کتاب میں مصنف نے موجودہ مغربی سماج کی فکری اعتبار سے کچھ نقشہ کشی کی ہے، یعنی اس وقت مغرب میں ایمان اور ترک ایمان کے درمیان کتنی پوزیشنز ہیں اور وہ کون کون سی ہیں ۔ ہمارے ناقص خیال میں غیر اعلانیہ طور پر وہ صورتحال ہمارے معاشرے میں سرایت کر گئی ہے۔ "فقہی جزئیات” پر مصر دار الافتاء کے مسند نشین تو "الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون” کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں البتہ درد دل رکھنے والے نوجوان اہل علم کے لیے مغربی رجحانات کی مشرقی بالخصوص مسلم سماج میں پائے جانے والی مماثلتیں پیش کی جاتی ہیں۔ شاید مذہب اور معاشرے کے باہمی تعلق کی کوئی متوازن اور قابلِ قبول صورت سامنے آ سکے۔
اسی مناسبت سے یہ نقوش بھی واضح ہونگے کہ کن خطوط پر کام کی اہمیت اور ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں الحاد کسی داخلی کشمکش سے زیادہ بیرونی عوامل کی اثر پذیری سے زیادہ پھل پھول رہا ہے اور اسکی بنیادیں علمی و فکری سے زیادہ جذباتی اور سطحی ہیں ، سو مغربی معاشرے کے تناظر میں یہاں تفہیم کے مسائل پیش آ سکتے ہیں البتہ مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے ان معاشروں کا تفصیلی اور ارتقائی جائزہ نہایت اہم ہوگا ۔ مولانا محمد عمار خان صاحب نے چارلس ٹیلر (Charles Taylor) کی مذکورہ شہرۂ آفاق تصنیف A Secular Age کا جس تفصیل سے فکری تعارف و تجزیہ پیش کیا ہے، وہ اہل فکر و نظر اور شائقین علم کو اپنی جہات پر نظرِ ثانی پر آمادہ کر سکتا ہے۔ مولانا محمد تقی امینی رح کی کتاب "لا مذہبی دور کا تاریخی پس منظر” نفیس اکیڈمی کراچی سے 1998 میں شائع ہوئی تھی ۔ اس کتاب میں قرآن کریم کی روشنی میں 50 کے قریب ان آثار و اثرات کا بیان ہے جسے مذہب و ترک مذہب کی درمیانی کیفیات کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ کسی تحریر میں اس کا بھی اطلاقی جائزہ لیا جائے گا ان شاءاللہ
بہرحال ! مذکورہ لیکچر کے آخر میں جب ڈاکٹر صاحب نے ٹیلر کے تجزیے کی روشنی میں ایمان اور الحاد کے درمیان ابھرنے والے کچھ "درمیانی رجحانات” (Intermediate Tendencies) کا تذکرہ کیا تو دریں اثناء شدت سے احساس ہوتا رہا کہ یہ صرف مغربی معاشروں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ ہماری مشرقی اور بالخصوص مسلم دنیا میں بھی انہی رجحانات کی بازگشت سنائی دیتی ہے، اگرچہ یہاں کے اسباب و مظاہر کچھ مختلف ہیں۔
چنانچہ ضروری محسوس ہوا کہ اہل علم اور اصحابِ فکر کی توجہ اس رخ پر مبذول کی جائے تاکہ تعبیرِ دین اور مخاطَب شناسی میں ایک نئی سنجیدگی پیدا ہو۔
چارلس ٹیلر کی کتاب A Secular Age اس سوال کا فکری جواب ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ خدا پر ایمان لانا ایک ممکنہ آپشن بن گیا؟ جبکہ 1500ء میں خدا پر ایمان لانا ایک فطری امر تھا، تو آج کے دور میں اسے عقل سے ماوراء سمجھنا کیوں عام ہے؟
ٹیلر کے نزدیک سیکولرزم صرف ریاست و مذہب کی علیحدگی کا نام نہیں بلکہ انسانی شعور کی "شرائطِ امکانِ ایمان” (Conditions of Belief) میں ایک وجودی تبدیلی (Ontological Shift) ہے۔
یہ وہ تبدیلی ہے جس میں انسان نے خود کو ایک "خود مختار وجود” (Buffered Self) کے طور پر دریافت کیا جو کسی بیرونی اتھارٹی کی بجائے اپنی باطنی صداقتوں کی روشنی میں فیصلے کرتا ہے۔
ٹیلر کے تجزیے کے مطابق، جدید دور میں ایمان اور الحاد کے درمیان ایک ایسا نیا فکری زون بھی وجود میں آ چکا ہے جہاں فرد نہ مکمل طور پر الحاد کی طرف مائل ہوتا ہے، نہ ہی روایتی مذہب کا تابع رہتا ہے۔
یہ رجحانات درج ذیل شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں:
ادارہ جاتی مذہب سے دوری:
افراد روحانی وابستگی رکھتے ہیں مگر کلیسا یا مدرسے جیسے اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔
ذاتی روحانیت:
عبادات اور روحانی ریاضات کو نجی سطح پر جاری رکھتے ہیں مگر کسی مذہبی روایت سے باضابطہ جڑاؤ نہیں ہوتا۔
ثقافتی مذہبیت:
مذہبی علامات کو تہذیبی و ثقافتی شناخت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
اخلاقی انسانیت پسندی:
مذہب کے بجائے اخلاق کو فطری یا عقلی بنیاد پر اپنایا جاتا ہے۔
سائنس اور روحانیت کا امتزاج:
سائنس، یوگا، مراقبہ، یا نیو ایج فلسفوں کو روحانی سکون کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیلر ان سب کو "ایمان و انکار کے مابین فکری اشکال” (Forms between Belief and Unbelief) کہہ کر موسوم کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مشرقی مسلم معاشروں میں بھی یہی رجحانات پائے جاتے ہیں؟
ہمارے نزدیک جواب یقینی طور پر اثبات میں ہے، اگرچہ یہاں کی تاریخ، تہذیب، اور مذہبی شعور مغرب سے مختلف ہیں، تاہم بعض مماثلتیں حیران کن طور پر قابلِ توجہ ہیں: مثلاً
ثقافتی مذہبیت (Cultural Islam):
اسلام ایک تہذیبی حوالہ ضرور ہے، مگر عملی التزام اور شعوری تعلق کمزور ہو رہا ہے۔
ذاتی تعبیراتِ دین (Religious Subjectivism):
سوشل میڈیا اور انفرادی شعور نے دین کو ایک نجی تجربہ بنا دیا ہے، جہاں روایت سے زیادہ شخصی تاویل معتبر سمجھی جاتی ہے۔
روحانیت بمقابلہ فقہ:
نماز، قرآن خوانی، ذکر، اور صوفیانہ شاعری کو اپنایا جاتا ہے مگر شریعت کے فقہی پہلو سے گریز کیا جاتا ہے۔
سیکولر اسلامی رجحانات:
کچھ طبقات اسلام کو ایک اخلاقی یا تہذیبی نظام کے طور پر تو اپناتے ہیں، مگر اجتماعی شریعت یا فقہی نظام کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
انفرادیت (Individualism):
یہ وہ رجحان ہے جس پر ٹیلر نے بطور خاص 1960 کی دہائی میں امریکہ کے تناظر میں روشنی ڈالی کہ کس طرح فرد نے اپنے وجود کو فیصلہ سازی کا واحد ماخذ ماننا شروع کیا۔
آج یہی "مابعد جدید انفرادیت” ہمارے ہاں بھی سرایت کر چکی ہے۔
یہ رجحان مذہب، خاندان، اور روایت، تینوں کے خلاف ایک خاموش بغاوت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ فرد یہ سمجھتا ہے کہ مستقبل کے ہر اہم فیصلے کا حق اسی کو حاصل ہے۔ کوئی خارجی ہدایت یا روایت اس پر فیصلہ مسلط نہیں کر سکتی۔
مذہب بھی اگر کوئی مطالبہ کرے تو وہ فرد کے "شخصی حقِ انتخاب” سے کم تر قرار پاتا ہے۔
یہ رجحان اسلامی معاشروں میں خاندانی نظم (Patriarchal Family Structure) اور اجتماعی فتویٰ کے مزاج سے براہ راست ٹکراتا ہے، اور ایک تعبیراتی بحران (Hermeneutical Crisis) کو جنم دیتا ہے۔
اہلِ مذہب کے لیے ایک دعوتِ فکر!
ان رجحانات کا سوال یہ نہیں کہ وہ درست ہیں یا غلط، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ مذہب ان کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں؟ یا وہ اب بھی صرف ایمان اور الحاد کے دو کناروں میں گفتگو کرتے ہیں؟
کیا وہ ان درمیانی رجحانات کو اصلاح و رہنمائی کی بنیاد بنانے کے بجائے انکار و طعن کی بنیاد بنائے ہوئے ہیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہلِ علم ان فکری کیفیات کو ایک سماجی مظہر (Sociological Phenomenon) کے طور پر سمجھیں، اور اس کا علمی، فکری، اور روحانی جواب مرتب کریں، نہ کہ صرف فتووں اور طعنوں سے انکار کریں۔
خلاصۃ البحث
یہ کہ چارلس ٹیلر کی کتاب کا ایک مختصر جائزہ اور اس کے اثرات کی ایک فکری جھلک دکھانے سے غرض یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہم اہلِ علم، علما، اور فکری طبقات کی توجہ اس اہم پہلو کی طرف مبذول کرائیں کہ دنیا میں نہ صرف ایمان اور الحاد کی کشمکش جاری ہے، بلکہ ان کے درمیان ایک وسیع درمیانی زمین بھی ہے، جسے سمجھنے، مخاطب بنانے، اور سنوارنے کی اشد ضرورت ہے۔